• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک خبر کے مطابق یورپ میں (بالخصوص برطانیہ) مسلم کمیونٹی یا امہ یا ملت جو بھی کہہ لیجئے حسب روایت، حسب معمول اور حسب سابق ایک مرتبہ پھر رمضان المبارک کے بعد عید کا چاند دیکھنے پر وقت سے پہلے ہی تقسیم ہوگئی ہے۔ کمیونٹی رہنمائوں کی طرف سے دھواں دھار بیانات داغے جارہے ہیں، ہر کوئی اپنی ’’بات‘‘ کو حرف آخرسمجھ رہا ہے۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ جس کو چاند نظر آئے وہ رویت کی صورت میں اطلاع دے تاکہ شرعی شہادت کے بعد اعلان کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا ہے کہ رویت ہلال کا مسئلہ دینی اعتبار سے حساس ہے، اس لئے رویت کی تصدیق کے بعد صدر مجلس علمائے دین کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ مسلمان صبر و تحمل سے کام لیں۔ یورپ میں مسلمانوں کی یہ تقسیم حصوں پر مشتمل ہے۔ برطانیہ، جرمنی، فرانس (مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد فرانس میں ہے۔) ہالینڈ، بلجیم اور دوسرے یورپی ملکوں میں رہنے والے مسلمان جو سعودی عرب کو فالوکرتے ہیں وہ ایک ہی دن روزہ رکھتے ہیں اور ایک ہی دن عید مناتے ہیں جبکہ مراکش، ترکیہ اور پاکستان کو فالو کرنے والے مسلمانوں کا اپنا الگ ایجنڈا ہے جبکہ تیسرا گروپ اہل تشیع کا ہے جو رمضان اور عیداپنےمسلک کے حساب سےمنا تے ہیں ۔

میرے حساب سے رویت ہلال کا مسئلہ یا وجودِ قمر کا مسئلہ مسلمانوں کے لئے دنیا بھر میں کوئی نیا یا انوکھا مسئلہ نہیں ہے، یہ اختلافات صدیوں سے ہوتے آئے ہیں اور جب تک آبزرویٹری کی مدد نہ کی جائے گی، ہوتے رہیں گے، یہاں مجھے ایک بزر جمہر عالم کا فتویٰ یاد آرہا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ چاند کی ہلالی شکل کی موجودگی شرعی حد کے لئے بہت ضروری ہے۔ آبزرویٹری کا نظام اسی وقت قابل قبول ہے جب وہ شرعی حقوق کو پورا کرے اور شرعی حد کے لئے چاند کی ہلالی شکل میں افق پر موجودگی بے حد ضروری ہے۔ یورپ میں نئی نسل کنفیوژ اور پریشان ہے۔ رویت ہلال جیسے آسان معاملے کو خواہ مخواہ الجھا دیا گیا ہے، کوئی مقام جو چاند کے مطلع میں واقع ہے لیکن وہاں چاند نظر نہیں آتا بلکہ کسی دوسرے مقام پر جو مطلع میں داخل ہے، وہاں چاند نظر آتا ہے تو مطلع کے سارے خطے میں رویت تصور ہوگی۔ سائنسی معلومات سے استفادہ کرتے ہوئے عید کا تعین کرنے کے لئے مل بیٹھ کر فیصلہ کریں تاکہ یورپ کے مسلمان ایک ہی دن عید مناسکیں۔ بعض علما ئےکرام نے اپنے بیانات میں یہ بھی کہا ہے کہ عید کی تاریخ کا اعلان قبل از وقت نہیں ہونا چاہئے یا دوسرے ملکوں مثلاً سعودی عرب سے شہادت پر عمل کیا جائے، ایسا ممکن نہیں اور اس طریقے سے یہ مسئلہ حل بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ ایک غیر مسلم ملک میں رہتے ہوئے ہمارے کئی مخصوص مسائل ہیں، ضروریات ہیں، مثلاً بچوں کے اسکول، دفاتر، فیکٹریاں، ہوٹل اور دوسرے اداروں سے پیشگی چھٹی، مسجدوں میں سیکورٹی اور پارکنگ سے متعلق محکمہ پولیس کی پلاننگ، نماز پڑھنے کے لئے مناسب وقت پر عمارتوں کو کرایہ پر حاصل کرنا شامل ہیں اور پھر اکثروبیشتریورپ کا موسم بھی ابر آلود ہونےکی وجہ سے چاند کو چھپائے رکھتا ہے، اس لئے حالات، وقت اور موسم کا تقاضہ ہے کہ مسلمہ فلکیاتی معلومات، سائنسی اپروچ اور آبزرویٹری حساب کتاب کی مدد سے پہلے سے چاند کی تاریخ کا تعین کرلیا جائے تاکہ عین وقت پر ’’چاند‘‘ دھوکہ نہ دے جائے۔ فلکیاتی معلومات کی روشنی میں جس تاریخ کو وجود ِقمر اور امکانِ رویت ہو دونوں فارمولوں کو مدنظر رکھ کر عید کے دن کا اعلان کیا جائے، اس میں مسلم اور غیر مسلم ہونے کی کوئی بندش نہیں ہے، جب ہم نماز کے اوقات غیر مسلموں کے بتائے ہوئے اصولوں پر طے کرتے ہیں تو عید کا چاند آبزرویٹری کے کہنے پر کیوں نہیں نکال سکتے؟

یہ بھی تو سوچئے کہ آپ کے اس اختلاف و تضاد نے نئی نسل کو نہ صرف علما سے بلکہ دین اسلام سے بھی دور کردیا ہے۔ ہوسکے تو میرے اس شعر پر غور کیجئے…

راہبران قوم یوں تو رہبری کرتے رہے

پھر بھی ساری قوم یونہی ٹھوکریں کھاتی رہی

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین