سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری پاکستان کی سیاسی تاریخ کی مظلوم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین نے کبھی انہیں کرپشن کے حوالے سے مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب دیا اور کبھی اپنے مخالفوں کی ٹانگوں کے ساتھ بم باندھنے والے ڈان سے تشبیہ دی۔ حد تو یہ ہے کہ انہیں نہ صرف میر مرتضیٰ بھٹو بلکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اور اس کے جواز میں ایک نہایت سطحی دلیل دی جاتی ہے کہ محترمہ کی شہادت کا براہِ راست فائدہ کِسے ہوا؟اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو قتل یا شہید ہونے والے ہر صاحبِ حیثیت فرد کے اہلِ خانہ ہی اس کے قاتل ٹھہرتے ہیں۔ ایسی سطحی الزام تراشی مقتول کے لواحقین کے زخموں پر نہ صرف نمک چھڑکنے کے مترادف ہے بلکہ بے حسی اور سنگدلی کی بھی انتہا ہے جھوٹے پروپیگنڈے کے بارے میں پہلے زمانے میں یہ کہا جا تا تھا کہ سچ ابھی اپنے جوتے تلاش کر رہا ہوتا ہے جبکہ جھوٹ پورے شہر کا چکّر لگا کر واپس آجا تاہے۔ آجکل جھوٹ کی رفتار اس قدر تیز ہو چکی ہے کہ وہ سچ کے جوتے تلاش کرنے تک پوری دنیا کا چکّر لگا چکا ہوتا ہے۔
جناب آصف علی زرداری کے خلاف خوفناک پروپیگنڈے اور میڈیا ٹرائل سے پہلے اس کے پس منظر کو جاننا نہایت ضروری ہے۔ پاکستان اپنی تخلیق کے فوراَ بعد ہی عالمی سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں کھلونا بن چکا تھا۔ جو اسے اس کے انتہائی اہم محل وقوع اور جیو پولیٹکل اہمیت کی وجہ سے اینٹی سامراج طاقتوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے تھے۔ جس کی وجہ سے انہوں نے پاکستان میں فوجی ڈکٹیٹروں کو مضبوط اور سیاستدانوں کو کمزور کرنا شروع کردیا۔ 1991میں سوویت یونین کے زوال تک یعنی اپنا پہلا ہدف پورا ہونے تک انہوں نے پاکستان میں ہر جمہوری تحریک کو کچلنے کے لئے فوجی ڈکٹیٹر وں کو کھل کر امداد دی اور سیاستدانوں کے خلاف کردار کشی کی مہم چلائی ۔ اس سارے عرصے کے دوران صرف پاکستان پیپلز پارٹی ہی وہ واحد سیاسی جماعت تھی جو ان طاقتوں کے راستے میں مزاہم رہی۔ ذوالفقار علی بھٹو جو اپنی دلیرانہ شہادت کے بعد ’’ عوامی جدوجہد‘‘ کا سمبل بن چکے تھے۔ انہیں اپنے راستے سے ہٹانے کے بعد ان طاقتوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو بالعموم اور بھٹو خاندان کو بالخصوص منظر نامے سے ہمیشہ کے لئے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔ جس کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کے دونوں صاحبزادوں پہلے میر شاہنواز بھٹو اور بعد میں میر مرتضیٰ بھٹو کو شہید کردیا گیا۔
میر مرتضیٰ بھٹو پر قاتلانہ حملہ ان کی بہن محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے دوران کیا گیا۔ بعد میں27دسمبر 2007ءکو محترمہ کو بھی راولپنڈی کے لیاقت باغ میں شہید کر دیا گیا۔ آصف علی زرداری جب محترمہ بے نظیر بھٹو سے شادی کرنے کے بعد بھٹو خاندان کا حصّہ بن گئے تو ان کیخلاف بھی کردار کشی کی مہم شروع کردی گئی ۔ جو بڑھتے بڑھتے جھوٹے مقدمات اور گرفتاریوں تک پہنچ گئی جس کا واحد مقصد محترمہ بے نظیر بھٹو پر ایک دبائو برقرار رکھنا تھا۔ محترمہ اپنے معصوم بچوں کیساتھ آصف علی زرداری سے ملنے مختلف جیلوں کے چکّر لگاتی رہیں۔ گویا محترمہ بے نظیر بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف آصف علی زرداری کو ایک پنچنگ بیگ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ تاکہ وہ حوصلہ ہار دیں۔ لیکن محترمہ اور زرداری صاحب آہنی عزم کے مالک تھے۔ زرداری صاحب نے اپنی جوانی کے 11سال بغیر کسی جرم کے قیدو بند میں گزار دیے جہاں اُن پر تشدد بھی کیا گیااور ان کی زبان کاٹنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ان تمام مظالم کے باوجود وہ زرداری صاحب کی ’’ مسکراہٹ ‘‘ نہ چھین سکے۔ اور نہ ہی کوئی جرم ثابت کر سکے۔ آج تک اسٹیبلشمنٹ نے جس پارٹی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بھر پور کوشش کی وہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ لیکن اس کے جواب میں پارٹی نے اپنے مخالفین سمیت تمام پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلنے کی مفاہمتی پالیسی اپنائی۔ ان مواقع پر آصف علی زرداری نے انتہائی زیرک سیاستدان ہونے کا ثبوت دیا۔ جب محترمہ کی شہادت کے بعد پورا سندھ آگ میں جل رہا تھا۔تو زرداری صاحب نے ’’ پاکستان کھپے ‘‘ کا نعرہ لگا کر اس آگ کو بجھانے میں مدد دی۔ اپنی بدترین سیاسی اپوزیشن کو اپنے ساتھ ملا کر مخلوط حکومت بنانے کی دعوت دی۔ انہوں نے ’’مخالفت‘‘ کی بجائے ’’ مفاہمت‘‘ کا اعلان کیا۔ ان کے دورِ حکومت میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھانہ ہی کسی کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ حالانکہ الزام تراشی کرنے والوں نے انہیں منتقم مزاج مشہور کررکھّا تھا۔ یہ بھی زرداری صاحب کا اعزاز ہے کہ انہوں نے 18ویں ترمیم کے ذریعے اپنے تمام تر اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کر دیے۔ اور صوبوں کو ان کے دیرینہ حقوق لوٹا دیے۔
یہ ان کی مفاہمت اور برداشت کی پالیسی تھی جس کی وجہ سے تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان میں پہلی مرتبہ کسی منتخب حکومت نے اپنے پانچ سال پورےکئے ۔ ان کی اعلیٰ ظرفی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ انہوں نے عام انتخابات میں نہ صرف شکست کو قبول کیا بلکہ نئی حکومت کو اقتدار کی پر امن منتقلی کے ذریعے پاکستان میں جمہوری روایات کی بنیاد رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ ’’ مفاہمت کے سفیر‘‘ کہلاتے ہیں۔ آصف علی زرداری کو نا حق ظالم ثابت کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ سیاسی عدم برداشت کے اس خوفناک دور میں پاکستان کو آج آصف علی زرداری جیسی شخصیت کی اشد ضرورت ہے جو پاکستانی سیاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)