میں نہ تو ماہر علم نجوم ہوں نہ ستارہ شناس۔ آپ مجھے علم الاعداد سے بھی عین غین ہی سمجھیں تو بہتر ہے۔ حالات و واقعات کے تناظر میں ”ع“ میرے دل و دماغ پر چھا چکی ہے دیکھتے ہیں کہ آئندہ دنوں میں میرا یہ وہم کب عین غین ہوتا ہے۔ آپ کو مجھ سے زیادہ یاد ہونا چاہئے کہ ع سے عمران خان کے عشق سے شروع ہونے والی کہانی میں کس کا بہت اہم کردار ہے۔ دورِ خان میں (ع) ہر طرف چھائی نظر آتی تھی اور دور حاضر بھی اسی کا ہے، زمانہ شناس کہتے ہیں کہ وہ کیونکہ ”ع“ کے عشق میں اس حد تک مبتلا ہیںکہ انہیں جنگلوں بیابانوں میں ہر سو عین ہی عین نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ع سے عثمان بزدار اس وقت تک وزیراعلیٰ پنجاب برقرار رکھے گئے جب تک انہوں نے پوری پی ٹی آئی کی لٹیا نہ ڈبو دی۔ کراچی سے چنی گئی ع سے عمران اسماعیل گورنر سندھ بن کر نکلے اورع کی پرچھائیں جب سیالکوٹی منڈے پر پڑی تو عثمان ڈار وزیر امور نوجوانان بنائے گئے۔ ع سے عاشقی اس حد تک نظر آنے لگی کہ ڈبل ع والے عارف علوی صدر پاکستان اورسپریم کمانڈر لگائے گئے۔ اسے خدا کی کرنی اورحکومتی اتحادیوں بشمول (ن) لیگ کی بھرنی ہی سمجھئے یا محض اتفاق کہ چیف جسٹس آف پاکستان بھی ڈبل ع والے عمر عطا بندیال بنے، آئین پاکستان کے ”ازخودمحافظ“ کے طور پر نو سے سات ، سات سے پانچ اور آخر میں تین رکنی بنچ کے سربراہ کے طور پر پاکستان کی سیاسی و آئینی تاریخ کا سب سے متنازعہ فیصلہ دینے والے چیف جسٹس کے طور پر آج ہماری تحریروں ، تبصروں ، تجزیوں میں ٹاپ ٹرینڈ کے طور پر نظر آتے ہیں۔ ع سے عشق کرنے والے اگر ع سے عمر عطا بندیال اور ع سے عارف علوی کی دو عینکوں کے درمیان دیکھنے کی بجائے آمنے سامنےدیکھیںتو یہ ق قینچی کی شکل بنتی نظر آتی ہے اور اگر یہ قینچی ع سے عید کے دنوں میںکسی ایرے غیرے درزی کے ہاتھ لگ جائے تو آپ کے قیمتی کپڑوں کی جو ایسی تیسی پھرے گی یہ بندہ جانے یا درزی۔اب تو آپ سمجھ ہی جائیے کہ ڈبل ع سے بننے والی قینچی کا کام صرف کاٹنا ہی ہوتاہے چاہے کپڑا ہو، ناخن ہوں، بالوں کی تراش خراش ہو، کسی کی زبان کاٹنی ہو یا گلا۔ کسی انسان کی اکڑی بھنوئیں کاٹنا ہوں تو ہر صورت قینچی ہی کام آتی ہے۔ اگر یہ قینچی کسی طالع آزما کے ہاتھ لگ جائے تو پھر یہ آپ کی خبریں ، تجزیئے، کالم اور نشریئے تک سنسر کرنے کے کام بھی آسکتی ہے۔ ہم موضوع سے کہیں دور نکل گئے۔ بات ع کی ہو رہی تھی اور پھر ع سے سب سے طاقت ور عہدے پر آرمی چیف عاصم منیر نظر آتے ہیں، عمران کے عشق میں شروع ہونے والی کہانی کے اردگرد گھومنے والے طاقت ور اداروں کے سربراہوں کے نام ع سے ہی شروع ہوتے ہیں، اب دیکھنایہ ہے کہ ڈبل ع کی صورت قینچی بننے والے دو بڑے نام حکومتی قانون سازی پر کس طرح ق قینچی چلاتے ہیں، لیلیٰ مجنوں کی اس کہانی کا انجام بظاہر کچھ اچھا نظر نہیںآتا۔ اگر ع سے ع ٹکرایا تو عین ممکن ہے کہ آئین کی ہی عزت خطرے میں پڑ جائے پھر یہ سب دیوانے، پروانے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں اس تشویش کا اظہار نظر آتا ہے کہ داخلی و خارجی سطح پر قومی سلامتی کے اداروں، ان کی شخصیات کے خلاف جو زہر اُگلا جارہا ہے یہ ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے اور یہ طرز عمل زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس بات کی بھی واضح نشان دہی کر دی گئی ہے کہ ملک بھر میں دہشت گردی کی تازہ لہر کی ذمہ دار عمرانی حکومت کی طالبان سے محبت اور نرم پالیسی ہے جس کے نتیجے میں افغانستان سے دہشت گرد واپس آئے، انہیں جیلوں سے رہا کرکے محفوظ مقامات پر ٹھکانے بنانے کا موقع دیا گیا۔ آج پوری پاکستانی قوم اسی بھیانک پالیسی کے نتائج بھگت رہی ہے۔ اس اعلامیے سے قبل تحریک انصاف کے رہنما سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا حکومت کو انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے سنجیدہ مذاکرات کا پیغام دینا اسی دباؤ کا نتیجہ ہے جو وہ پس پردہ محسوس کررہے ہیں۔ اس پیشکش کا حکومتی سینیٹر مشاہد حسین سید کی طرف سے حکومت کو مثبت جواب دینے پر قائل کرنا واضح اشارے ہیں کہ خان صاحب جو لڑائی جس کے ذریعے جیتنا چاہتے ہیں اس کے نتائج بھی قبول نہیں کئے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ دورن خانہ فریقین کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ ملک میں لگی سیاسی آگ کو فوری ٹھنڈا کیا جائے۔ بصورت دیگر ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ آنے والے دنوں میں امید رکھی جاسکتی ہے کہ سیاسی و معاشی سطح پر مثبت اور حیران کن تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ چین کی کوششوں سے سعودی ، ایران سفارتی تعلقات کی بحالی پورے خطے کی خوش حالی کا سبب بنتی نظر آرہی ہے۔ خطے میں امریکی اثرو رسوخ کا تاثر کم ہو رہا ہے۔ پاکستان چین کے تعاون سے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا کر اپنے معاشی مسائل حل کرسکتا ہے۔ ایسے میں سعودی فرمانروا شاہ سلمان کا سابق وزیراعظم نوازشریف کو دورہ سعودی عرب اور عمرے کی دعوت دینا سیاسی و معاشی مثبت تبدیلیوں کی طرف اشارہ ہے۔ ایک بار سابق صدر پرویز مشرف نے کہا تھا کہ اگر نواز شریف اور بے نظیر بھٹو پاکستان میں ہوں گے توپھر میں نہیں رہوں گا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اب بھی درپیش ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)