• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بانیان پاکستان میں سے ایک خواجہ ناظم الدین اس ملک کے گورنر جنرل بھی رہے اور وزیراعظم بھی ،ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کس عہدے پر زیادہ طاقتور تھے ؟بولے ’’جب میں گورنر جنرل تھا تو وزیر اعظم زیادہ طاقتور تھا اور جب میں وزیر اعظم بنایا گیا تو گورنر جنرل زیادہ پاور فل تھا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قواعدوقوانین کچھ بھی کہتے ہوں کچھ لوگ شخصی طور پر اس قدر شریف اورکچھ اس اس قدر خودسر ہوتے ہیں کہ وہ چھوٹے عہدے پر بھی چھلانگیں بڑی مارلیتے ہیں اور ایسے شاطر لوگ اگر بدقسمتی سے کسی بڑے عہدے پر براجمان ہو جائیں تو پھر وہی ہوتا ہے جو ایک مدت سے ہمارے ہاں ہو رہا ہے اس خرابی بسیار کا علاج سوائے اس کے کچھ نہیں ہوتا کہ ان کے اطراف قواعد و ضوابط سخت کر دیئے جائیں بلکہ صوابدیدی اختیارات کی گنجائش سرے سے ختم کر دی جائے اور یہ بھاری پتھر صرف پارلیمان ہی اٹھا سکتی ہے لیکن اگر پارلیمان کی طاقت کو چیلنج کر دیا جائے گا تو پھر بھینس اس کی ہو گی جس کے ہاتھ میں لٹھ ہو گی یہی صدیوں کا آزمودہ نسخہ ہے ۔

آج ایک طاقت کے حریص خود سر، مفاد پرست اور پارٹی باز شخص نے آئین ،قانون اور انصاف کے نام پر جو حجت بازیاں کی ہیں بلاشبہ ہمارے بہت سے لوگ اس کی حمایت میں بھی رطب اللسان ہونگے کہ موصوف تو انصاف کی دہائی دیتے ہوئے آئین کی جنگ لڑ رہا ہے لیکن واقفان حال سے کونسا امر مخفی و پوشیدہ ہے کسی کے حال کو سمجھنے کیلئے ماضی بہترین دستاویز ہوتی ہے کیونکہ جیسے کہتے ہیں کہ فلاں شخص چاہے چوری سے جائے مگر ہیرا پھیری سے نہ جائے عمومی انسانی رویوں میں فطرت نہیں بدلتی ہماری اسی جوڈیشری میں کراچی کے ایک انسانی لیڈر کا کیس آیا کہ اس نے کس طرح قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے کیا کارستانیاں کی تھیں اب اس ادارے کی چند برس قبل قائم کردہ روایت کے مطابق اس کی تاحیات نااہلی والی وہی سزا بنتی تھی جو تین مرتبہ منتخب ہونے والے سا بق وزیر اعظم کو مخصوص ایجنڈے کے تحت من گھڑت الزامات و القابات سے نوازتے ہوئے اندھا دھند نہ صرف سنائی گئی تھی بلکہ پوری ڈھٹائی سے لاگو کروائی گئی مگر یہاں براجمان وہ شخص رونے لگ گیا کہ اتنی معمولی بات پر اتنی بڑی سزا یہ تو ڈریکونین لا ہے کسی نے یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کی کہ چند برس قبل تمہاری انہی مبارک آنکھوں پر کیا پٹی بندھ گئی تھی ؟

ن لیگیوں میں اگر کچھ بھی غیرت ہے تو کسی بھی مذاکراتی چکمے میں آکر گیلی وٹ پر قدم رکھنے سے انکار کر دیں رحمن کے فضل ،مولانا کے ایمانی جذبے سے کچھ طاقت پکڑیں اور ڈٹ جائیں کہ اے سرکاری و غیر سرکاری انصافیو!جب تک ترازو کے دونوں پلڑے برابر نہیں ہونگے ہم نہ تو چین سے بیٹھیں گے اور نہ کسی کو کرکٹ یا گلی ڈنڈا کھیلنے دیں گے اپنی صفوں سے کالی بھیڑوں کو آئوٹ کرتے ہوئے روایتی مریل لوگوں کو پیچھے کریں انرجیٹک لوگوں کو آگے لائیں اپنے سوشل میڈیا کو منظم کریں جواں عزم کارکنان اور بالخصوص وکلا محاذ کو تیز کریں اور پروپیگنڈہ مہم میں اپنے مخالفین کو ناکام بنائیں اگر آپ لوگوں سے ایک متشدد شخص نااہل یا گرفتار نہیں ہو رہا تو اپنی قانونی ٹیم کی تطہیر کیجئے ذمہ داریاں کارکردگی و آئوٹ پٹ سے مشروط کیجئے اور لیڈر صاحبہ بھی اپنے اندر کچھ میچورٹی لے آئیں ۔درویش کی تمنا ہے کہ چھوٹے میاں صاحب زبردستی گھر بھیج دیئے جائیں اس سے لیگی بیانیے کو دہرا فائدہ پہنچے گا اور وہ شخص خود بھی اپنی ناکامیوں کے علی الرغم اس سیاسی شہادت کے ذریعے اپنی سیاسی ساکھ کچھ نہ کچھ بہتر قرار دلوانے کے قابل ہو پائے گا ۔

دوسری طرف سرکاری اضافی جو دہائی ڈالے ہوئے ہیں انہیں یا تو فیس سیونگ کی خاطر سمجھوتہ کرنا پڑے گا یا اپنی توہین آپ کا سمبل بننا پڑے گا، قانونی حدود اور دیواروں کو پھلانگنے والی ان کی حرکات ان کے اپنے گلے پڑنے والی ہیں وہ چھوٹے ماتحتوں کو کیوں احکامات صادر فرماتے اور عدم تعمیل پر توہین کرواتے پھرتے ہیں حسب روایت اصل شخص کو اپنے حضور طلب فرمائیں اور لگائیں تو ہین عدالت ۔اب کسر کون سی رہ گئی ہے تو جائز یا ناجائز سو موٹو کو آپ لوگوں نے جس شتابی میں اٹھایا تھا پہنچائیں اس کو منطقی انجام تک۔ پنجاب حکومت قائم کروانے کیلئے آپ نے جس طرح قانونی پینترے بدلے منحرفین کو دیکھ کر آپ کا خون جوش مارتا تھا اور آپ نے لاکھوں ووٹرز کے نمائندوں کو فلور کراسنگ کا جرم ثابت ہوئے بغیر ہی ان کا حق رائے و نمائندگی چھین لیا۔(جاری ہے)

تازہ ترین