چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال اور اُن کے ساتھ دو جج حضرات نے پنجاب میں الیکشن کا فیصلہ کرتے وقت کسی کی نہ سنی۔ نہ فل کورٹ بنائی نہ ہی سیاسی جماعتوں کو اُن کی بار بار درخواست کے باوجود سنا۔
سپریم کورٹ کے ہی اُن ججوں کے فیصلوں کو بھی کوئی حیثیت نہیں دی جو پنجاب میں الیکشن کے معاملہ پر سوموٹو لینے کو مسترد کر چکے تھے۔ چیف جسٹس صاحب نے اپنے ہی ججوں کی یہ بات بھی رد کر دی کہ سوموٹو مسترد کرنے والے جج اکثریت میں ہیں اور اس لئے جو فیصلہ چیف جسٹس اور اُن کے دو ساتھی ججوں نے کیا اُس کی حیثیت ہی متنازعہ ہو گئی۔
پاکستان کی وکلاء برادری کی اکثر تنظیمیں بھی چیف جسٹس سے کہتی رہیں کہ اس سیاسی معاملہ کو سننا ہے تو فل کورٹ بنا کر سنیں، حکومت میں شامل جماعتیں جو اس کیس میں اپنی اپنی رائے دینا چاہ رہی ہیں اُنہیں بھی سن لیں لیکن عدالت نے اگر سنا تو عدالت میں موجود تحریک انصاف کے اسد عمر کو۔
الیکشن کمیشن کہتا رہا کہ الیکشن فوری ممکن نہیں، وزارت دفاع نے صاف صاف کہہ دیا کہ موجودہ حالات میں فوج کو الیکشن ڈیوٹیوں کیلئے مختص نہیں کیا جا سکتا لیکن ان کی بھی نہ سنی گئی۔ تمام تنازعات اور اُٹھنے والے سوالات کو ایک طرف رکھتے ہوے تین رکنی بنچ نے 14مئی کو پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ دے دیا۔
اُسی روز میں نے یہ کہہ دیا تھا کہ مجھے 14 مئی کو الیکشن ہوتے نظر نہیں آرہے۔ اگر اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کیلئے حکومت، پارلیمنٹ تیار نہیں تو الیکشن کمیشن نے بھی اب کہہ دیا کہ الیکشن 8 اکتوبر کو ہی ہونی چاہئیں اور اگر الیکشن پہلے کروائے گئے تو ملک میں انارکی پھیل سکتی ہے اور عوام کی جان و مال کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن نہیں اُٹھا سکتا۔
اب تو وزارت دفاع نے بھی کہہ دیا ہےکہ فوری انتخابات ممکن نہیں، ایک ہی دن انتخابات کروائیں۔ وزارت دفاع نے یہ بھی دوبارہ کہہ دیا کہ ملک کے حالات ٹھیک نہیں اور یہ کہ موجودہ حالات میں فوج کو اُس کی اصل ذمہ داریوں سے ہٹا کر الیکشن کی ڈیوٹیاں نہیں دی جا سکتیں۔
اسی دوران چند روز قبل چیف جسٹس اور بنچ میں شامل دو جج حضرات کے ساتھ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے اعلیٰ عہداران کی چیمبر میں ملاقات ہوئی جس میں انٹیلی جنسن اداروں نے جج حضرات کو سیکورٹی حالات پر بریفنگ دی۔ اطلاعات کے مطابق وزارت دفاع کی طرح ان انٹیلی جنسن اداروں کا بھی یہی کہنا تھا کہ موجودہ حالات فوری انتخابات کیلئے موزوں نہیں۔
الیکشن کمیشن کو پنجاب میں انتخابات کیلئے اکیس ارب روپے کے معاملہ پر حکومت اور پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور پارلیمنٹ نے کہہ دیا کہ پیسہ نہیں دیا جا سکتا۔
حکومت اور پارلیمنٹ یہ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا بنچ تحریک انصاف کی حمایت میں اُن سے ناانصافی کر رہا ہے جس کے جواب میں سپریم کورٹ کے ساتھ ایسے تکنیکی انداز میں سیاست کی جا رہی ہے کہ الیکشن کمیشن کو فنڈز بھی فراہم نہ کئے جائیں اور وزیراعظم یا کسی دوسرے حکومتی فرد کو ممکنہ توہین عدالت کا بھی سامنا نہ کرنا پڑے۔
ان حالات میں بروز منگل تین رکنی بنچ نے کیس سنا۔ سماعت کے دوران یہ کہا گیا کہ اگر فنڈز فراہم نہ کئے گئے تو سنگین نتائج ہوں گے، یہ بھی کہا گیا کہ فیصلہ دینے کے بعد اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے، اب آگے ہی بڑھنا ہے لیکن اٹارنی جنرل نے جب سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کی بات کی تو اس پر تین رکنی بنچ پہلی بار ایک قدم پیچھے ہٹا اور سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کردئیے تاکہ مذاکرات کو موقع دیا جائے۔
چیف جسٹس اور عدالت کی طرف سے ایک قدم پیچھے ہٹنا ایک خوش آئند اقدام ہے لیکن یہ موقع ہے کہ چیف جسٹس اور بنچ میں شامل جج حضرات جائزہ لیں کہ اُن سے کہاں کہاں اور کیا کیا غلطیاں سرزد ہوئیں۔ اگر یہ غلطیاں نہ ہوتیں تو آج سپریم کورٹ کو ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)