محمد ریحان، اسلام آباد
سیال کوٹ، پاکستان کا بارہواں سب سے بڑا شہر ہے، جس کے شمال میں دریائے چناب اور گجرات، مشرق میں مقبوضہ کشمیر کا شہر جموں، جنوب مشرق میں نارووال اور جنوب میں گوجرانوالہ واقع ہے۔ اس کا شمار پنجاب کے اہم اضلاع میں ہوتا ہے اور یہ پاکستان کا ایک بڑا صنعتی شہر بھی ہے۔ اس کی مشہور صنعتوں میں کھیلوں کا سامان، آلاتِ جرّاحی اور چمڑے کی مصنوعات شامل ہیں۔ خصوصاً یہاں کھیلوں کی صنعت نے بہت ترقی کی، عالمی سطح پر فٹ بال کی ساٹھ سے ستّر فی صد طلب سیال کوٹ ہی سے پوری ہوتی ہے۔
تاہم، چار ہزار سال قدیم اس شہرکا سب سے معتبر حوالہ یہ ہے کہ یہ بین الاقوامی شہرت کے حامل عظیم فلسفی، شاعر، قانون داں اور مفکّر پاکستان حضرت علّامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی جائے پیدائش ہے۔ جہاں 9نومبر 1877ء کو ان کی ولادت ہوئی۔ اس نسبت سے یہ شہر، شہرِ اقبال کے نام سے بھی مشہور ہے۔ علّامہ اقبال روڈ، کشمیری محلّے میں ایک پُرشکوہ عمارت ’’اقبال منزل‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے، جو علّامہ اقبال کا آبائی مکان ہے۔
یہاں لوگ بڑی تعداد میں شاعرِ مشرق کو خراجِ عقیدت پیش کرنے آتے ہیں۔ 162سالہ قدیم اقبال منزل صرف ایک عمارت ہی نہیں، بلکہ اس میں برس ہا برس کی حسین تاریخی داستانوں کے نقوش بھی ثبت ہیں۔ گزشتہ دنوں ہم ایک سیّاحتی ٹیم کے ساتھ اقبال منزل کے خصوصی دورے پرگئے، تو وہاں شاعرِ مشرق سے متعلق نوادرات دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود تمام اشیاء اب تک اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ اس موقعے پر گائیڈ، محمد آصف نے ہماری بھرپور رہنمائی کی اور اس تاریخی عمارت سے متعلق بیش بہا معلومات فراہم کیں۔
محمد آصف نے بتایا کہ ’’انیسویں صدی کے اوائل میں ڈاکٹر علّامہ محمد اقبال کے بزرگ کشمیر سے سیال کوٹ کے محلّہ کھٹیکاں آکر آباد ہوئے۔ علّامہ محمد اقبال کے پَردادا، شیخ جمال الدین اپنے چار بیٹوں شیخ عبدالرحمٰن، شیخ محمد رمضان، شیخ محمد رفیق اور شیخ عبداللہ کے ساتھ سیال کوٹ آئے۔ شیخ محمد رفیق اور شیخ عبداللہ نے فروری1861ء میں کشمیری محلّے میں تین کمروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا مکان خریدا۔ تاہم، مکان چھوٹا ہونے کی وجہ سے کچھ ہی عرصے بعد شیخ عبداللہ تحصیل سمبڑیال شفٹ ہوگئے۔ پھر1892ء میں علّامہ اقبال کے والد، شیخ نور محمد نے اس مکان سے ملحقہ دو منزلہ ایک اور مکان خرید کر اس میں شامل کرلیا۔
اس کے بعد مارچ 1895ء میں مکان کے سامنے والی دو دکانیں بھی خرید کر اس کا راستہ گلی کی بجائے سڑک کی طرف کردیا گیا، جو پہلے عقب میں تھا۔ علّامہ اقبال کے بڑے بھائی، شیخ عطامحمد، جو پیشے کے لحاظ سے سول انجینئر تھے، سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد سیال کوٹ آئے، تو انہوں نے پرانا مکان گراکر ازسرنو تین منزلہ عمارت تعمیر کی اور یوں ساڑھے آٹھ مرلے پر محیط رقبے پر دس کمرے، باورچی خانہ، دو غسل خانے اور دالان بنائے گئے۔ سڑک کی جانب لکڑی کی بالکونی بنواکر اس میں لوہے کی خُوب صورت گرل بھی نصب کروائی گئی۔
اس مکان کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہاں برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی کا خواب دکھانے والے علّامہ ڈاکٹر محمد اقبال9نومبر 1877ء کو پیدا ہوئے۔ بعدازاں، اُن کے صاحب زادے، جسٹس جاوید اقبال کی ولادت بھی 5اکتوبر 1924ء کو اسی اقبال منزل میں ہوئی۔ شیخ نور محمد کی وفات کے ایک ماہ بعدعلّامہ اقبال نے یہ مکان اپنے بڑے بھائی شیخ عطامحمد کے نام کردیا۔ اور پھر 1971ء میں حکومتِ پاکستان نے اس تاریخی ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے سوا لاکھ روپے میں خرید کر محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کردیا۔‘‘
کشمیری محلے میں قائم، قدیم طرزِ تعمیر کی اس تین منزلہ تاریخی عمارت کے بالکل سامنے جہانگیری مسجد ہے۔ کافی عرصے تک دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ عمارت خستہ حالی کا شکار تھی، بالآخر ضلعی حکومت نے اس تاریخی عمارت کو تباہی سے بچانے کے لیے ایک حصّے کی مرمّت کروائی، لیکن اس کے باوجود ایک عرصے تک ’’اقبال منزل‘‘، محکمے کی لاپروائی کے باعث ٹوٹ پھوٹ اور خستہ خالی کا شکار رہی۔ پھر ایک طویل عرصے بعد اس قیمتی قومی ورثے کی دیواروں کی مرمّت اور رنگ و روغن کروانے کے بعد نئے پردے وغیرہ لگا کر عمارت کی تزئین و آرائش کی گئی۔
اب اقبال منزل، کشمیری محلّے، اقبال روڈ کے بازار کے بیچوں بیچ آگئی ہے، جس کے دونوں جانب دکانیں ہی دکانیں ہیں۔ کشمیری محلّے کے اسی گھر میں شاعرِ مشرق نے اپنی زندگی کے کئی سال گزارے۔ تین منزلہ مکان کی بالائی منزل پر دُور ہی سے گلی کی طرف لکڑی کی بالکونی نظر آجاتی ہے۔ پھر مرکزی دروازے سے مکان میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب لائبریری ہے، جس کے تین اطراف شوکیسز میں قرینے سے کتب رکھی گئی ہیں اور ان شوکیسز کے اوپردیوار پر متعدد فریمز میں علّامہ اقبال کے اشعار لکھ کر آویزاں کیے گئے ہیں۔ ہم لائبریری سے آگے بڑھے، تو گائیڈ نے ہماری مزید رہنمائی کی، ’’اس تین منزلہ مکان کا کُل رقبہ 9مرلے ہے، عمارت میں زیادہ تر لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے اور یہ دو حصّوں میں تقسیم ہے۔
ایک حصّہ میوزیم کے طور پر مختص ہے، جس میں علّامہ اقبال کے زیرِاستعمال اشیاء رکھی گئی ہیں، جب کہ دوسرے حصّے میں کشادہ لائبریری ہے۔ جس میں چار ہزار سے زائد نادر کتب موجود ہیں۔ دو ہزار سے زائد کتب اقبالیات پر ہیں۔ پوسٹ گریجویشن اور ایم فِل کے طلبہ ان کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ مختلف کمروں کی دیواروں میں جا بہ جا یادگار تصاویر انتہائی سلیقے سے لگائی گئی ہیں اور ان میں علّامہ اقبال کے اہلِ خانہ، کلاس فیلوز، اساتذہ، دوستوں اور آل انڈیا مسلم لیگ کے سرکرہ رہنماؤں کے ساتھ یادگار تصاویر بھی ہیں، جب کہ بعض تصاویر پر علّامہ اقبال کے دستخط بھی ثبت ہیں۔‘‘
پہلی منزل پر ایک کمرے میں علّامہ اقبال کے خاندان کا شجرئہ نسب ایک دیوار پر آویزاں ہے۔ یہیں ایک تصویر غازی علم دین کے نمازِ جنازہ کی ہے، جس میں علّامہ اقبال پہلی صف میں تشریف فرما ہیں۔ قریب ہی ایک فریم میں اُن کی نظم ’’یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے‘‘ اور ’’لوح بھی تُو، قلم بھی تُو‘‘ اُن کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر میں فریم میں آویزاں ہے۔ اس کے ساتھ ایک فریم میں اقبال کے بڑے بھائی عطا محمد کی تصویر نمایاں ہے، جن کا اقبال منزل بنانے میں بڑا اہم کردار ہے۔
ایک تصویر میں علّامہ اقبال کو اسپین کی قرطبہ مسجد میں نماز ادا کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ 1933ء میں جب علّامہ اقبال وہاں گئے، تو قرطبہ کی وہ تاریخی مسجد خاص طور پر ان کے لیے کھولی گئی۔ جہاں علّامہ اقبال نے اذان دی اور نماز ادا کی۔ دوسرے کمرے میں علّامہ اقبال کی پہلی اور دوسری اہلیہ کریم بی بی اور مختار بیگم کی تصاویر آویزاں ہیں۔ ساتھ ہی اُس دَور کا ایک جھولا اور تین الماریاں بھی موجود ہیں۔ عقبی حصّے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں جہاں علّامہ اقبال کی ولادت ہوئی، وہاں ایک تخت پوش، ایک الماری اور ایک آرام دہ کرسی رکھی ہے۔
دیواروں پر آپ کی والدہ، صاحب زادے جاوید اقبال اور اُن کے فرزند منیب اقبال کی کئی رنگین تصاویر بھی آویزاں ہیں۔ اس کمرے سے ملحق ایک مہمان خانہ ہے، جس میں علّامہ اقبال کے تعلیمی ریکارڈز، ڈگریز اور میڈلز فریم کرکے لگائے گئے ہیں۔ ساتھ ہی ڈاکٹر علّامہ اقبال کی وصیت بھی ایک فریم میں آویزاں ہے، جس میں درج ہے کہ ’’میرے مرنے کے بعد میری سب چیزیں غریبوں میں بانٹ دی جائیں اور کتابیں اسلامیہ کالج، لاہور کو دے دی جائیں۔‘‘
بالائی منزل پر ایک بڑے ہال نما کمرے میں علّامہ اقبال کی والدہ محترمہ امام بی بی کی تصویر کے ساتھ علّامہ اقبال کے یہ اشعار درج ہیں؎ جوانوں کو مِری آہِ سحر دے.....پھر ان شاہیں بچّوں کو بال و پَر دے......خدایا آرزو میری یہی ہے.....مِرا نورِ بصیرت عام کردے۔ اور؎ نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے .....ذرا نَم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی۔اسی کمرے میں قائداعظم محمد علی جناح کے وہ خوب صورت الفاظ، جو انھوں نے علّامہ اقبال سے متعلق کہے تھے، فریم کرکے دیوار میں لگائے گئے ہیں۔
قائد اعظم کے 6مارچ 1941ء کو ہفت روزہ حمایتِ اسلام میں شایع ہونےوالے الفاظ یہ ہیں۔ ’’اقبال نے آپ کے سامنے ایک واضح اور صحیح راستہ رکھ دیا ہے، جس سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں، وہ دورِ حاضر میں اسلام کے بہترین شارح تھے۔ کیوں کہ اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا، مجھے فخر حاصل ہے کہ اُن کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع مل چکا ہے، مَیں نے اُن سے زیادہ وفادار، رفیق اور اسلام کا شیدائی اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا۔‘‘
ہال سے ایک راستہ ڈائننگ روم کی طرف جاتا ہے، ڈائننگ روم سے متصل بائیں جانب ایک اسٹور نما کمرا زمین سے قدرے اونچائی پر ہے، جہاں سیڑھی کے ساتھ علّامہ اقبال کا یہ شعر درج ہے؎ نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں .....کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں۔ اسی کمرے میں علّامہ اقبال کے ایک پورٹریٹ پر اُن کی نظم ؎’’لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری‘‘ ایک خُوب صورت فریم میں آویزاں ہے۔ ڈائننگ روم سے نکلتے ہی گلی کی جانب دو کمرے ہیں، ایک بیڈ روم علّامہ اقبال کا اور اس سے متصل دوسرا اُن کے بڑے بھائی عطا محمد کا ہے، جنہوں نے یہ عمارت تعمیر کروائی تھی۔
وہ 1940ء تک اسی گھر میں رہے اور یہیں اُن کی وفات ہوئی۔ اس کمرے میں علّامہ صاحب کا ایک بیڈ موجود ہے، جس پر سفید چادر بچھی ہوئی ہے۔ جب کہ دروازے کے بائیں جانب ایک شوکیس میں اُن کا حقّہ رکھا ہوا ہے۔ علّامہ اقبال جب گرمیوں میں لاہور سے سیال کوٹ آتے تھے، تو اقبال منزل کی چھت پربیٹھ کے حقّہ پیا کرتے تھے۔ شوکیس کے دائیں جانب اوپر، نیچے پانی کے استعمال کے تین پیتل کے برتن رکھے ہوئے ہیں اور بائیں جانب اوپر والے خانے میں علّامہ اقبال کے زیرِ استعمال پین ہولڈر اور دوات موجود ہے۔ نیز، شوکیس کے ساتھ بائیں جانب علّامہ اقبال کی پوری فیملی کا ایک گروپ فوٹو بھی ایک بڑے فریم میں نصب ہے۔
شاعرِ مشرق حضرت علّامہ اقبال کا یہ آبائی گھر اگرچہ زیادہ وسیع و عریض نہیں، مگر یہاں ان سے متعلق رکھی اشیاء اور اُس دَور کی نادر و نایاب تصاویر دیکھتے ہوئے وقت کا گویا احساس ہی نہیں رہتا۔ ہم نے وہاں کا چپّا چپّا دیکھا، مگر پھر بھی ایک تشنگی سی باقی تھی۔ بہرحال، پوری منزل کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد گائیڈ نے آخر میں ہمیں ایک اور بڑا خاص کمرا دکھایا۔ یہ علّامہ اقبال کا اسٹڈی روم تھا۔ اس کمرے میں آمنے سامنے دو کرسیاں رکھی ہوئی ہیں۔ بیچ میں ایک میز ہے، جس کے اوپر ایک لوہے کا برتن ہے، اس برتن میں علّامہ اقبال ہاتھ دھویا کرتے تھے۔
اسی کمرے میں علّامہ اقبال کی تیسری اہلیہ، سردار بیگم کی تصویر آویزاں ہے۔ سردار بیگم کا تعلق لاہور سے تھا۔ جاوید اقبال اور منیرہ اقبال علّامہ صاحب کی ان ہی بیگم سے تھے۔ کمرے میں اُس دَور کے کئی لیمپ بھی رکھے ہیں، جب بجلی نہیں ہوتی تھی، تو ان لیمپس میں تیل ڈال کر انھیں روشن کیا جاتا تھا۔ دیوار میں اُسی دَور کا ایک کلاک بھی موجود ہے۔ کمرے کے ایک طرف لکڑی کا ایک چھوٹا صندوق ہے، جس پر علّامہ اقبال قرآن پاک رکھ کر تلاوت کیا کرتے تھے اور اس صندوق میں کتابیں بھی رکھا کرتے تھے۔ وہیں اس زمانے کا ایک آتش دان بھی موجود ہے، جس کے سامنے بیٹھ کر مفکّرِ پاکستان، طویل اور خنک راتوں میں محوِ فکر رہے۔
آتش دان میں کوئلے جلا کر کمرے کو گرم کیا جاتا تھا۔ اسٹڈی روم میں علّامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد کی تصویر آویزاں ہے، جس میں ان کی گود میں ان کے دو پوتے بھی ہیں۔ جب کہ وہیں ایک ملازم میاں علی بخش کی تصویر بھی نمایاں ہے، جنھوں نے 39سال علّامہ اقبال کی خدمت کی اور وفات تک اُن کے ساتھ ہی رہے۔ شاعر مشرق علّامہ اقبال کے اسٹڈی روم میں گزرے یہ لمحات، ہماری زندگی کے یادگار لمحات تھے۔
علّامہ اقبال کے استعمال کی اشیاء دیکھ کر یوں محسوس ہورہا تھا، جیسے وہ اُسی گھر میں موجود ہیں اور ابھی کسی کمرے سے نکل کرہمارے سامنے آجائیں گے۔ بہرحال، ’’اقبال منزل،، ایک پوری تاریخ ہے، جہاں شاعرِ مشرق کے زیر استعمال رہنے والی مختلف نادر اشیاء محفوظ کی گئی ہیں۔ اس رہائش گاہ کے دورے کے لیے کوئی ٹکٹ نہیں رکھا گیا۔ حالاں کہ گاہے بگاہے مُلک اور بیرونِ مُلک سے عام افراد اور سیّاحوں کے علاوہ اہم ملکی و غیر ملکی شخصیات بھی یہاں علّامہ صاحب کا رہن سہن دیکھنے آتی رہتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل یہاں رانا بھگوان داس تشریف لائے، تو انہوں نے ننگے پاؤں پورے گھر کا دورہ کیا۔