• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کا جو چہرہ دکھایا جاتا ہے، اُس کے بالکل برعکس پایا

انتہائی فرض شناس، دیانت دار، لائق فائق، متحرک، سیکرٹری اطلاعات، بلوچستان، حمزہ شفقات کی باتیں
انتہائی فرض شناس، دیانت دار، لائق فائق، متحرک، سیکرٹری اطلاعات، بلوچستان، حمزہ شفقات کی باتیں 

بات چیت: وحید زہیر، کوئٹہ

کچھ لوگ اپنے کام میں اس قدر ماہر اور اپنے فرائض(ڈیوٹی) سے اتنے مخلص ہوتے ہیں کہ پھر اُن کا نام ہی کام یابی کی ضمانت بن جاتا ہے اور صوبائی سیکریٹری اطلاعات، بلوچستان، حمزہ شفقات کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے، جو انتہائی قابل، دیانت دار، مخلص، متحرّک اور بےحد پروفیشنل ہونے کے ساتھ مشکل سے مشکل حالات میں بھی فرائض کی ادائی میں کوتاہی کے مرتکب نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے ہم منصب دیگر سرکاری آفیسرز کے برعکس صرف دفتر، کانفرنسز، سیمینارز ہی میں نہیں، فیلڈ میں بھی ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ 

وہ اسکول، کالجز کے دَورے، نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، تو عوام کے بیچ جانے، اُن سے بات کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ کبھی انسدادِ تجاوزات مہم کی نگرانی کرتے نظر آتے ہیں، تو ضرورت پڑنے پر ٹریفک کنٹرول کرتےاوراپنے ماتحت اسٹاف (ڈرائیورز، مزدوروں) کے ساتھ افطاری یا کھانا کھاتے بھی دیکھےجاتے ہیں۔ دَرحقیقت، اُن کا یہی مزاج، عادات ہی اُن کی مقبولیت کی اصل وجوہ ہیں۔ ان کے اسی اِخلاص، پُروقار شخصیت کا کمال ہے کہ جب اُن کا تبادلہ اسلام آباد سے کوئٹہ ہوا، تو شہرِ اقتدار کے باسی افسردہ دکھائی دیئے۔ 

اسکولز، کالجز کے طلبہ سے عام افراد تک سب کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ ’’حمزہ شفقات کا تبادلہ کیوں کیا جا رہا ہے؟‘‘پھر جب حال ہی میں بلوچستان کے حالات متاثر ہوئے اور اُنہیں اپنی سیکیوریٹی بڑھانے، بلا ضرورت باہر نہ نکلنے کی ہدایات دی گئیں، تو انہوں نے اپنی سرگرمیاں محض اس لیےمحدود نہ کیں کہ عوام میں کسی قسم کا خوف و ہراس نہ پیدا ہو جائے۔ گزشتہ دنوں ہم نے اِسی نڈر اور ہر دل عزیز سوِل آفیسر، حمزہ شفقات سےایک تفصیلی ملاقات کی، جس میں اُن کی تعلیم و تربیت، بلوچستان میں تعیناتی، کارگزاری اور دیگر اہم اُمور پر بات چیت ہوئی۔ ملاقات کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی:رابرٹ جیمس)
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی:رابرٹ جیمس) 

س: اپنےخاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت سے متعلق کچھ بتائیں، کتنے بہن بھائی ہیں اورکن کن شعبوں سے وابستہ ہیں؟

ج: میرا تعلق کھاریاں سے اور پیدایش لاہور کی ہے۔ آبائو اجداد زمین داری کے پیشے سے وابستہ تھے۔ میرے والد، چوہدری شفقات احمد نے(جن کا انتقال گزشتہ برس ہی ہوا) محکمۂ پولیس میں ایس ایس پی رینک تک ملازمت کی اور حکومتِ پاکستان کی جانب سے انہیں تمغۂ امتیاز اور تمغۂ حُسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔ مَیں نے ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی، پھر حسن ابدال کیڈٹ کالج سے ایف ایس سی کے بعد غلام اسحاق خان انجینئرنگ انسٹی ٹیوٹ، خیبر پختون خوا سے انجینئرنگ کی۔ 

بعدازاں، دوبارہ لاہور گیا اور وہاں سے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا۔ جس کے بعد پہلی پوسٹنگ سندھ کے شہر، لاڑکانہ میں بطور اسسٹنٹ کمشنر ہوئی۔ وہاں تین سال تک خدمات انجام دینے کے بعد اسسٹنٹ کمشنر، سکھر پھر گھوٹکی تعینات ہوا، جب کہ اسی دوران کشمور کا اضافی چارج بھی میرے پاس رہا۔ 

بعدازاں، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد مقرر ہوا، دو سال بعد سی ڈی اے میں ذمّے داریاں نبھائیں، دو سال اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں بھی گزارے، پھر اسلام آباد میں بحیثیت ڈپٹی کمشنر تعینات ہوا۔ گزشتہ برس مزید ترقّی کے لیے نام زد ہوا اور اے کلاس میں کورس مکمل ہونے کے بعد بلوچستان میں تبادلہ ہوگیا۔ اب یہاں بطور سیکرٹری اطلاعات خدمات انجام دے رہا ہوں۔ جہاں تک بھائی بہنوں کا سوال ہے تو، ہم پانچ بھائی ہیں، جن میں سے تین سول سروس سے وابستہ ہیں اور دو وکیل ہیں۔

س: آپ کا بچپن کیسا گزرا، پڑھائی میں کیسے تھے؟

ج: بچپن بہت اچھا گزرا، مگر مَیں شروع ہی سے بہت سنجیدہ، تھوڑا سلجھا ہوا، ذرا شرمیلا سا، مگر پڑھائی میں بہت اچھا تھا۔ والدین کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا، ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھتا اور فضول شرارتوں سے دُور ہی رہتا۔

س: بلوچستان میں تعیناتی سے قبل آپ کے تاثرات کیا تھے؟

ج: سچ کہوں تو تاثرات کچھ اچھے نہیں تھے کہ میڈیا میں بلوچستان کا جو چہرہ پیش کیا جاتا ہے، اُس کی وجہ سےصوبے سے متعلق کئی خدشات ذہن میں گردش کر رہے تھےبلکہ میرے خیال میں تو ہر شخص ہی یہ سوچتا ہے کہ یہاں کے حالات انتہائی مخدوش ہیں، عوام گھروں میں محبوس رہتے ہوں گے، ہر طرف خوف کا ماحول ہوگا، مگر آپ یقین کریں کہ مَیں نے اس صوبے اور یہاں کے عوام کو اپنے خدشات کے بالکل ہی برعکس پایا۔ بلوچستان کےحالات قطعاً ویسے نہیں، جیسا ایک عمومی تاثر ہے۔

یہاں کی مہمان نوازی بےمثال، حق کے ساتھ جینے کا ڈھنگ لاجواب ہے۔ جس قدر سادہ لوگ ہیں، اُن میں آگے بڑھنے کی خواہش، قابلیت، رواداری اُتنی ہی زیادہ ہے۔ حالاں کہ میرا سُسرال کے پی کے میں ہے، لیکن ابھی تک وہاں مجھے ایسی قُربت اور محبّت نصیب نہیں ہوئی، جیسی یہاں ہو رہی ہے۔ مُلک کے دیگر بڑے شہروں کی طرح نہ تو یہاں اسٹریٹ کرائمز دیکھنے کو ملے اور نہ ہی ڈاکا زنی کےواقعات، مگر افسوس کہ بلوچستان کےاِس مثبت چہرے کا کوئی ذکر ہی نہیں کرتا۔

س: آپ کے خیال میں، دنیا کے سامنے بلوچستان کا مثبت چہرہ کیوں نہیں آتا؟

ج: دراصل، یہ صوبہ رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا ہے، لیکن آبادی بہت کم ہے۔ سروسز کی ترسیل میں دشواریاں ہوتی ہیں، اخراجات پورے نہیں ہوپاتے۔ اگر ہم صرف رخشاں ڈویژن کی بات کریں، تو دنیا کے قریباً 120ممالک اس سے چھوٹے ہیں، یہ علاقہ یعنی یہ ایک ڈویژن، پورے خیبر پختون خوا سے بڑی ہے، تو وسائل کی کمی کی وجہ سے عوام تک سروسز پہنچانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اب لگتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے آسانیاں پیدا ہو رہی ہیں، مجھے یقین ہے کہ اِن شاء اللہ، بہت جلد بلوچستان ایک جدید صوبے میں تبدیل ہو جائےگا اور مُلکی وقار میں اضافے کا بھی سبب بنے گا۔

س: اور یہ سب کیسے ممکن ہوگا؟

ج: اٹھارویں ترمیم کے بعداختیارات صوبوں کو منتقل ہو چُکے ہیں۔ اب بلوچستان حکومت بھی تمام ذمّے داریوں میں برابر شریک ہو رہی ہے۔ میرا اپنا ٹارگٹ سب سے پہلے وہ تمام منفی تاثرات زائل کرنا ہے، جن کی وجہ سےحقائق سامنے نہیں آرہے۔ جب بلوچستان کی خُوب صُورتی، اہلیت، مثبت چہرہ سب کےسامنے آئے گا، تو صوبے میں سیاحت کو مزید فروغ ملے گا۔ 

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہاں متعدد قدیم مساجد، مندر، گوردوارے اور چرچز موجود ہیں، جو ان مذاہب کے پیروکاروں کے لیے مقدّس ہیں۔ نیز، یہاں ایک بہت بڑا تہذیبی وَرثہ بھی ہے، بے شمار تاریخی مقامات ہیں، جنہیں دنیا ضرور دیکھنا چاہے گی اور ہم سیاحوں کی اُن تک رسائی پر سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔

س: آپ اپنے محکمے میں کن منصوبوں پر کام کرنے جا رہے ہیں؟

ج: تعیّناتی سے قبل مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ محکمہ دیگر صوبوں کے اطلاعات کے محکموں کے مقابلے میں بہت ہی چھوٹا ہوگا۔ پنجاب کے محکمۂ اطلاعات کا بجٹ پانچ، چھے ارب سالانہ ہے، سندھ کا بھی ایسا ہی ہوگا۔ جب کہ ہمارا پورا بجٹ تن خواہوں سمیت 27 کروڑ روپے بنتا ہے۔ اِس وقت بھی ہم اضلاع میں دو، دو بندوں سے محکمہ چلا رہے ہیں۔ بہرحال، بعض انتہائی اہم مسائل اربابِ اختیار کے گوش گزار کردیئے ہیں، مگر ساتھ ہی ہم اپنے طور پر بھی کام میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کر رہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت کےپیشِ نظر محکمے کےافسران سوشل میڈیا پر کام کررہے ہیں۔

ہمارے53 سوشل میڈیا اکائونٹس ہیں اور ابھی ایک یوٹیوب چینل بھی شروع کیا ہے، جس پر تمام سیکریٹریز اپنی کارکردگی نشرکیاکریں گےتاکہ عوام، محکموں کی کارکردگی سے آگاہ ہوسکیں۔ نیز، انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے گوگل سے رابطہ کیا،تو اُس کی طرف سے ایک ہزار اسکالرشِپس دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ صوبے کے ایک ہزار نوجوانوں(پانچ سو لڑکوں، پانچ سو لڑکیوں)کو کورسز کروائے جائیں گے، جنہیں پھر آن لائن کام کرنے اور کمانےکاموقع ملے گا۔ اس طرح اگر ہم ایک ہزار نوجوانوں کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا کرنے میں کام یاب ہوگئے، تو مزید کام یابیوں کے بھی دَرکُھلیں گے۔

علاوہ ازیں، ہم نئی میڈیا پالیسی بھی لا رہے ہیں، جسے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ، ڈی جی پی آر اور پریس کلب کے ساتھ مل کر قابلِ عمل بنا رہے ہیں۔ نیز، نئی اشتہاری پالیسی بھی کابینہ میں پیش ہونے جارہی ہے۔ ہمارا بجٹ انتہائی قلیل ہے، بڑے اخبارات کی سرکولیشن بھی کم ہوچُکی ہے، تو ہم بہتر سے بہتر پالیسی دے کر اس صنعت کو قابلِ اعتبار بنانا چاہتے ہیں۔ پھر کچھ ہی دِنوں میں ایک ریڈیو اسٹیشن کا بھی آغاز کرنے جارہے ہیں۔ ہمیں قوی اُمید ہے کہ اس شعبے میں تمام چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری منصوبہ بندی کارآمد ثابت ہوگی۔

س: سوشل میڈیا پر اپنی گرفت کیسے مضبوط کریں گے؟

ج: جمہوری دَور ہے، آزادیِ اظہار پر کوئی پابندی نہیں۔ البتہ حکومت کو منفی پروپیگنڈوں کا ضرور سامنا ہے، تو ہم مثبت کارکردگی سے منفی عناصر کی حوصلہ شکنی کرسکتے ہیں، جس کی تمام تیاری ہوچُکی ہے۔ ہم ریلوے پُل کی عدم مرمّت، خستہ حال سڑکوں، بعض منصوبوں کی عدم تکمیل پر تنقید کو جائز سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ اور چیف سیکریٹری ایسی تعمیری تنقید کا نوٹس لے چُکے ہیں اور اب وفاقی وصوبائی حکومتوں کےدرمیان عوامی شکایات کے ازالے کے لیے رابطے بھی تیز تر ہوگئے ہیں۔

س: ماضی میں محکموں کی کارکردگی رپورٹس سے عوام کو آگاہی ہوتی تھی، مگر اب نہیں۔ اس تعطّل کو کیسے دَور کیا جاسکتا ہے؟

ج: ہم محکمے کی جانب سے ایک نیوز بلیٹن کا آغاز کر رہے ہیں، جسے اَپ ڈیٹ کردیا ہے، اب یہ ویور شِپ 15لاکھ تک پہنچ چُکی ہے۔

س: بلوچستان میں صحافت کو دیگر صوبوں کے مقابلے میں کیسا دیکھتے ہیں؟

ج: مَیں مختلف صوبوں میں میڈیا کے خاصا قریب رہا ہوں، تو اس تجربے کی بنا پر کہہ رہا ہوں کہ جو توانائی مَیں نے یہاں کی صحافت اور صحافیوں میں دیکھی، وہ کہیں اور نظر نہیں آئی۔ لیکن افسوس کہ اس کےباوجود بلوچستان کے صحافیوں کی کوئی مرکزی حیثیت نہیں یا کم ہے، لیکن ان کی صحافت جان دار ہے، مشکل حالات میں اپنے حصّے کا کام بہت بہتر طور پر کررہے ہیں۔ ایک اور توجّہ طلب پہلو یہ ہے کہ مَیں نے یہاں صحافت میں بلیک میلنگ نہیں دیکھی۔

تمام صحافی(سینئر، جونیئر) اپنا کام پورے اِخلاص سے کرتے ہیں۔ ہاں، تنقید بھی کُھل کر کرتے ہیں، مگراچھے کاموں کی پذیرائی میں بھی کنجوسی نہیں کرتے۔ حال ہی میں لسبیلہ میں بس حادثے پر حکومت پر جو تنقید ہوئی، اس کا نوٹس لیا گیا، جس کے تحت تمام ڈی سیز کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت ہدایات جاری کی گئیں، نئے ایس او پیز بنائے گئے، کیمروں کی تعداد مزید بڑھانے اور کارکردگی کو موثر بنانے کے احکامات جاری کیے گئے۔

س: اٹھارویں ترمیم کے بعد محکمۂ اطلاعات کے کچھ شعبہ جات ابھی تک مرکز کے پاس ہی ہیں، کیا ان اختیارات کو حاصل کرنے پر کام ہورہا ہے؟

ج: جی، اے بی سی سرٹیفکیٹ سینٹرل میڈیا میں شمولیت کےحوالے سے کچھ اختیارات وفاق کے پاس ہیں، جس کامتبادل سوچ رہےہیں، دیکھیں، یہ کوئی چھوٹا معاملہ نہیں، جسے فوری حل کر دیا جائے، بعض کاموں میں نظم و ضبط، قواعد کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے، تو اُمید ہے آگے چل کر بہت سے خدشات خودبخود دُور ہوجائیں گے۔ اس وقت ہماری ترجیحات میں ’’رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ‘‘ شامل ہے، جس پرعمل درآمد شروع ہوچُکا، اکثر محکموں میں افسران تعینات ہوچُکے اور اس کے رُولز بھی منظور ہونے جارہے ہیں۔

س: ورکنگ جرنلسٹ کی فلاح وبہبود کے حوالے سے کیا کام ہورہاہے؟

ج: اس حوالے سے فنڈز موجود ہیں، ’’ہاکرز ایسوسی ایشن ویلفیئر فنڈ‘‘ پر بھی بخوبی عمل درآمد ہورہا ہے۔ اس سلسلے میں کمیٹیز قائم کی گئی ہیں، جو اپنا کام سرانجام دے رہی ہیں۔ ہم نے حال ہی میں انفارمیشن کمیشن بنایا ہے، جس کے لیے ریٹائرڈ ملازمین کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ گوادر میں پریس کلب کی عمارت پر کام جاری ہے،خضدار اور پنجگور کے صحافیوں کو درپیش مسائل حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یاد رہے، اس وقت سوائے ضلع موسیٰ خیل کے، 14اضلاع میں ہمارے دفاتر موجود ہیں۔

س: محکمہ انفارمیشن محکموں کے درمیان رابطوں میں اپنا کردار کیسے ادا کررہا ہے؟

ج: ہماری نشان دہی پر چیف سیکرٹری، بلوچستان نے ’’تِھنک ٹینک‘‘ کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا ہے، جس میں تمام محکموں کے سربراہان شامل ہیں۔ اس گروپ میں محکموں کی کارکردگی پر بات ہوتی ہے۔ تمام سیکریٹریز اور ڈی سیز کے گروپ روزانہ کی بنیاد پر اپنی کارکردگی الگ سے پیش کرتے ہیں۔ نیز، ہم اپنی کارکردگی رپورٹس، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر پیش کریں گے۔ حکومتی کارکردگی میں بھی تیزی آرہی ہے، پچھلے تین مہینوں میں وزیرِ اعظم، وزیرِ اعلیٰ اور چیف سیکرٹری کئی بار گوادر کا دَورہ کرچُکے ہیں۔ 

پانی اور بجلی کے بنیادی مسائل حل ہونے جارہے ہیں، اس کے علاوہ محکموں کے درمیان ایک مربوط نظام کے تحت خضدار، پنجگور اور آواران سمیت بعض اضلاع میں اسکولز، لائبریریز و دیگر عوامی ضروریات کے مطابق ترجیحی بنیادوں پر کام ہورہا ہے۔ بد قسمتی سے بلوچستان میں سالانہ پچاس سے ساٹھ ارب روپے سیکیوریٹی کی مَد میں خرچ ہو جاتے ہیں، جو پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی) پر ایک بوجھ ہے، کیوں کہ ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ کا بڑا حصّہ اس میں لگ جاتا ہے، لیکن اِن شاء اللہ دو تین برسوں میں ہمیں ریکوڈک سے تین سے چار سو ارب سالانہ ایڈیشنل رقم ملنے کی قوی امید ہے، جس کے بعد ڈیمز، اسکولز، سڑکے تعمیر ہونے کے ساتھ توانائی کے شعبے میں بھی ترقّی آئے گی۔ اور محکمۂ معدنیات میں صحیح سمت میں کام ہونے سے بلوچستان ہی کیا، پورا مُلک ترقّی کرے گا۔

س: کیاحکومت کی کارکردگی اور مسائل کی نشان دہی ہی محکمہ اطلاعات کی اصل ذمّے داری ہے؟

ج: چیف سیکرٹری بلوچستان، عبدالعزیز عقیلی نے مجھے سوشل میڈیا کا فوکل پرسن بنایا ہے۔ متعلقہ اداروں اور محکموں کو اب پرنٹ میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا پر مسائل کی نشان دہی اور تنقید سے براہِ راست آگاہ کیا جائے گا۔ گزشتہ دنوں بہادر خان ویمن یونی وَرسٹی میں غیر قانونی بھرتیوں کا معاملہ میڈیا میں اٹھایا گیا، تو ہماری نشان دہی پر اس پر فوری کارروائی ہوئی، مگر چھان بین کے بعد پتا چلا کہ وہ خبر غلط تھی۔ میرے خیال میں تو غلط خبریں پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی سےحکومتی اداروں کی کارکردگی مزید بہتر ہوگی۔

س: صحافیات(ویمن جرنلسٹس) کے لیے کیا اقدامات ہو رہے ہیں؟

ج: ہم جو انفارمیشن سیل بنا رہے ہیں، اُس کی پہلی کھیپ دس لڑکے اور دس لڑکیوں پر مشتمل ہوگی، جنہیں اِنٹرن شِپ سے بالواسطہ بیس ملازمتیں ملیں گی، جب کہ اِنٹرنز کی تربیت کا بوجھ بھی حکومت پر نہیں پڑے گا۔ یوں وہ کچھ سیکھ کر باعزّت طور پر کمانے کے قابل ہوسکیں گے۔ نیز، اس کا دائرہ مزید وسیع کرنے کا بھی پروگرام ہے۔ بلوچستان کی صحافیات بھی انتہائی جرأت مند ہیں اور اُنہیں بھی مرد صحافیوں کی طرح محکمے کی جانب سے سہولتیں حاصل ہیں۔

س: بلوچستان کامثبت چہرہ آپ کے سامنے ہے، اٍِسے دنیا کے سامنے لانے کے لیے کوئی خاص منصوبہ بندی کی ہے یا کر رہے ہیں؟

ج: یہاں نوجوانوں کی تعلیم میں دل چسپی اطمینان بخش ہے، وہ سیاسی معاملات سے الگ سوچتے ہیں۔ میرا ’’ڈِسکور پاکستان‘‘ کی ٹیم سے رابطہ ہے، وہ بھی یہاں کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ترقّی کے عمل میں سِوِک سینس کی اہمیت اُجاگر کریں گے، شجر کاری مہم کا بھی آغاز کرچُکے ہیں، جس کے تحت اب تک چھے لاکھ درخت لگائے گئے ہیں۔ نیز، صوبائی سطح پر مذہبی و قومی تہوار منانے اور ثقافتی پروگرامز بہتر انداز میں کرنے کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔

س: اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں بتائیں کہ یہاں ترقّی کے عمل میں کس قسم کی رکاوٹیں ہیں؟

ج: ہمیں سرکاری ملازمتوں کو گلیمرائز نہیں کرنا چاہیے۔ نوجوان سائنس پڑھیں، انجینئرز، ڈاکٹرز بنیں، تجارت میں دل چسپی لیں۔ بنگلا دیش ٹیکسٹائل کے کاروبار میں خاصی ترقّی کرچُکا ہے، ساتھ ہی اپنا تعلیمی معیار بھی بلند کر رہا ہے، بھارت میں بہترین یونی وَرسٹیز قائم ہیں، بنگلور آئی ٹی حب بن چُکا ہے، یوٹیوب، گوگل ہرشعبے کی سربراہی بھارتیوں کے پاس ہے۔ میری شدید خواہش ہے کہ ہمارا نوجوان ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں کام کرے، برین ڈرین ایلیٹ کلچر پوری دنیا کا مسئلہ ہے، ہمیں ترقّی کےعناصر پراپنا دھیان مرکوز کرنےکی ضرورت ہے۔ 

مَیں یو اے ای، برطانیہ،  سنگاپور، ملائشیا اور تُرکیہ گھوم پھر کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمیں ہر شعبے میں اچھے رہنمائوں، ماہرین کی ضرورت ہے۔ نسلِ نو کو وقت برباد کرنے سے روکنے کے لیے مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرناہوگا اور ہمارا میڈیا جتنا مثبت ہوگا، عوام کی سوچ میں اُتنی ہی مثبت تبدیلی آئے گی۔ نسل دَر نسل اپنی اولاد کو نائب قاصد بھرتی کروانے کےلیے دَردَر کی ٹھوکریں کھانے والوں کو اپنے بچّوں کو ہنر مند بنانے، چھوٹے موٹے کاروبار سے زندگی کا آغاز کرنے کی ترغیب نیک نیّتی سےدینی چاہیے۔

میرے محکمے کے وزیر مٹھا خان کاکڑ نے مجھے بتایا کہ وہ ناخواندہ تھے، بچپن میں تبلیغی گروپ کا حصّہ بنے، بلوچستان سے باہر جا کر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، واپس آکر تعلیم حاصل کرنےکافیصلہ کیا،ساتھ محنت مزدوری بھی کی، پھر ریت، بجری کاکاروبارکیا، اگلے مرحلے میں چھوٹے موٹے ٹھیکے لیے اور پھر باقاعدہ ٹھیکے دار بن گئے اور اِس طرح انہیں معاشرے میں ایک قابلِ فخر مقام پانے میں کام یابی نصیب ہوئی۔

س: آپ نسلِ نو کو تو سرکاری ملازمت سے ہٹ کر دیگر پروفیشنز میں جانے کا مشورہ دے رہے ہیں، جب کہ خود انجینئرنگ کے بعد سی ایس ایس کیا، تو ایسا کیوں؟

ج: مَیں نے 2003ء میں انجینئرنگ کی، اُس وقت پاکستان میں کیریئر آپشنز بہت زیادہ نہیں تھے، جب کہ بشمول والد، میرے خاندان کی اکثریت سول سروسز سے وابستہ رہی ہے، تو سول سروس میں آنا ایک طرح سےخاندانی روایت بھی تھی۔ اسی لیے مجھے بھی مقابلہ جاتی امتحان دینا پڑا، لیکن اُس وقت بھی میرے ذہن میں ایک بات واضح تھی کہ اگر یہ امتحان پاس نہیں کرسکا، تو دل برداشتہ نہیں ہوں گا، انجینئرنگ ہی کے شعبے میں کیریئر بناؤں گایا کسی اور شعبے میں کوئی کام کرلوں گا۔ لیکن آج کا دَور اُس وقت سے یک سر مختلف ہے۔ آج کیریئر بنانے کے لیے ایک پورا جہان پڑاہے، مگر بدقسمتی سے نوجوان اس طرف دھیان نہیں دے رہے۔ 

مَیں نے مشاہدہ کیا ہےکہ نوجوانوں کو سرکاری نوکری کاگویا بھوت ساسوار ہے۔ ہاں سول سروسز بھی اچھا شعبہ ہے، لیکن اِسےسر پر سوا نہ کریں، مَیں چاہتاہوں کہ ہماری نسلِ نو نِت نئے آئیڈیاز سامنے لائے، بزنس اسٹارٹ اپس کی طرف متوجّہ ہو اور یقین کریں کہ پاکستان کی بقا بھی اِسی میں ہے۔ جب بچّےمقابلہ جاتی امتحانات یاسرکاری ملازمتوں کے حصول کے لیے چار چار، پانچ پانچ سال لگا دیتے ہیں، تو اِس سے نہ صرف خود اُن کا بلکہ مُلک کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے بچّوں کو سرکاری نوکریوں کے سحر سے نکال کر دیگر شعبوں، بالخصوص کاروبار کی طرف راغب کرنا ہوگا۔ دنیا بَھر میں آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں نوجوان بہت آگے بڑھ رہے، نام اور پیسا دونوں کما رہے ہیں، تو ہمارے نوجوانوں کو بھی ایسا ہی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

س: سول سرونٹس کی مراعات تو سب کو نظر آتی ہیں، لیکن نقصانات کیا ہیں؟

ج: سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ بہت سی چیزیں چھوڑنی پڑتی، کئی دلی خواہشات مارنی پڑتی ہیں۔ ایک طرح سے ہماری آزادی سلب ہوجاتی ہے، جیسے ہم ذاتی کاروبار نہیں کر سکتے، درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ نہیں ہو سکتے، کسی اخبار میں کالمز، مضامین نہیں لکھ سکتے، تن خواہیں بہت کم ہوتی ہیں (میرے ساتھ انجینئرنگ کرنےوالے کئی دوست آج مجھ سے دُگنی تن خواہوں پر کام کر رہے ہیں) اور ایف آئی اے سے عدالتوں، میڈیا تک کے کڑے چیک اینڈ بیلنس کی زد میں بھی ہوتے ہیں۔ 

پھر جو آفیسرز ترقّی کرنا، اچھی پوسٹنگز حاصل کرنا چاہتے ہیں،اُنہیں بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے، ہم دن کے دس، بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ نیز، 97 فی صد سول سرونٹس جب ریٹائر ہوتے ہیں، تو اُن کے پاس ذاتی گھر ہوتا ہے، نہ گاڑی۔ تو سول سروس کو ایک سراب سمجھ لیں، جس میں عزّت اور رتبہ تو ضرور ہے، لیکن روک ٹوک، پابندیاں بھی کچھ کم نہیں ہوتیں۔

س: اپنی فیملی سے متعلق کچھ بتائیں، اہلیہ گھریلو خاتون ہیں، یا…اوربچّے کتنےہیں، آپ دونوں اُن کے مستقبل سے متعلق کیا سوچتے ہیں؟

ج: میری مسز فیشن ڈیزائنر ہیں، انہوں نے دبئی سے فیشن ڈیزائننگ میں تعلیم حاصل کی، پھر شادی ہوگئی اور اب یہاں اپنی بہن کے ساتھ مل کر ایک چھوٹا سا بزنس چلاتی ہیں، جس میں وہ دونوں برائیڈل ڈریسز بھی تیار کرتی ہیں اور سادہ کپڑے بھی اور وقتا فوقتاً ان کی نمایشوں کا بھی انعقاد کرتی رہتی ہیں۔ ہمارے دو بچّے(گیارہ سال کابیٹااور چھے سال کی بیٹی) ہیں۔ دونوں اسکول میں زیرِ تعلیم ہیں۔ 

سب سے پہلی کوشش تو یہ ہے کہ انہیں تعلیم یافتہ کرنے کے ساتھ اچھا اور ذمّے دار انسان بھی بنائوں۔ اُن کےمستقبل کے حوالے سے مَیں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ وہ خُود اپنی دل چسپی سے جس شعبے کا انتخاب کرنا چاہیں، کر سکتے ہیں۔ ہاں، اگر میرا مشورہ مقصود ہوا تو جو کچھ بلوچستان اور پاکستان کے نوجوانوں کے لیے کہہ چُکا ہوں، انہیں بھی ویسا ہی کرنے کی تاکید کروں گا۔

س: کھانے میں کیا پسند ہے، مطالعے کا شوق ہے، اور پسندیدہ لکھاری کون ہیں؟

ج: بچپن ہی سے بریانی شوق سے کھاتا ہوں، لیکن جب سے بلوچستان پوسٹنگ ہوئی ہے، تو یہاں کے ’’کھڈّی کباب‘‘ بھی پسندیدہ کھانوں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔ کھڈی کباب، روایتی بلوچی ڈِش ہے، جو کھڈّا کھود کر اُس میں پکائی جاتی ہے۔ مطالعے کا بھی خاصا شوق رکھتا ہوں اور زیادہ تر مذہبی، تاریخی، سیاسیات پر مبنی کتب پڑھنا پسند کرتا ہوں، پسندیدہ لکھاریوں میں امریکی ادیب ڈین براؤن اور مشتاق احمد یوسفی شامل ہیں۔