• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دلی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصور تھے ... دہلی نامہ (قسط نمبر 19)

چار دن دہلی میں کافی بھاگم بھاگ گزرے۔ دن چڑھتا تو دہلی کی سڑکوں پہ آوارگی کا آغاز ہوجاتا، جو رات گئے تک جاری رہتی۔ جب کہ اتنی سیر و تفریح کے بعد اب ہمارے دو ساتھیوں، چاچا منظور اور قادر گُل کی ہمّت جواب دے گئی تھی، تو فیض مصطفیٰ اور ہم پر مشتمل دو رکنی کابینہ نے فوراً ہمارے بستر پر اپنا ہنگامی اجلاس بلایا، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ چوں کہ ہمارے دو ساتھی دیر سے اُٹھنے کے عادی ہیں، تو کل صبح ہم دونوں چھے بجے ہی دہلی کی کوچہ گردی کو نکل جائیں گے۔ یوں چھے بجے فیض مصطفیٰ اور ہم ہوٹل سے نکلے۔ فیض بہت اللہ لوک آدمی ہے، حضرت نظام الدّین اولیاء سے اِس کی عقیدت بے حد و حساب، بے پایاں ہے۔ 

ویسے تو ہمارا ارادہ آج پرانا قلعہ (قلعہ کہنہ) اور شیر شاہ سوری کا قلعہ دیکھنے کا تھا، لیکن آٹو رکشے میں بیٹھ کر بستی نظام الدّین کی طرف چل دیئے۔ رکشا بہادر شاہ ظفر روڈ پہ کوٹلہ فیروز شاہ کے کھنڈرات کے قریب سے گزرا، رکشے والے نے بتایا ’’یہ بائیں ہاتھ جو کھنڈرات ہیں، وہ جنوں کے شہر کوٹلہ فیروز شاہ کے ہیں۔‘‘یہ قلعہ بادشاہ فیروز شاہ تغلق نے تعمیر کروایا، پھر ’’فیروز آباد‘‘ کے نام سے یہاں ایک شہر آباد کیا۔ شہر تو امتدادِ زمانہ سے صفحۂ ہستی سے مٹ چُکا ہے، البتہ قلعے کی باقیات ابھی تک موجود ہیں۔ دُور سے کوٹلہ فیروز شاہ کے کھنڈرات کو تکتے ہوئے ہم لوگ بستی نظام الدّین کی طرف نکل گئے۔ درگاہ پر حاضری کے بعد اگلی منزل شیر شاہ روڈ پہ واقع شیر شاہ سُوری قلعہ تھا۔

مکتبہ جامعہ کا بیرونی منظر
مکتبہ جامعہ کا بیرونی منظر

شیر شاہ روڈ پہ قلعہ کہنہ یا پرانے قلعے کے شیر شاہ سوری گیٹ پر اُترے۔ قلعہ کہنہ کا ایک حصّہ ہمایوں اور ایک، شیر شاہ سوری نے تعمیر کروایا تھا۔ قلعے کی اس جانب داخلے کا کوئی ٹکٹ نہیں تھا۔ فصیل اور فصیل کی بُرجیاں، قلعے کا دروازہ اور اس کے دوطرفہ برج جہلم کے قریب واقع روہتاس کے قلعے سے ملتے جُلتے ہیں۔ اسی طرف ایک بہت پرانی مسجد بھی ہے، جس کا نام ’’مسجد خیرالمنازل‘‘ہے۔ قلعےکا یہ دروازہ شیر شاہ سوری کے زمانے میں تعمیر ہوا تھا۔ متھرا روڈ پہ دوسری طرف پرانے قلعے کا وہ حصّہ ہے، جسے مغل شہنشاہ نصیرالدین بیگ محمّد ہمایوں (دوسرے مغل بادشاہ) نے بنوایا ہے۔

بادشاہ ہمایوں 1533ء میں گجرات کی مہم سے فارغ ہوا، تو دہلی میں لودھیوں کی شورش نے پھر سے سر اُٹھا لیا۔ شہر میں طوائف الملوکی اور خانہ جنگی کی کیفیت، فرقہ وارانہ فسادات عام تھے۔ نیز، مسلمانوں کی آپس کی چپقلش اور باہمی آویزش بھی عروج پہ تھی۔ ہمایوں بڑی سرعت سے دہلی شہر واپس پہنچا، لودھیوں کی شورش کو فرو کیا اور وسیع المشربی کی بنیاد پر تمام فرقوں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ’’دین پناہ‘‘ کے نام سے دہلی میں ایک نیا شہر آباد کیا۔ یہ قلعہ کہنہ یا پرانا قلعہ اسی شہر کی باقیات میں سے ہے۔ جب کہ کئی روایات کے مطابق قلعہ کہنہ اور شہرِ دینِ پناہ، مہابھارت کے زمانے کے شہر ’’اندرا پراستھا‘‘ کی باقیات پہ تعمیر کیا گیا ہے۔

شیر شاہ سوری گیٹ کے کھنڈرات سے نکل کر ہم نے متھرا روڈ پار کی اور پرانے قلعے کے دوسرے حصّے کی طرف چل دیئے، جہاں داخل ہونے کے لیے ٹکٹ لینا ضروری ہے۔ ہم نے ٹکٹ کاؤنٹر سے ٹکٹس خریدے، رسیدیں لیں، جنہیں جمع کروا کے داخلہ ٹوکن ملنا تھا، مگر ہم عجلت میں ٹوکن لیے بغیر ہی داخلی دروازے کی طرف چل دیئے۔ وہاں پہنچ کر جب گارڈ نے ٹوکنز طلب کیے، تو یاد آیا کہ وہ تو ہم نے لیے ہی نہیں۔ خیر، اُلٹےقدموں واپس لوٹے، ٹوکنز لیے اور پھر کہیں جاکرقلعے کےمرکزی دروازے سے، جسے ’’بڑا دروازہ‘‘ کہتے ہیں، اندر داخل ہوئے۔ 

اُس وقت بھوک بھی کچھ کچھ محسوس ہونے لگی، تو شیر شاہ سوری دروازے کے باہر، ریڑھی والے سے جو ہلدی رام کی نمکو دال اور بُھنے ہوئے چنوں کے کچھ پیکٹس اور لمکا خرید کے اپنی زنبیل، یعنی شولڈر بیگ میں ڈالی تھی، وہ بڑے دروازے کی ڈیوڑھی میں کھڑے ہو کر تناول فرمائی۔ بڑے دروازے کی محراب، ستون، بُرج اور بُرجیاں بھی قلعۂ روہتاس کے دروازے سے ملتی جُلتی ہیں۔ دروازے سے اندر داخل ہوئے، تو دائیں بائیں فصیل کےاندر بہت سی محرابی شکل کے دروازوں والی مقفّل کوٹھریاں نظر آئیں۔ پتا نہیں، اِن میں اب کیا مقفّل ہے۔ تارکول کی سڑک سبزہ زاروں کےبیچ میں سے گزرتے ہوئے دائیں طرف کو مُڑ گئی، جس پہ مٹر گشت کرتے ہوئے شیر منڈل جا پہنچے۔ شیر منڈل کی باقیات دو منزلہ ہشت پہلو سنگِ سُرخ کی عمارت پہ محیط ہیں۔ 

جب کہ دونوں منازل کے تمام پہلو محرابوں پر مشتمل، نیچے کی محرابیں بند، جب کہ اوپری منزل کی محرابوں میں کھڑکیاں کُھلتی ہیں۔ عمارت کی چھت پہ ایک گنبد نما چھتری ہے، یہ شیر منڈل فرید خان شیر شاہ سوری کے محل کی باقیات میں سے ہے۔ سوری خاندان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد بادشاہ نصیر الدّین ہمایوں نےبھی اس میں رہائش اختیار کی اور اسی شیر منڈل کی سیڑھیوں سے گر کر شہنشاہ ہمایوں کی موت بھی واقع ہوئی۔ شیر منڈل کے قریب ہی پرانے قلعےکی ایک بہت ہی خوب صُورت سی مسجد ہے، جس کے صحن میں کھڑے ہو کر ہم نے نشیب میں قلعے کی فصیل کے پار دیکھا، تو دریائے جمنا کا سوکھا پاٹ نظر آیا۔ مسجد میں کچھ گھڑیاں گزارنے کے بعد ہم نے شیر منڈل کے پاس کھڑے ہو کر بائیں ہاتھ پرانے قلعے کے ہمایوں گیٹ کو دیکھا اور پھر بڑے دروازے کی طرف واپس چل دیئے۔

ہمیں ہوٹل واپس پہنچ کر چاچا منظور اور قادر گُل کو ساتھ لینا تھاکہ آج جمعتہ المبارک تھا اور نیّت یہی تھی کہ نمازِ جمعہ جامع مسجد، دہلی میں ادا کریں۔ تو ہم دونوں پرانے قلعے کے قریب سے گرین بس میں بیٹھ گئے، جس کی حالت بہت ہی مخدوش تھی۔ بس کے ماٹھے حالات دیکھ کر دِلی سُکون ہوا کہ سرکاری سرپرستی میں چلنے والے شعبے یہاں بھی ہماری ہی طرح کے حالات سے گزر رہے ہیں۔ وہ سبز رنگ کی کھٹارا لاری، بس کم اور بس کی باقیات زیادہ لگ رہی تھی، جس میں سفر کرتے ہوئے یوں ہی محسوس ہو رہا تھا، جیسے ہم دہلی کے آثارِ قدیمہ کے اندر ہی کہیں گھوم رہے ہیں۔ 

جامع مسجد کے باہر…
جامع مسجد کے باہر…

راستے میں انڈیا گیٹ آیا اور گزر گیا۔ راشٹر پتی بھون کے پاس سے گزرے، کناٹ پیلیس کی دودھیا عمارتیں آئیں اور پھر پہاڑ گنج کے فلائی اوور سے گزر کر اپنے ہوٹل جا اُترے، جہاں چاچا منظور اور قادر گُل ہمارے منتظر تھے۔ جمعے کی نماز میں پون گھنٹہ باقی تھا، تو جلدی سے فریش ہو کر کپڑے تبدیل کیےاور ہوٹل کے باہر سے آٹو رکشے میں بیٹھ کر شاہ جہان آباد کے جامع مسجد دہلی کی طرف عازمِ سفر ہوگئے۔ رکشے والے نے آصف علی روڈ اور دریا گنج والا لمبا راستہ اختیار کرنے کے بجائے، پہاڑ گنج کی اندرونی تنگ گلیوں کا راستہ اختیار کیا اور اجمیری دروازے کے پاس سے گزر کر قاضی کے حوض جا پہنچا، جہاں سے چاوڑی بازار کے ہجوم کا نظارہ کرتے جامع مسجد کے شمالی دریبہ کلاں والے گیٹ پہ جا اُترے۔ 

جمعے کی نماز میں ابھی پندرہ منٹ باقی تھے۔ ڈر تھا کہ کہیں دہلی کے رش میں نماز نہ چُھوٹ جائے، پر شاباش رکشے والے کو، جس نے رکشے کو ہوائی جہاز بناکر ایسےچلایا کہ ہم نماز کےوقت کےقریب جامع مسجد پہنچ گئے۔ اس سے پہلے شاہ جہاں آباد کے اس گنجان آباد علاقے کے متعدّد چکر لگ چُکے تھے، مگر اِس عالی شان مسجد کے اندر قدم رکھنے کا شاید اذن نہیں ملا تھا۔ خیر، ہم مسجد کے گیٹ نمبر3 کی سیڑھیاں پھلانگتے، جوتوں کوبغل میں دبائے صحن میں جاپہنچے۔ دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں سنگِ سُرخ کا فرش انگاروں کی طرح دہک رہا تھا۔ شمالی برآمدے کے ستون کے ساتھ جوتے رکھ کر مسجد کے صحن کے بیچ میں واقع حوض پر وضو کیا۔ اتنے میں جمعے کا خطبہ شروع ہوگیا۔ آدھا صحن کپڑے کے شامیانوں کے سائے میں تھا اور ہم شامیانے کے نیچے آخری صف میں۔ نہ پوچھیں، اِس عالی شان، تاریخی مسجد میں نماز ادا کرتے ہوئے دل کی کیا کیفیت تھی۔ یوں لگا، جیسے شاہ جہان کا سنہری دَور ہے، ہندوستان کی اسلامی ریاست رشکِ جہاں ہے اور ہم اس کے باسی ہیں جب کہ آسمان بھی آنکھوں میں حیرتوں کے سمندر لیے اس شان دار مسجد کے گنبد و مینار کو تکتا ہے۔

نمازِ جمعہ کی ادائی اور دُعا کے بعد جب لوگوں کا انبوہِ کثیر مسجد کے دروازوں سے باہر نکل گیا، تو ہم لوگوں نے گُھوم پِھر کر پوری مسجد کا نظارہ کیا۔ مسجد کا مرکزی حصہ سنگِ مرمر اور سنگِ سُرخ کے امتزاج سے بنے ہال پہ مشتمل ہے، جس کے باہر محرابی دَروں والا دالان ہے۔ مسجد کی چھت سنگِ مَرمَر کے تین مدور گنبدوں پہ مشتمل ہے، درمیان والا گنبد دو بغلی گنبدوں سے سائز میں بڑا ہے۔ سنگِ مرمر کی ان مرمریں گولایوں کو سنگِ سیاہ کی دھاریاں نہایت دیدہ زیب بناتی ہیں، جب کہ مرکزی عمارت کے دو طرف، دو مینار آسمان کی وسعتوں سے ہم کلام ہیں۔ نیز، دس روپے کا ٹکٹ لے کر دائیں طرف کے مینار کے اوپر جاسکتے اور اس کی بلندی سے دہلی شہر کے نشیب و فراز کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ مسجد کے صحن کی تین اطراف برآمدوں پر مشتمل ہے، جن کے درمیان مسجد کے تین دروازے ہیں۔ دریبہ والے دروازے کے مشرق میں واقع برآمدے میں خواتین اور بچّوں کی نماز کی جگہ ہے۔

جامع مسجد دہلی1656 ءمیں بادشاہ شاہ جہان نے تعمیر کروائی تھی۔ اس کا گیٹ نمبر دو، جو مشرق کی طرف کُھلتا ہے، اِسے ’’بابِ شاہ جہاں‘‘ کہتے ہیں۔ ہم لوگ اس گیٹ سے باہر نکلے۔ مسجد کی سیڑھیوں پہ بیٹھ کے تصاویر کھنچوائیں۔ سامنے مینا بازار کی بھیڑ تھی، جس کا کچھ دیر مشاہدہ کیا، پھر اِسی بھیڑ کا حصّہ بن گئے۔ اس گیٹ کو بابِ شاہ جہاں اس لیے کہتے ہیں کہ جامع مسجد کا یہ دروازہ لال قلعے کے دہلی دروازے کی بالکل سیدھ میں ہے اور شاہ جہاں اِسی دروازے سے مسجد میں نماز کی ادائی کے لیے آتا تھا۔ مسجد کا شمالی دروازہ گیٹ نمبر 3 دریبہ کی طرف ہے، جس سے ہم مسجد میں داخل ہوئے تھے۔ 

یہ دروازہ قدیم زمانے میں دہلی کے امراء کے مسجد میں داخلے کے لیے مخصوص تھا، جب کہ گیٹ نمبر ایک، جو جنوب کی طرف ہے، جسے ’’بابِ عبداللہ‘‘ کہتے ہیں، اِس کا رُخ مٹیا محل بازار اور اردو بازار کی طرف ہے۔ اس زمانے میں دہلی کے عوام مسجد میں داخلے کے لیے یہی دروازہ استعمال کرتے تھے۔ غدر سے پہلے جامع مسجد میں دینی تعلیم کا ایک مدرسہ بھی قائم تھا، جسے غدر کے بعد بند کر دیا گیا۔ جامع مسجد سے متعلق یہی مشہور ہے کہ یہ بھارت کی سب سے بڑی مسجد ہے، مگر ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ بھارت کی سب سے بڑی مسجد ’’تاج المساجد‘‘ ہے، جو بھوپال میں واقع ہے، جس میں ایک وقت میں پونے دو لاکھ افراد، نماز ادا کر سکتے ہیں۔ جامع مسجد، دہلی کے نقشے کو سامنے رکھتے ہوئے ہی اورنگ زیب عالم گیر نے لاہور کی بادشاہی مسجد تعمیرکروائی تھی۔ 

خیر، ہم لوگوں نے اُردو بازار میں مکتبہ جامعہ کی طرف قصد باندھا۔ ہمارے معروف شاعر اور نثر نگار دوست، علی اکبر ناطق نے لکھنؤ کے ایک بہت متحرک پبلشر، قاضی ذکریا سے کچھ کتابیں منگوائی تھیں، تو ہمیں وہ لینی تھیں۔ قاضی ذکریا دھڑا دھڑ پاکستانی مصنّفین کی کتابیں چھاپ رہے ہیں۔ انہوں نے واٹس ایپ پہ پیغام بھیجا کہ ’’مَیں نے مکتبہ جامعہ پہ کتب بھجوا دی ہیں، وہاں سے وصول کر لیں۔‘‘ گوکہ ہم اس سے قبل تین مرتبہ مکتبہ جامعہ کا چکر لگا چُکے تھے، مگر تینوں ہی دفعہ اُسے بند پایا۔ بعد میں پتا چلا کہ ہمارا چکّر سات بجے کے بعد لگتاہے، مکتبہ جامعہ، سرکاری ادارہ ہونے کی وجہ سے پانچ بجے کے قریب بند ہوجاتا ہے، تو اس بار تین بجے کے قریب جا ٹپکے، تو مکتبہ کُھلا ملا، جہاں دو بزرگ رجسٹرز پر سر جُھکائے کچھ اندراج کرنےمیں مصروف تھے۔ ہمارے سلام کا جواب انہوں نے نہایت بے دلی سے دیا۔

شاید دنیا کے اس خرابے میں جو دن انہوں نے ہنسی خوشی بِتانے تھے، بِتا چکے، اب بقیہ دنوں کو دھکّا لگا رہے ہیں۔ دہلی میں جس کو بھی بتاتے کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں، تو ایک دفعہ تو اس کے چہرے پہ بہت اچھی سی حیرت پھیل جاتی اور ملنے میں گرم جوشی ضرور دکھاتا، لیکن یہاں تعارف کے بعد بھی رویّے میں سردمہری اور روکھا پن برقرار رہا۔ ہم نے جب بتایا کہ ’’قاضی ذکریا نے آپ کے پاس بھیجا ہے‘‘، تو انہوں نے سُنی اَن سُنی کردی، انداز سے یوں لگا، جیسے کہہ رہے ہوں ’’بھیجا ہوگا۔‘‘ ’’بھیا! بات کروا دیں ہماری قاضی ذکریا سے۔‘‘ 

ایک بزرگ نے کہا۔ ’’ہمارا فون تو یہاں کام نہیں کرتا، آپ ہی ذرا اپنے لب و رخسار اور فون کو زحمت دیں قاضی صاحب سے شرفِ ہم کلامی کے لیے۔‘‘ ہمارے اس فصیح و بلیغ جملے پہ اُن کی سرد مہری کی برف کچھ پگھلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ پہلے تو لینڈ لائن سے کچھ دیر قاضی صاحب کو فون ملانے کی کوشش کرتے رہے، ناکامی کے بعداپنے کُرتے کی جیب سے اپنا ہی ہم عُمر موبائل فون نکالا اور اس سے قاضی ذکریا کا نمبر ملالیا۔ اور جب فون پہ بات کر کے تسلّی ہو گئی، تو ایک طرف پڑا کتابوں کا بنڈل اُٹھا کر ہمارے حوالے کر دیا۔ اس دوران ہم نظریں گُھما کر مکتبے کی کُل کائنات کا جائزہ لے چُکے تھے، پاکستانی اور بھارتی اُردو مصنّفین کی کئی کتب عُمدہ کاغذ اور دیدہ زیب طباعت کے ساتھ مکتبے نےشایع کی ہیں، جن میں قراۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو اور کئی اور لکھاریوں کی کتابیں نمایاں ہیں۔ (جاری ہے)