• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

چیف جسٹس سپریم کورٹ کے خلاف کوئٹہ بنچ نے جو فیصلہ دیا، اسے جسٹس سجاد علی شاہ نے اگلے روز اپنی سربراہی میں پانچ رُکنی بنچ تشکیل دیکر معطل کردیا ۔جسٹس مامون قاضی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ چیف جسٹس اپنے ہی مقدمے میں خود منصف نہیں ہو سکتے اسلئے اس معاملے کی سماعت کیلئے فل کورٹ بنچ تشکیل دیا جائے۔جن تین ججوں نے جسٹس سجاد علی شاہ کے فیصلے سے اتفاق کیا ان میں سے دو جج ،جسٹس منیر اے شیخ اور جسٹس چوہدری محمد عارف چند روز قبل جسٹس سجاد علی شاہ کی سفارش پر سپریم کورٹ کے جج بنائے گئے تھے ۔ جس دن پرنسپل سیٹ پر موجود تین ججوں کے ذریعے جسٹس سجاد علی شاہ نے خود تحریر کئے گئے فیصلے میں اپنے آپ کو بحال کیا ،اسی دن سپریم کورٹ پشاور رجسٹری میں انکی تعیناتی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ پشاور بنچ نے کوئٹہ بنچ کے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے ،چیف جسٹس کو پھر معطل کردیا۔

حکومت نے سپریم کورٹ کے سینئر موسٹ جج جسٹس اجمل میاں کو قائم مقام چیف جسٹس تعینات کرنے کی سمری صدر مملکت کو بھجوادی مگر کھلی جنگ چھڑ جانے پر صدر فاروق لغاری بھی میدان میں آگئے اور کہہ دیا کہ حکومتی انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہے۔جسٹس اجمل میاں کے بعد جسٹس سعید الزماں صدیقی سینئر موسٹ جج تھے ،انہوںنے جسٹس سجاد علی شاہ کی تعیناتی کا فیصلہ کرنے کے لئےفل کورٹ بنچ تشکیل دیدیا تو جسٹس سجاد علی شاہ نے اسے بغاوت قرار دیتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل میںان کے خلاف ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔سپریم کورٹ کے ریٹائر جج صاحبان نے جسٹس سجاد علی شاہ سے سبکدوش ہونے کا مطالبہ کیا مگر وہ نہ مانے۔

وزیراعظم نوازشریف کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت 28نومبر 1997ء کو ہونا تھی۔لوہا گرم تھا اور توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ جسٹس سجاد علی شاہ آخری چوٹ لگا کر حکومت گرادیں گے ،وزیراعظم کو توہین عدالت کے مقدمے میں سزا سناکر نااہل کردیا جائے گا۔نوازشریف پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ عوام سازشیوں کو روند ڈالیں ۔چنانچہ سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی مسلم لیگ (ن)کے متوالوں کی بڑی تعداد سپریم کورٹ میں جمع ہو گئی اور پھر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سیاسی کارکنوں نے عدالت پر دھاوا بول دیا ۔جسٹس سجاد علی شاہ سمیت دیگر ججوں کو اپنے چیمبرز میں پناہ لینا پڑی۔جسٹس سجاد علی شاہ نے آرمی چیف سے براہ راست تحفظ کی درخواست کی مگر جنرل جہانگیر کرامت نے حکومت کے ذریعے رجوع کرنے کا مشورہ دیا ۔یکم دسمبر سے شروع ہونے والے مہینے کے لئے جسٹس سعیدالزماں صدیقی اور جسٹس سجاد علی شاہ نے الگ الگ کاز لسٹیں جاری کر دیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے 2دسمبر کو اپنا آخری تیر چلا دیا اورعدالت میں اپنی نشست پر بیٹھتے ہی کسی کو سنے بغیر 13ویں آئینی ترمیم کو معطل کردیا جس کے ذریعے صدر سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار واپس لے لیا گیا تھا۔جسٹس سعید الزماں صدیقی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے دس رُکنی بنچ نے جسٹس سجاد علی شاہ کے اس عبوری حکم کومنسوخ کردیا۔

حکومت صدر فاروق لغاری کا مواخذہ کرنے کی تیاریاں کر رہی تھی،اسکرپٹ کے مطابق کھیل ختم ہونے کے قریب تھا ،اسمبلیاںتحلیل کرنے کا اختیار بحال ہونے پر صدر فاروق لغاری نے 58(2)Bکے تحت نوازشریف کو رخصت کرنا تھا مگر آخری لمحات میںبازی پلٹ گئی۔ صدر فاروق لغاری نے ہار مان لی اور گھر جانے کا فیصلہ کرلیا تو جسٹس سجاد علی شاہ کو بھی شکست تسلیم کرنا پڑی ،قائم مقام صدر وسیم سجاد نے جسٹس اجمل میاں کو قائم مقام چیف جسٹس تعینات کردیا اور انہوں نے بطور قائم مقام چیف جسٹس حلف اٹھالیا۔سوال یہ ہے کہ آخری وقت میں بازی کیسے پلٹ گئی؟

جسٹس اجمل میاں اپنی سوانح حیات ’’A judge speaks out‘‘میں اس راز سے پردہ اُٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں ’’جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں تین رُکنی بنچ نے صدر کا جو اختیار بحال کیا تھا اس کے تحت کارروائی کرنے کے لئے سخت دبائو ڈالا گیا۔سپریم کور ٹ سے ایوان صدر بار بار رابطہ کرکے پوچھتا تھا کہ ایکشن لے لیا گیا یا نہیں؟بادی النظر میں آرمی چیف نے اس ایکشن کی تائید نہیں کی بلکہ آئی ایس آئی کے ایک کرنل نے 2دسمبر کی صبح جسٹس سجاد علی شاہ کے چیمبر کا چکر لگایا اور صدر فاروق لغاری نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا۔‘‘ جسٹس سجاد علی شاہ ،جو 1961ء میں ہائیکورٹ کے وکیل بنے ،نے ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکوٹر کے عہدے سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔1967ء میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تعینات ہوئے،بھٹو دور میں وزارتِ قانون کے جوائنٹ سیکریٹری کے طور پر کام کیا، ضیا الحق نے مارشل لا لگایا تو سجاد علی شاہ سپریم کورٹ کے رجسٹرا رتھے اور اسی دور میں ہائیکورٹ کے جج بنے ،1989ء میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے طور پر کام کیا،1990ء میں سپریم کورٹ کے جج بنائے گئے جبکہ 1994ء میں بینظیر بھٹو نے آئوٹ آف ٹرن چیف جسٹس تعینات کیا۔جب مولوی تمیزالدین نے دستور ساز اسمبلی تحلیل کئےجانے کے خلاف سندھ چیف کورٹ میں رٹ دائر کی تو جسٹس سجاد علی شاہ کے والد روشن علی شاہ وہاں رجسٹرار تھے۔جسٹس سجاد علی شاہ کا شمار نہایت قابل جج صاحبان میں ہوتا ہے مگر ان کے متعصبانہ مزاج ،ضد ،انا ،ہٹ دھرمی ،پانے کے خمار اور کھونے کے آزار نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا۔جسٹس افضل ظلہ کے بعد وہ دوسرے چیف جسٹس ہیں جنہیں رخصت ہوتے وقت الوداع کہنے کے لئے فل کورٹ ریفرنس نہیں دیا گیا۔

26برس بعد تاریخ خود کو دہرانے چلی تھی،حالات و واقعات میں حیرت انگیز مماثلت و مشابہت پائی جارہی تھی ،سوار اشہب دوراںاپنے گھوڑے کو ایڑ لگا چکے تھے مگر اب یہ عالم ہے کہ’’نے ہاتھ باگ پر ہے،نہ پا ہے رکاب میں‘‘۔تماشائی دم بخود ہیں کہ یہ کیا ماجرا ہوگیا۔جناب !جو رخش ِعدل کو مہمیز کیا کرتے ہیں ،انہوں نے ہی لگام تھام لی تو مسافر کیا کرے۔

تازہ ترین