• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ملک میں اگر سیاسی استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل ہو تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے اور معیشت ترقی کرتی ہے لیکن اگر ملک سیاسی انتشار کا شکار ہو تو غیر ملکی سرمایہ کار دور کی بات، ملکی بزنس مین بھی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اورصنعتوں کی پیداواری صلاحیت، ایکسپورٹس میں کمی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورتحال بے لگام ہوتی جارہی ہے جس سے کاروباری طبقے کا اعتماد بری طرح متاثر ہوا ہے۔ پرنسٹن یونیورسٹی میں معیشت کے پروفیسر اور ممتاز معاشی ماہر عاطف میاں نے موجودہ صورتحال کا ذمہ دار سیاسی و عسکری قیادت اور عدلیہ کو ٹھہرایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی اور خسارہ پورا کرنے کیلئے کرنسی نوٹوں کی چھپائی کی وجہ سے افراط زر (CPI) یعنی مہنگائی گزشتہ 50 سال میں 31.5فیصد کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکی ہے ، IMF معاہدے میں تاخیر سے بزنس مینوں اور عوام کا حکومت پر اعتماد ختم ہورہا ہےحکومت کو غیر یقینی سیاسی حالات کو جلد از جلد ختم کرکے سیاسی مکالمے کا آغاز کرنا ہوگا نہیں تو ملک مزید سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار ہوسکتا ہے ۔ آج ہر شخص سیاسی جماعتوں کے آپس میں مل بیٹھنے اور میثاق معیشت کی بات کررہا ہے کیونکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور اداروں میں محاذ آرائی سے براہ راست ملکی معیشت متاثر ہورہی ہے۔

واشنگٹن کے تھنک ٹینک USIP نے پاکستان کو قرضوں کی ادائیگیوں میں مشکلات کے باعث دیوالیہ ہونے کے ممکنہ خدشات میں ریکارڈ افراط زر یعنی مہنگائی، دہشت گردی میں اضافہ، مختصر اور درمیانی مدت کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں بتائی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دسمبر 2022میں پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضے 126.3ارب ڈالر ہیں جس میں 77فیصد (97.5 ارب ڈالر) براہ راست حکومتی قرضے اور 23فیصد مختلف حکومتی اداروں کے ہیں جس میں ملٹی لیٹرل پیرس کلب اور چین کے کمرشل قرضے بھی شامل ہیں۔پاکستان کو اپریل 2023سےجون 2026تک 77.5ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جو ہماری معیشت کے سائز کے مطابق بہت زیادہ ہے ۔ آنے والے 3سال میں زیادہ تر قرضوں کی ادائیگیاں چین کی ہیں۔ رواں مالی سال پاکستان کو اپریل سے جون 2023 تک 4.5 ارب ڈالر کی فوری ادائیگیاں کرنی ہیں جس کیلئے IMF نے اپنے پروگرام کی بحالی کو دوست ممالک کی امداد سے مشروط کردیا ہے جس میں سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر، UAE سے ایک ارب ڈالر اور چین سے 1.3 ارب ڈالر کا سیف ڈپازٹ رول اوور شامل ہے جس میں سے چین نے ایک ارب ڈالر رول اوور کردیا ہے جبکہ آئندہ مالی سال 2023-24 میں پاکستان کو 25ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جس میں چین کے 4ارب ڈالر سیف ڈپازٹ، سعودی عرب کے 3ارب ڈالر، یو اے ای کے 2ارب ڈالر، 1.1ارب ڈالر کے یورو بانڈز اور 1.1ارب ڈالر کے چینی بینکوں کے کمرشل قرضے شامل ہیں۔ مالی سال 2024-25میں پاکستان کو 24.6ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جس میں 8.2ارب ڈالر کے طویل المیعاد اور 14.5ارب ڈالر کے مختصر المیعاد قرضے، جس میں 3.8ارب ڈالر کے چین کے قرضے شامل ہیں۔ 2025-26 میں پاکستان کو 23ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جس میں 8ارب ڈالر کے طویل المیعاد قرضوں میں 1.8ارب ڈالر کے یورو بانڈز اور 1.9 ارب ڈالر کے چین کے کمرشل قرضے شامل ہیں۔

بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے شدید دبائو کے پیش نظر امریکی تھنک ٹینک نے پاکستان کو تجویز دی ہے کہ وہ ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے ایکسپورٹ، بیرونی سرمایہ کاری (FDI) اور ترسیلات زر میں اضافہ کرے اور ساتھ ساتھ ملکی امپورٹ کو کم کیا جائے، نہیں تو کرنٹ اکائونٹ خسارے میں اضافے سے پاکستان کو مزید نئے قرضے لینا پڑیں گے۔ اس وقت پاکستان میں اوسطاً 31سے 32 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ، 31ارب ڈالر کی ترسیلات زر اور بمشکل 2 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہورہی ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ہمیشہ کی طرح وطن پر اعتماد اور محبت میں ’’روشن ڈیجیٹل اکائونٹ‘‘ (RDA) میں 6ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ ملکی معیشت کی بدحالی اور عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی پاکستان کیلئے منفی ریٹنگ کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں پاکستانی بانڈز کی قیمتوں اور طلب میں شدید کمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان اس وقت بانڈز مارکیٹ سے سرمایہ کاری حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پہلے ہی 4 ارب ڈالر کی نچلی ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں جو صرف 3ہفتوں کے امپورٹ بل کی ادائیگی کے قابل ہیں لہٰذا پاکستان کو جون 2023میں IMF پروگرام ختم ہونے کے بعد فوراً نئے قرضے کیلئے IMF کے پاس جانا ہوگا یا ہمیں اپنے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کی درخواست کرنا ہوگی، نہیں تو ڈیفالٹ ہمارا مقدر ہوگا جس کے منفی اثرات سری لنکا کی طرح ہماری معیشت کو مزید نقصان پہنچائیں گے جو ایک نیوکلیئر اسٹیٹ کی حیثیت سے پاکستان برداشت نہیں کرسکتا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین