• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دلی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصور تھے ... دہلی نامہ (قسط نمبر 18)

مولانا ابوالکلام آزاد دو دفعہ آل انڈیا کانگریس کے صدر رہے۔ آزادی کے بعد بھارت کے پہلے وزیرِ تعلیم مقرّر ہوئے۔ اُن کے نام پہ اب بھی ’’مولانا آزاد میڈیکل کالج‘‘ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے بالکل سامنے موجود ہے۔ ہمیں یہاں سے گزرنے کا اتفاق کئی بار ہوا، مگر وقت کی قلّت کے باعث اندر جا کر نہ دیکھ سکے، جس کا قلق اب بھی ہے۔ بھارت کی موجودہ حکومت مسلمانوں کے ناموں سے منسوب اداروں، سڑکوں، شہروں اور گلی محلّوں کے نام بڑی تیزی سے تبدیل کر رہی ہے۔ جیسے دہلی کے مشہورِ زمانہ فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم کا نام تبدیل کر کے ’’آرون جیٹلی اسٹیڈیم‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔

دہلی میں ایک دن ہم لوگ ہمایوں کے مقبرے کی طرف جانکلے۔ انسان کیسے عروج سے زوال اور زوال سےعروج کی منازل طے کرتا ہے، اس کی مثال دیکھنی ہو تو شہنشاہ ہمایوں کی زندگی کا مطالعہ کرناچاہیے۔بادشاہ ظہیرالدّین بابرکا فرزند نصیرالدّین ہمایوں، بابر کی وفات کے بعد مملکتِ ہندوستان کے تاج و تخت کا وارث بنا، تو مُلکِ بنگال سے فرید خان شیر شاہ سوری کا لشکرِ جرّار آندھی اور طوفان کی طرح اُٹھا اور پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ گردشِ ایّام نے وہ دن دِکھائےکہ بادشاہ ہمایوں کو تاج و تخت چھوڑکرمُلکِ ایران فرار ہونا پڑا۔ لیکن شیر شاہ سوری کی وفات کے بعد اُس کی اولاد سلطنت کو نہ سنبھال سکی اور بادشاہ ہمایوں نے واپس آکر پھر ہندوستان کے اقتدار پہ قبضہ جما لیا۔ 

ہمایوں کا مقبرہ متھرا روڈ پہ بستی نظام الدّین کے قریب ہی ہے۔ دہلی کی تاریخی عمارات میں اپنے منفرد طرزِ تعمیر اور دل کشی کی وجہ سے یہ عمارت خاص اہمیت کی حامل ہے۔ آگرہ کا تاج محل شاہ جہاں نے اُسی مقبرےکے نقشے کو سامنے رکھتے ہوئے (قریباً اسے نقل کرتے ہوئے) تعمیر کروایا تھا۔ متھرا روڈ پہ بستی نظام الدّین سے تھوڑا پہلے سبز برج اور سندر نرسری کے قریب ہمایوں کے مقبرے کا داخلی دروازہ ہے۔ بائیں ہاتھ اونچی اونچی نیلے رنگ کی جستی چادروں کی چار دیواری کے اندر کچھ تعمیراتی کام ہو رہا تھا۔ دائیں ہاتھ آہنی سلاخوں کے جنگلےکے پیچھے بےہنگم درختوں کا جنگل سا ہے، جن کے بیچوں بیچ ٹکٹ کاؤنٹر کی طرف راستہ جا تاہے۔ 

کاؤنٹر کے بائیں طرف سنگِ سُرخ کے ایک بڑے سے تختے پہ ’’ہمایوں کا مقبرہ‘‘ انگریزی اور ہندی زبانوں میں لکھا نظر آیا۔ سنگِ سرخ تختے کے بائیں طرف لال پتّھروں کی ایک بہت عُمدہ اور خُوب صُورت منقّش جالی ہے، جس کی دیوار کے اندر سےمقبرے کا داخلی دروازہ ہے۔ اس تعارفی تختے کے پاس کھڑے ہو کر ایک تصویر کھنچوانے کے بعد ہم اپنی ٹولی کے ساتھ ہمایوں کے مقبرے میں داخل ہوئے، تو اندر ایک چوکور سا بہت بڑا سبزہ زار نظر آیا، جسے دیکھ کر آنکھیں تازہ دَم ہوگئیں۔ ایک سُرخ رنگ راہ گزر داخلی دروازے سے اُس سبزہ زار کے بیچ میں سے گزر کر ہمایوں کے مقبرے کی طرف جا رہی ہے، جب کہ درمیان سے ایک سڑک بھی دائیں ہاتھ مُڑتی ہے، جس کے اختتام پر ایک فصیل سی ہے۔ کچھ سیڑھیاں چڑھ کر فصیل کے بیچوں بیچ ایک کھڑکی نما دروازہ ہے، جس کے سامنے ایک پُرشکوہ اور عالی شان مقبرہ نظر آیا۔ 

یہ مقبرہ شیر شاہ سوری اور ہمایوں عہد کے طرزِ تعمیر کا نمونہ ہے۔ ایک فصیل بند احاطے کے اندر سرسبز گھاس کا سبزہ زار، فصیل نما دیوار کے اندر چھوٹی محرابی دَروں والی کوٹھریاں سی بنی ہوئی ہیں۔ ایک ہشت پہلو چبوترے پہ، ہشت پہلو مقبرہ، بہت بڑے سنگی گنبد کے نیچے اپنی پوری آن بان شان کے ساتھ لوگوں کی آمد و رفت تکتا ہےاور ہم قریباً پانچ صدیاں قبل تعمیر کیے گئے اس شاہ کار کی صنّاعی کی داد دیتے مقبرے کی طرف بڑھ گئے۔ یہ عالی شان مقبرہ شیر شاہ سوری کے ایک اہم امیر اور سالار عیسیٰ خان نیازی کا ہے۔ جب شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دی تو بیرم خان کی عیسیٰ خان نیازی نے جاں بخشی کروائی تھی، پھر جب ہمایوں ایران سے واپس لوٹا، تو شیرشاہ سوری کے بیٹے، اسلام شاہ سوری کو شکست دے کر دوبارہ قابضِ اقتدار ہوا۔

بیرم خان چاہتا تھا کہ عیسیٰ خان نیازی اُس کے پاس آئے اور اپنے احسان کے بدلے ہمایوں کے دربار میں کوئی عُہدہ قبول کر لے، مگر اُس غیرت مند شخص کی حمیّت نے یہ گوارا نہ کیا کہ بیرم خان کے سامنے جاکر دستِ طلب دراز کرے۔ یوں اُس نے کسمپرسی کی حالت میں جان دے دی اور یہاں مدفون ہوا۔ ویسے تو یہ مقبرہ کھنڈر ہو چُکا تھا، مگر برطانوی دَورِ حکومت میں اس کی تعمیرِ نو اور بحالی کا کام ہوا۔ عیسیٰ خان کے مقبرے کے آٹھوں پہلو سنگی ستونوں سے تین، تین محرابی دَروں میں تقسیم ہیں۔ ہر پہلو کے اوپر ایک چھوٹا سا نیلے رنگ کا گنبد ہے۔ محرابی دَروں والے برآمدے کے اندر مقبرے کی عمارت ہے۔ درمیان میں ایک بڑی سی قبر ہے، جس کا تعویز پتّھر کا بنا ہوا ہے۔

بغل میں دونوں طرف چھوٹی قبروں کے تعویز بھی اسی طرح کے پتّھروں سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ پائنتی کی طرف خاکستری رنگ کے پتّھروں کی بہت چھوٹی چھوٹی تین قبریں بھی ہیں، جو شاید بچّوں کی ہوں گی۔ ساری قبریں گُم نام ہیں، کسی قبر پہ کوئی کتبہ، تختی نہیں۔ پتا نہیں، اِن میں عیسیٰ خان کی قبر کون سی ہے اور باقی قبریں جن کی ہیں، وہ کون تھے۔ ایک پتھریلا رستہ فصیل کے دروازے سے مقبرے تک جاتا ہے۔ چار ایسی پتھریلی رَوشیں مقبرے کی عمارت سے فصیل کی طرف جا رہی تھیں۔ دائیں طرف والی روش کے آخر میں، فصیل سے پہلے ایک چھوٹی سی مسجد ہے۔ مقبرےسے نکل کر ہم فیض مصطفیٰ کے ساتھ مسجد کے صحن میں جاپہنچے، جس کےتین محرابی دَر مسجد کی چھوٹی سے عمارت میں کُھلتے ہیں، درمیانی حصّے میں ایک بڑا پتھریلا گنبد ہے، جب کہ بڑے گنبد کے دائیں بائیں دو چھوٹے گنبد ہیں۔ 

لودھی کالونی
 لودھی کالونی 

مسجد کے صحن میں کھڑے ہوکر ہم کچھ دیر تک اس عالی شان مقبرے کو دیکھتے رہے، پھر عیسیٰ خان کے مقبرے کے احاطے سے نکل کر، ہمایوں کے مقبرے کے پہلے سبزہ زار میں آگئے، جہاں ایک ٹوٹی ہوئی فصیل سے گزر کر دائی حلیمہ کا باغ آگیا۔ دائی حلیمہ، ہمایوں بادشاہ کی دائی اور انّا تھیں، انہوں نے ہمایوں بادشاہ کو دودھ پلایا اور پرورش کی۔ باغ کے اختتام پر دومنزلہ دروازہ ہے، جسے ’’دائی حلیمہ کا دروازہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس ڈیوڑھی نما دروازے سے گزر کر ایک اور سبزہ زار ہے، جس میں دونوں طرف اونچے گھنے اور سایا دار درخت ہیں۔ گھاس کے دو طرفہ قطعوں کے درمیان سے سُرخ پتھریلا راستہ ہمایوں کےمقبرے کے مرکزی احاطے کے پُرشکوہ دروازے کی طرف جا رہاہے۔ 

اس سبزہ زار کے داہنی طرف عرب سرائے کا دروازہ ہے، جس سے گزر کر عرب سرائے کا باغ آگیا۔ اس کے ایک طرف مسجد اب تک قائم و دائم ہے۔ کہتے ہیں کہ ہمایوں کی بیوی حمیدہ بانوبیگم نےجب یہ مقبرہ تعمیر کروایا، تو حجازِمقدس سےحفاظِ کرام بلا کر اُن کوٹھریوں میں بٹھائے، جودن رات کلامِ پاک کی تلاوت کرتے اور بادشاہ ہمایوں کے لیے دعائے مغفرت کیا کرتے۔ عرب سرائے سے دائی حلیمہ باغ میں واپس آئے اور یہاں سے مقبرہ ہمایوں کے باغ کے غربی دروازے کی جانب چلےگئے۔ یہ دو منزلہ دروازہ خُوب صُورتی اور صنّاعی کا عُمدہ نمونہ ہے۔ اِس عمارت کی نچلی منزل پہ دو محرابیں اور بالائی منزل پہ محرابی شکل کے جھروکے ہیں، جب کہ درمیان میں محرابی شکل کا ایک دروازہ ڈیوڑھی میں کُھلتا ہے۔ 

ڈیوڑھی کی بالائی منزل کی دو محرابی کھڑکیوں میں سے ایک دائی حلیمہ کے باغ کی طرف اور ایک مقبرہ ہمایوں کے باغ کی طرف کُھلتی ہے۔ ڈیوڑھی میں داخل ہوئے، تو دائیں طرف ایک شیشے کے بہت بڑے شوکیس میں ہمایوں کے مقبرے کے کمپلیکس کا پورا ماڈل اور نقشہ رکھا نظر آیا۔ کافی لوگ اس شو کیس کے ارد گرد کھڑے ہو کر ماڈل دیکھ رہے تھے۔ غربی دروازے کے سامنے ایک چھوٹا سا تالاب بھی ہے۔ تالاب سے باغ کا سینہ چیرتے ہوئے ایک سُرخ پتھریلی راہ گزر مقبرے کی مرکزی عمارت تک جاتی ہے۔ دھوپ اور لُو کے تھپیڑے کھاتے مَن چلوں کی ٹولی مقبرےکی مرکزی عمارت کی طرف چل دی۔ وہ سنگِ سُرخ اور سنگِ مَرمَر کے امتزاج سے بنی عمارت اس باغ کے بیچوں بیچ کسی انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑی نظر آرہی تھی۔ 

مولانا آزاد میڈیکل کالج
مولانا آزاد میڈیکل کالج 

یہ باغ ہندوستان میں اپنی طرز کا پہلا باغ تھا، جو مُغلوں نے تعمیر کیا۔ چاروں طرف گھاس کے قطعے دیکھ کر یوں لگتا ہے، جیسے زمرّد سے تراشی ہوئی چادریں زمین پہ بچھا دی گئی ہوں۔ ان گھاس کے شاداب قطعوں پہ کہیں درختوں کی گَھنی شاخیں سایا کر رہی تھیں، تو کہیں کھجور کے اَکّا دکّا درخت صحرا سے دُور اِس نخلستان کا حصّہ ہیں۔ ہمایوں کے مقبرے کی دو منزلہ عمارت کی نچلی منزل محرابی دَروں والی کوٹھریوں پر مشتمل ہے، جن کے لکڑی کے کواڑ بند اور مقفّل نظر آئے۔ 

کوٹھریوں کے بالکل بیچ میں سے سُرخ پتّھروں سے بنا زینہ بالائی منزل کی طرف جاتا ہے۔ مقبرے کی بالائی منزل کی عمارت کے درمیان سنگِ مَرمَر کا ایک بڑا سا گنبد ہے، جس کےنیچےچاروں طرف بڑےبڑےمحرابی دَرہیں۔ عمارت کے چاروں کونوں پہ چھوٹے چھتری نما گنبد ہیں، جن کے نیچے مقبرے کی عمارت چاروں کونوں پہ ہشت پہلو دو منزلہ محرابوں والے چار حصّوں پر مشتمل ہے۔ مقبرےکاداخلی دروازہ جنوب کی طرف ہے، اس محراب دار دروازے سے اندر داخل ہوئے، تو دُہری غلام گردش سےگزر کر سنگِ سیاہ اور سنگِ مَرمَر کے فرش کے بیچوں بیچ بادشاہ ہمایوں کی قبر تھی۔

آرون جیٹلی اسٹیڈیم
آرون جیٹلی اسٹیڈیم 

اس قبر کے پہلو سے میجر ہڈسن نے آخری مسلمان تاج دارِ ہند کو گرفتار کرکے رنگون بھیجا تھا۔ اس مقبرے کی غلام گردشوں میں بہت سی گُم نام قبریں نظر آئیں، جن میں سے ایک دارالشکوہ کی قبر بھی ہے۔ اورنگ زیب عالم گیر نے بڑی رازداری سے اپنے برادر کبیر کو تاج و تخت سے بے دخل کر کے اس مقبرے میں کسی اندھی قبر کے اندر جھونک دیا۔ ہمایوں کے مقبرے پہ فاتح خوانی کے بعد ہم لوگ واپس متھرا روڈ نکل آئے۔ ہمارے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ہوٹل واپس جائیں گے اور آرام کریں گے، جب کہ ہمارا شوقِ آوارگی ماند نہیں پڑا تھا۔ انہیں آٹو رکشے میں بٹھایا اور خُوداپنی اگلی منزل ’’لودھی گارڈن‘‘ کی جانب چل دیئے۔

لودھی گارڈن کا ذکر ہم نے مستنصر حُسین تارڑ کے سفرنامۂ ہند ’’سنہری اُلّو کا شہر‘‘ میں پڑھا تھا۔ سڑک کنارے ریڑھی والے سے ایک لِمکا کی ہاف لیٹر بوتل لی، یہ یہاں کا ہر دل عزیز لیمونیڈ ہے، جس کا ذائقہ بہت ہی منفرد ہوتا ہے۔ ریڑھی والے سے پوچھا ’’لودھی گارڈن یہاں سے کتنے فاصلے پہ ہے؟‘‘’’یہ بغل ہی میں تو ہے، پیدل پندرہ منٹ لگیں گے۔‘‘ ریڑھی والے نے جواب دیا۔ اور ہم اس کی بات پہ اعتبار کر کے جو چلے، تو لودھی روڈ تو شیطان کی آنت ثابت ہوا۔ اجنبی شہر، غلطی یہ کر لی کہ ساتھیوں کے بغیر ہی آوارہ گردی پہ نکل کھڑے ہوئے۔ اکیلے رکشے میں سفر کرتے بھی ڈر لگ رہا تھا۔ 

لودھی روڈ پھلیتی ہی چلی گئی کہ لودھی گارڈن آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ تنگ آ کر بس اسٹاپ سے ایک بس میں بیٹھ گئے، دس روپے کا ٹکٹ لیا۔ دہلی ٹرانس پورٹ کمپنی کی اورنج رنگ کی بس ہمارے لاہور میں چلنے والی سرکاری سِٹی بسز سے مِلتی جُلتی ہی ہے۔ بس نے ایک اڈّے پہ اتارا، وہاں ایک مسافر سے لودھی گارڈن جانے والی بس کا پوچھا، تو اس نے ایک بس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا (جو اس اڈّے سے نکلنے ہی لگی تھی) ’’اس میں بیٹھ جائیں، یہ آپ کو لودھی کالونی میں، آپ کی منزل کے قریب اتار دے گی۔‘‘ ہم بھاگم بھاگ اُس میں سوار ہوگئے۔ بس، ایک پوش کالونی کی سڑکوں پہ کچھ دیر کے لیے رواں دواں رہی، خاکی وردی میں ملبوس ٹکٹ چیکر سے ہم نے منزل کا دریافت کیا۔ لودھی گارڈن کا سُن کے اس نے پانچ روپے کا ٹکٹ کاٹا۔ 

ہم نے دس روپے اُس کے ہاتھ میں پکڑائے اور پانچ روپے کا تری مورتی والا سکّہ اپنے شولڈر بیگ کی جیب میں پھینک دیا۔ ساتھ کی سیٹ پہ بیٹھے مسافر سے درخواست کی کہ ’’بھیّا! جب لودھی گارڈن کا اسٹاپ آجائے، تو ہمیں ضرور خبر کر دینا، کہیں بے خبری میں اجنبی منزلوں کی طرف گام زن نہ ہو جائیں۔‘‘ بس کی کھڑکی کے شیشے سے دائیں ہاتھ مرکزِ ثقافتِ اسلامیہ ہند (انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر ) کی عمارت پہ نظر پڑی۔ اس کے قریب ہی وہ بس اسٹاپ تھا، جہاں ہمیں اُترنا تھا۔ 

لودھی گارڈن کے سامنے…
لودھی گارڈن کے سامنے… 

مرکزِ ثقافتِ اسلامیہ ہند کی عمارت بہت خُوب صُورت ہے، فیروزی ٹائلز سے مزیّن مدور گنبد، جس کے نیچے عمارت پہ فیروزی، نیلی اور سفید ٹائلز سے بہت عُمدہ نقش ونگار بنے ہوئےہیں۔ لاہور میں جیل روڈ پہ خانۂ فرہنگ ایران کی عمارت اِس سے ملتی جلتی ہے۔ اِسی طرح دہلی کی لودھی کالونی، لاہور کے ماڈل ٹاؤن سے ملتی جلتی لگی۔ سڑک کے دو طرفہ فُٹ پاتھ پہ گھنے درختوں کا سایا تھا۔ کچھ دوُر پیدل چلنےکے بعد گَھنے درختوں سے ڈھکے چمن زار کا آہنی گیٹ آگیا، جس کے قریب ہی ریڑھیوں پہ کولڈ ڈرنکس اور منرل واٹر دست یاب تھا۔ وہاں سے پانی کی بوتل خرید کے پیاس بجھائی۔ ریڑھی کے مالک کی سائیکل بدست ایک زنجیر اور قفل کے قریب ہی دہلی پولیس کے پیلے رنگ کے بیریکیڈ سے منسلک نظر آئی۔ 

ریڑھی کے مالک کو موبائل پکڑایا اور اُسے درخواست داغی کہ ذرا لودھی گارڈن کے داخلی دروازے کے قریب اپنی اس مقفّل سائیکل کے جلو میں ہماری ایک تصویر بنا دو، چوں کہ ہم اس سےخریداری کرچُکےتھے، تو اس نے نہایت محبّت اور تابع داری سے کئی ایک تصاویر کھینچ دیں۔ تصویر کشی کے بعد ’’اشوکا گیٹ‘‘ سے اس مرغزار میں داخل ہوئے۔ سنگِ سُرخ کی سڑک، سر سبز گھاس کے قطعوں، گھنے درختوں کے سائے کےساتھ آگے ہی آگے بڑھتی چلی گئی۔ سب سے پہلے ہم بڑے گنبد کی طرف چل دیئے۔ 

یہ مٹیالے اور زردی مائل پتّھروں کی ایک خُوب صُورت عمارت ہے، جس کا پتھریلا مدور گنبد شاید دہلی شہر کی کسی عمارت کا پہلا گنبد ہوگا۔ اسے سکندر لودھی نے بطور مہمان خانہ تعمیر کروایا تھا۔ اس کے بغل میں تین گنبدوں والی بڑے گنبد کے مہمان خانے کی مسجد ہے۔ تین گنبد پانچ محرابی دَروں والے دالان پہ سایا کیے ہوئے ہیں۔ وہاں دہلی یونی وَرسٹی کےطلبہ کا ایک گروپ بھی گھومنے آیا ہوا تھا۔ انہوں نے اپنا کیمرا ہمیں تھمایا اور اپنےگروپ کی تصاویرکھینچنےکی گزارش کی۔ بدلے میں ہم نے بھی ایک بچّے، انوبھو سے اپنی تصاویر کھنچوائیں، جو اُس نے بعد میں ہمیں واٹس ایپ پہ بھیج دیں۔

بڑے گنبد کےبعد اگلی منزل شیش گنبد کی عمارت تھی۔ یہ بھی بڑے گنبد سے مماثل ہی ہے، جس میں بہلول لودھی کے دربار سے وابستہ کچھ عمائدین کی گُم نام قبریں ہیں۔ لودھی گارڈن کی بھول بھلیّوں میں گھومتے پھرتےسکندر لودھی کے مقبرے پرجاپہنچے، اس مقبرےکی عمارت عیسیٰ خان نیازی کے مقبرے سے مِلتی جُلتی ہے۔ اِسے سکندر لودھی کے بیٹے، ابراہیم لودھی نے تعمیر کروایا تھا۔ لودھی گارڈن کے اندر ہی سادات سلاطین کے سلطان محمّد شاہ کا بھی چھوٹا سامقبرہ ہے۔ 

ایک چھوٹی سی نہرنُما جھیل یاجھیل نُمانہر اس سر سبز و شاداب باغ کی ہریالی کو سیراب کرتی ہے۔ جھیل کے پُل پہ کھڑے ہو کر ہم نے لودھی گارڈن پہ ایک الوداعی نگاہ ڈالی اور بس اسٹاپ کی جانب چل دیئے۔ پھر لودھی گارڈن سے نکل کر ایک بس میں بیٹھے، جو دہلی کی سڑکوں پر گھومتے پھرتے کناٹ پیلیس جا پہنچی۔ جی، وہی کناٹ پیلیس، جسے سردار سوبھا سنگھ اور خوشونت سنگھ کے والد نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ نئی دہلی کا بہت بڑا کولونیل دَور کا شاپنگ سینٹر تھا۔ میکلورڈ روڈ، لاہور سے مال روڈ پہ مُڑیں، تو بائیں ہاتھ جو برٹش دَور کی عمارت ہے، وہ کناٹ پیلیس کی عمارتوں کی کاپی معلوم ہوتی ہے۔ کناٹ پیلیس کے بعد نئی دہلی کا ریلوے اسٹیشن آیا، پھر پہاڑ گنج کا فلائی اوور اور پھر ہمارا ہوٹل آن پہنچا اور ہم بس سے اتر گئے۔ (جاری ہے)