• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست کا دہرا معیار اور امریکہ کی ’’جائز‘‘ مداخلت

عمران خان کا عقیدہ ہے کہ سیاست عوام کے ساتھ کھیلنے کا ایک ذریعہ اور حربہ ہے۔اور اس میں خودساختہ اصولوں اور ضابطوں کے تحت عوام کو شکست دی جا سکتی کیونکہ یہ اپنے قائدین کو جانے اور جانچے بغیر اپنا ایمان بھی ان پر قربان کر دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عمران خان جب سے میدان سیاست میں اترے ہیں، عوام کے ساتھ اپنے انداز، خودساختہ ضوابط اور قوانین کے تحت کھیل کھیل رہے، نتیجتاً جیت ہمیشہ عمران خان کی ہوتی، عوام بار بار ہار جاتے ہیں۔کیونکہ وہ بار بار وہی کھیل کھیلتے ہیں جن میں عوام ہارنے کے عادی ہوتے ہیں۔کبھی عسکری قیادت سے توقعات، کبھی امید بر نہ آنے پر فوج کی تذلیل، کبھی عدلیہ سے عقیدت، کبھی گندی گالیاں،کبھی سائفر کا کھیل، کبھی گولیوں کا کھیل، کبھی امریکہ دشمنی کا کھیل، کبھی دوستی کی خواہش، کبھی دہشت گردوں سے ہم آہنگی، کبھی طالبان کی پاکستان میں آبادکاری کا اہتمام، حتیٰ کہ کوئی ادارہ، کوئی شعبہ یا کوئی شخصیت سوچ کی شر سے محفوظ نہیں۔

یاد ہے؟ عمران خان نےعوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے ایک بڑے اجتماع میں کاغذ کا ٹکڑا لہرا کر انہیں اقتدار سے علیحدہ کرنے کو عالمی سازش قرار دیا تھا اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے وجہ یہ بیان کی کہ ان کے دور اقتدار میں امریکہ نے ان سے پاکستان میں اڈے مانگے تھے لیکن انہوں نے امریکہ کی یہ خواہش یا مطالبہ ماننے سے سختی انکار کر دیا تھا اور امریکہ نے انہیں انتقاماً اقتدار سے فارغ کرا دیا۔اس دوران انہوں نے اپنے اس خودساختہ بیانیہ کو عوام میں قابل قبول بنانے کے لئے سوشل میڈیا پر "AbsolutelyNot" کا ٹرنڈ چلوایا جو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے "ٹاپ ٹرنڈ" بنا کر پیش کیا جو مقبول ترین ٹرنڈ کے طور پر موجود اور مقبول رہا۔یہاں تک کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کو اسے عمران خان کا جھوٹا پروپیگنڈا قرار دینے کے لئے ہر ذمہ دار فورم پر اس الزام کی نفی کرنا پڑی۔لیکن امریکہ کے ڈپلومیٹک تردیدوں کو قبول کرنے اور اپنی غلطی تسلیم کر کے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات معمول پر لانے کی بجائے امریکہ کے خلاف عمران خان کے لہجے میں مزید سختی پیدا ہو گئی اور انہوں نے عوامی اجتماعات میں یہ باور کرانا شروع کر کے کہ "ہم امریکہ کے غلام نہیں ہیں" امریکہ کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی شدت میں اضافہ کردیا لیکن یہ فرضی بیانیہ بھی جلد ہی پٹ گیا تب رفتہ رفتہ عمران خان کو ایک خودساختہ سائفر کے ذریعے پھیلائے جانے والے بیانیے کے مضمرات اور ان کی سنگینی کا احساس ہوا اوراس حرکت پر اس لئے خفت اور شرمندگی محسوس کہ اس بے بنیاد اور خود ساختہ سائفر کے بیانیہ پر قائم رہنے سے امریکہ جیسی سپر پاور کی ناراضی مستقبل میں ان کے اقتدار حاصل کرنے کے خواب کو چکناچور کر سکتی ہے، عمران خان نے ایک اور "یو ٹرن" لیا اور اپنی اس غلطی کا ازالہ کرنے کا فیصلہ کیا اور رفتہ رفتہ امریکہ دشمن بیانیے سے انحراف کرتے ہوئے بالواسطہ وضاحتی بیان جاری کرنا شروع کر دئیے لیکن امریکی کی جانب سے پذیرائی نہ ملنے پر "AbsolutelyNot" اور "ہم امریکہ کے غلام نہیں" کے نعرے پس پشت ڈالتے ہوئے امریکہ دوستی کی خواہش میں ایک قدم اور آگے بڑھایا اور ہر حال میں پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر نفرت پھیلانے اور امریکہ کی "باضابطہ غلامی" قبول کرنے کیلئے امریکہ کی نامور لابی کمپنیوں کی خدمات بھاری معاوضوں پر حاصل کیں جنہوں نے کانگریس کے رکن بریڈ شرمین سمیت بھارت نژاد اور پانچ چھ امریکی ارکان پارلیمنٹ کے ذریعے امریکہ اور پاکستانی حکومت کو تحریک انصاف کے خلاف روا رکھی جانے والی "زیادتیوں" کی مذمت کی اور اس کے ساتھ ہی یہ واضع کر دیا کہ عمران خان نے اس بارے میں شواہد پیش نہیں کئے جبکہ بریڈ شرمین نے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن کو لکھے جانے والے خط کے حوالے سے وضاحت کی ہے کہ اس خط کا مطلب عمران کی حمائت کرنا نہیں۔شرمین نے یہ بتایا کہ عمران خان نے انہیں فون پر بات کرتے ہوئے واضع کیا تھا کہ "میں امریکہ کا مخالف نہیں ہوں"۔کیا عمران خان سے دریافت کیا جا سکتا ہے کہ "کیا ہم غلام ہیں؟" کا نعرہ درست تھا یا اب اقتدار حاصل کرنے کے لئےامریکہ کی غلامی قبول کرنے فیصلہ صحیح ہے؟ اس نوعیت کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں کی وجہ سے یہ ملک کس حد تک بے توقیر کیا جا چکا ہے۔ کہتے ہیں کہ زلمے خلیل زاد نے عمران خان کی خواہش پر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔خلیل زاد جو افغان نژاد امریکی ہے اور جسے پاکستان نے پال پوس کر جوان کیا، آج اسی کو آنکھیں دکھا رہا ہے، نہ کوئی کام، نہ تعلق اور نہ کوئی واسطہ، بلا وجہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔بلاوجہ جلتی پر تیل چھڑکتا پھر رہا ہے اور ملکی مسائل میں اضافہ کر رہا ہے، ڈپلومیٹک ضابطوں کی حدود رہتے ہوئے اپنی سفارتی ذمہ داریاں پوری کرے اور گلی محلوں کی سیاست کرنے کی بجائے طے شدہ سفارتی ضابطوں کے مطابق یہاں رہے۔یہاں کے لوگ یہ سوچے بغیر کہ ہر کسی کو عزت راس نہیں آتی، کسی غیر ملکی مہمان کو محبت اور عزت دینے میں ہر گز بخیل نہیں لیکن اگر پاکستان اور اس کے عوام پسند نہیں تو اپنی ٹرانسفر انڈیا کرا لے۔

تازہ ترین