ہفتے کی صبح تھی اور دہلی میں ہمارا آخری دن ۔ قادر گل کا ارادہ اُس روز بھی آرام فرمانےکا تھا، جب کہ ہماری خواہش تھی کہ جاتے جاتے حضرت خواجہ باقی باللہ کی درگاہ پہ حاضری دے دیں۔ گوگل میپ دیکھا، تو خواجہ صاحب کی درگاہ ہوٹل سے دس منٹ کی دُوری پر تھی۔ ہم فیض مصطفیٰ اور چچا منظور کے ساتھ ہوٹل سے باہر نکلے، آٹو رکشا لیا اور درگاہ کی جانب چل پڑے۔ رکشا پہاڑ گنج فلائی اوور کی بغلی سڑک سے گزر کر ریلوے لائن سے کچھ پہلے بائیں طرف کو مُڑ گیا۔
پرانی دلّی شاہ جہاں آباد کا ایک قدیم محلّہ ’’نبی کریم‘‘ تھا، جس میں بائیں ہاتھ ایک صدیوں پرانی عمارت نظر آئی، جو مٹیالے رنگ کی محراب دار غلام گردشوں اور مٹیالے ہی رنگ کےچار، پانچ مخروطی گنبدوں پر مشتمل تھی، جس کے اردگرد لوہے کی سلاخوں کا جنگلا لگا ہوا تھا۔ اس عمارت کی تصویر ہم انٹرنیٹ پہ رعنا صفوی کے دہلی شہر سے متعلق ہفتہ وار کالم میں دیکھ چُکے تھے۔ یہ کوئی پرانی امام بارگاہ تھی، جسے انگریز دَور میں وبائی امراض کےاسپتال میں تبدیل کردیا گیا، بعد میں اسپتال یہاں سے منتقل ہوگیا اور عمارت کھنڈر ہوتی چلی گئی۔
بعدازاں،2019 ء میں دہلی کے محکمۂ آثارِ قدیمہ نے اس کی مرمّت کروا کے بحال کردیا۔ امام بارگاہ سے آگے بازار میں ڈھول تاشے، شنکھ شہنائیاں اور باجے بجاتے ہندوؤں کا پوجا پاٹھ کا کوئی جلوس جا رہا تھا اور اُس کی وجہ سے پوری سڑک بلاک تھی۔ زرد کپڑوں میں ملبوس تِلک لگائے سیکڑوں ہندو اس جلوس کا حصّہ تھے۔ جلوس ایک بغلی گلی میں داخل ہوا، تو رکشا آگے بڑھا۔ اُسی محلے کے کسی گوشے میں بہادر شاہ ظفر کے استاد، شیخ ابراہیم ذوق کا بھی مزار ہے۔ ابراہیم ذوق کی اسد اللہ خان غالب سے شاعرانہ رقابت تھی اور آپس میں چشمک چلتی تھی۔ اپنا نام مقطع میں رکھ کر قلعۂ معلی کے ایک مشاعرے میں مرزا نوشہ نے استاد ابراہیم ذوق ہی کو طنز کا نشان بنایا تھا کہ ؎ بنا ہے شاہ کا مصاحب پِھرے ہے اِتراتا…وگرنہ، شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے۔
مسلمانوں کے عہدِ رفتہ کی یادگار، اس عجوبہ شہر، دہلی کے گلی کُوچوں میں کس کس طرح کے آفتابِ زماں لوگ خاک رسیدہ ہیں، سوچ کر ہی بندہ حیران رہ جاتا ہے۔ وقت کی کمی کے باعث استاد ابراہیم ذوق کے مزار کی تلاش اور اُس پر حاضری سے محروم رہ گئے، جس کا قلق اب بھی دل میں ہے۔ نبی کریم محلّے سے گزر کر رکشا عیدگاہ روڈ پر مُڑ گیا۔ عید گاہ روڈ پہ تھوڑی دُور جا کر بائیں ہاتھ حضرت خواجہ باقی باللہ کی درگاہ کا بلند دروازہ آگیا۔ اُس اونچے دروازے پر دونوں طرف دو چھوٹے چھوٹے مینار تھے۔ داخلی دروازے اور میناروں پہ سبز رنگ نمایاں تھا۔
اندر داخل ہوئے، تو بائیں ہاتھ ایک چھوٹا سامزار تھا، سنگِ مرمر کی ایک روش آگےخواجہ باقی باللہ کے مزار کی طرف جا رہی تھی، چاروں طرف سے اونچے مکانوں میں گِھرا یہ ایک چھوٹا سا قبرستان تھا۔ دائیں ہاتھ ایک چھوٹی سی مسجد،جب کہ بائیں ہاتھ ایک چھوٹے سے احاطے میں حضرت خواجہ باقی باللہ کی قبر تھی۔ احاطے کے داخلی دَر کے دونوں طرف دیوار میں سبز جالیاں نصب تھیں۔ قبر کے چاروں طرف چار منقّش ستونوں نے نقش و نگار سے مزیّن ایک چھت کو سنبھال رکھا تھا۔ چھت کے چاروں کونوں پہ چارچھوٹےسبز رنگ کے گاؤ دم مینار تھے۔
خواجہ باقی باللہ کابل میں پیدا ہوئے، شاہ جہاں کے دَور میں دین کی تبلیغ کے لیے دہلی آئے اور یہیں بس گئے۔وہ برّصغیر میں نقش بندی صوفی سلسلے کے بانی تصوّر کیے جاتے ہیں۔ حضرت شیخ احمد سرہندی مجدّدی معروف بہ شیخ مجدّد الف ثانی اُن کے مرید تھے۔ خواجہ باقی باللہ کے مزار پہ فاتحہ خوانی کی، پھر کچھ دیر بیٹھ کر عقیدت کی نظروں سے اُس عظیم صوفی بزرگ کے مرقدِ نور کی زیارت کرتے رہے۔ خواجہ باقی باللہ کے مزار پر حاضری کےبعد عیدگاہ روڈ پرآگئے، اب ارادہ چاندنی چوک بازار جاکر کچھ الوداعی شاپنگ کرنے کا تھا۔ نیز، دہلی کی میٹرو ٹرین پر بھی ابھی تک سفر نہیں کیا تھا، تو سوچا کہ قریبی میٹرو اسٹیشن سے میٹرو پہ بیٹھیں گے اور چاندنی چوک میٹرو اسٹیشن پہ جا اُتریں گے۔
آٹو رکشا روکا اوررکشے والے سے کہا کہ ’’بھیّا! ذرا قریبی میٹرو اسٹیشن پہ اتار دو۔‘‘ اُس نے اندرون اجمیری گیٹ، میٹرو اسٹیشن پہ اُتار دیا۔ پرانی دلّی، شاہ جہان آباد میں ساری میٹرو ٹرینز انڈر گراؤنڈ ہیں۔ جیسے لاہور کی اورنج ٹرین میں بیٹھ کر سفر کریں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ لاہور میں نہیں، کہیں بیرونِ مُلک سفر کر رہے ہیں، تو اِسی طرح دہلی کی میٹرو ٹرین میں بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے، جیسے کسی یورپی مُلک میں سفرکررہے ہوں۔بہت سی سیڑھیاں اُتر کر ٹکٹ کاؤنٹر تک پہنچے، یہاں سات، آٹھ ٹکٹ کاؤنٹرز تھے اور ہر ایک کےسامنے ٹکٹ خریدنے والوں کی لمبی قطاریں لگی تھیں۔ ہم ایک چھوٹی قطار میں جا لگے۔ پانچ منٹ بعد ٹکٹس ہمارے ہاتھ میں آئیں، تو ٹرین کی طرف چل دیئے، روزانہ سفر کرنے والوں نے کارڈز بنوا رکھے ہیں۔ ہم نے ٹوکن ڈالے اور ’’کُھل جا سِم سِم‘‘ کی طرح لوہے کے راڈز کُھلنے کے ساتھ ہی ٹرین کی طرف ہمارے جانے کا رستہ بھی کُھل گیا۔
پلیٹ فارم پہ پہنچ کے دو منٹ کے انتظار کے بعد میٹرو ٹرین آن پہنچی۔ چاندنی چوک اسٹیشن یہاں سے ایک اسٹیشن کے فاصلے پر ہے۔ سو، ہم پانچ منٹ میں وہاں پہنچ گئے۔ قلعہ معلیٰ کے سامنے چاندنی چوک کےمیٹرواسٹیشن سے سیڑھیاں چڑھ کر سڑک پر اُترے، تو بائیں ہاتھ کچھ فاصلے پر چاندنی چوک کا گیٹ تھا۔ ہماری منزل چاندنی چوک میں دھوبی واڑہ اور نئی سڑک تھی، جو ساڑیوں کی ہول سیل مارکیٹ ہے۔ خاتونِ خانہ اور گھر کی باقی خواتین کے لیے ساڑیاں تو خریدچُکے تھے، بس اب کچھ دوستوں کے واٹس ایپ پہ پیغامات موصول ہونے کے بعد اُن کے لیے خریداری کرنی تھی۔
حالاں کہ ہم نے اُنہیں بہت سمجھایا کہ ’’تم لوگ ساڑیاں پہن کر بالکل اچھے نہیں لگو گے۔‘‘مگر…خیر، چاچا منظور نے اپنے پوتوں کے لیے کچھ کپڑے خریدنے تھے، وہ بھی خریدے، ہم نے بھی اپنے بیٹے شاہ میر، بھانجے ناہل نور اور کئی ایک اور احباب کو تحفتاً دینے کے لیے کچھ شرٹس لیں اور سامان کے بوجھ تلے دَبے واپس ہوٹل پہنچے۔ سب لوگ چیک آوٹ کی تیاری میں تھے۔ ہم نے بھی سامان باندھا، چیک آؤٹ کر کے چابی کاؤنٹر پہ جمع کروائی، تو ہمارا پاسپورٹ(جو چیک اِن کے وقت بطور ضمانت رکھا گیاتھا)واپس ملا۔ گارڈ نے سامان بس میں رکھوانے میں ہماری مدد کی، تو ہم نے کچھ رقم جیب سے نکال کر اُس کے ہاتھ میں تھما دی۔ اُس کی چہرے پہ شُکر گزاری کی مسکراہٹ آگئی۔ اس نے دونوں ہاتھ باندھ کر مُسکراتے ہوئے ہمیں الوداع کہا اور ہم بس میں بیٹھ گئے۔ بس دہلی کی سڑکوں پہ رواں دواں تھی۔
پہاڑ گنج کا فلائی اوور آیا اور گزر گیا۔ پرانی دلّی، شاہ جہاں آباد کا اسٹیشن، دہلی جنکشن آن پہنچا۔ جہاں ہم پچھلے ہفتے اُترے تھے۔ اب دہلی جنکشن پہ دو، تین گھنٹے کا انتظار تھا اورہم ایک بارپھرپولیس کے’’نرغے‘‘میں تھے۔ مجھے واش رُوم جانے کی حاجت محسوس ہوئی، تو پولیس انسپکٹر سےواش رُوم جانے کی اجازت طلب کی۔ اس نے سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک سیکیوریٹی اہل کار کو ہمارے ساتھ وی آئی پی انتظار گاہ کے واش روم کی طرف بھیج دیا۔ وہ جس طرح سائےکی طرح ہمارےساتھ ساتھ تھا، ہمیں خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں ساتھ واش رُوم ہی میں نہ آجائے۔ خیر، بھلا ہو اُس کا کہ وہ واش روم کے دروازے کے باہر کھڑا ہوگیا اور مابدولت اندر جا گُھسے۔ باہر نکلے، تو اُسے اُسی مستعدی سے کھڑا پایا۔ اُس نے ہمیں واپس انسپکٹر کے پاس جا چھوڑا اور ہم اپنے سامان کےقریب بینچ پر بیٹھ گئے۔ فیض مصطفیٰ، قادر گل اور چاچا منظور سے خوش گپیوں میں وقت گزرنے کا پتاہی نہیں چلا اور گاڑی آگئی۔ سامان گھسیٹتے ہوئے اُس میں داخل ہوئے اور پھنس پھنسا کر ایک سیٹ پہ جا بیٹھے۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں ٹرین چل پڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے چُھک چُھک کرتی ریل گاڑی دہلی شہر کی گنجان آبادی سے گزرگئی۔
کچھ دیر بعد ہریانہ اسٹیٹ کا پہلا شہر، سونی پت آیا، جہاں ٹرین نے دو تین، منٹ کا پڑاؤ کیا۔ اُس کے بعد اگلا اسٹیشن، جس پہ ٹرین رُکی، وہ پانی پت جنکشن تھا۔ جی، وہی پانی پت، جس کے باسی مولانا الطاف حُسین حالی تھے، وہی پانی پت، جس کی لڑائیاں آپ اور ہم تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں۔ پانی پت کی پہلی لڑائی میں ظہیر الدّین بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر ہندوستان میں مغل اقتدار کی بنیاد رکھی تھی۔ پانی پت کی دوسری لڑائی میں اکبرِ اعظم اور بیرم خان نے ہندو راجا، ہیمو کو شکست دی تھی، جب کہ پانی پت کی تیسری لڑائی میں احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ اُسی پانی پت شہر میں مشہور صوفی بزرگ، بو علی قلندر کی آخری آرام گاہ بھی واقع ہے۔ حضرت شرف الدّین بو علی قلندر کا مزار مغل شہنشاہ جہاںگیر کے گورنر، مہابت خان نے تعمیر کروایا تھا۔
مہابت خان کی قبر بھی بو علی قلندر کے مزار کے احاطے ہی میں ہے۔ اسی احاطے میں شمس العلما، مولانا الطاف حُسین حالی بھی آسودہ ٔخاک ہیں۔ پانی پت کے بعد کرنال اور پھر ’’کُرک شیترا جنکشن‘‘ آیا۔ اُس مقام پہ گوروں اور پانڈوئوں کے درمیان ہندو اساطیر کا حصّہ، مشہور لڑائی ’’مہابھارت‘‘ لڑی گئی تھی اور کُرک شیترا گوروئوں اور پانڈوؤں کے درمیان لڑائی میں میدانِ جنگ بنا تھا۔ پھر انبالہ جنکشن آن پہنچا۔ انبالہ جنکشن پہ ایک بار پھر دادا جی چوہدری غلام رسول کے بچپن کے دوست، لالاجی سری رام مہتہ کی یاد آگئی۔
انبالہ سے ٹرین چندی گڑھ کی طرف مُڑی، اورپنجاب اور ہریانہ کے مشترکہ دارالحکومت، چندی گڑھ کی بلند و بالا عمارتوں کی روشنیاں دیکھتے دیکھتےچندی گڑھ جنکشن پہ جا رُکی۔ 1947ء میں جب ہندوستان تقسیم ہوا، تو پنجاب کی بھی تقسیم عمل میں آئی، چوں کہ پنجاب کا دارالحکومت، لاہور پاکستان کے حصّے میں آیا، تو مشرقی پنجاب کا عارضی دارالحکومت شملہ کو بنا دیا گیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اس نئے شہر کی بنیاد1950 ء میں مشرقی پنجاب کے نئے دارالحکومت کےطور پر رکھی تھی اور پھر 1953ء میں یہ باقاعدہ مشرقی پنجاب کا دارالحکومت بن گیا۔ چندی گڑھ کے بعد نواں شہر کا ریلوے اسٹیشن آیا، جب یہاں سے ٹرین چلی توہماری آنکھ لگ گئی اور تب کُھلی، جب فیض مصطفیٰ نے کندھا پکڑ کر ہلایا۔ دن کی روشنی ٹرین کی کھڑکیوں سے اندر آرہی تھی اور ہم لوگ امرتسر جنکشن پہ پہنچ چُکےتھے۔
امرتسر جنکشن پہ صبح سویرے سات بجے اُترے، تو سامنے ہریش صابری پٹواری اپنے پورے خاندان کے ساتھ وفد کے استقبال کے لیے موجود تھے، انھوں نےایک پُرتکلّف ناشتے کا بندوبست کر رکھا تھا۔ بہت عُمدہ قسم کی پوریاں، بھاجی اور چنوں کا سالن، سلاد اور اچار، رائتہ، خوش ذائقہ میٹھی لسّی وغیرہ وغیرہ کھا کر پیٹ ہی نہیں بَھرا، روح بھی شانت ہوگئی۔ اُس شخص کے پیار، محبت اور خلوص نے ہمیں تو اُس کا گرویدہ کردیا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر سب بسز میں بیٹھ گئے اور پنجاب پولیس کی گاڑیوں کا کانوائے ہوٹر بجاتے ہوئے وفد کی گاڑیوں کے آگے پیچھے محوِ سفر رہا، جب کہ ٹریفک کے اشاروں اور چوک چوراہوں پہ بھی پولیس نے شہر کی ٹریفک ہمارے قافلے کے گزرنے کے لیے روک رکھی تھی۔
امرتسر شہر، انڈیا گیٹ کی یادگار اور مہاراجا رنجیت سنگھ کا شمشیر بکف مجسمہ بھی پیچھے رہ گیا۔ صبح نو بجے کے قریب واپس اٹاری امیگریشن چیک پوسٹ پہ پہنچے، تو وہاں عثمان منظور کا ہنستا مُسکراتا چہرہ نظر آیا۔ یہ وجیہہ نوجوان، جو سراپا محبّت، مروّت اور خلوص ہے، پاکستان کے دہلی ہائی کمیشن میں بطور جونیئر افسر تعینات ہے۔ دہلی جاتے ہوئے اس کی ڈیوٹی ہمارے وفد کے پروٹوکول پہ تھی۔ سارا رستہ ہمارے آرام و آسائش کا خیال رکھا، نیز وقتاً فوقتاً حال احوال بھی دریافت کرتا رہا تھا۔ یوں راستے بھر اُس سے کافی گپ شپ رہی تھی۔
واپسی پہ وہ وفد کے ساتھ نظر نہیں آیا تھا، مگر اب اچانک امیگریشن چیک پوسٹ پہ نمودار ہوا، تو دل خُوش ہوگیا۔ اُس کے ساتھ معمولی سے کپڑوں میں ملبوس دو، تین نوجوان بھی نظر ائے، تو عثمان نے بتایا کہ اُس کی ڈیوٹی اُن تین پاکستانی قیدیوں کے ساتھ لگی ہے، جو امرتسر جیل میں قید تھے اور اب قید پوری ہونے پہ رہا کر دیئے گئے ہیں۔ ان کے ’’ایمرجینسی ٹریولنگ ڈاکومینٹس‘‘ ہائی کمیشن سے لے کر، اُنہیں جیل سے رہا کروا کے واہگہ بارڈر پہنچانا اُس کے ذمّے تھا۔ جتنی دیر ہم نے عثمان منظور سےسلام دُعا کی، اتنےمیں امیگریشن کاوئنٹر پہ رَش کم ہوگیا اور ہم کسٹم کلیئرنس اور امیگریشن کے معاملات طے کرنے میں لگ گئے۔کسٹم افسر کو جب اپنا تعارف کروایا کہ ہم لاہور کے اسپتال میں ڈاکٹر ہیں، تو وہ بہت خوش اخلاقی اور محبّت سے پیش آیا۔
امیگریشن کے معاملات طے کرتے کرتے اُس نے بتایا کہ اس کی بیٹی بھی ڈاکٹر ہے اور چندی گڑھ کے ایک اسپتال میں آئی اسپیشلسٹ ہے۔ امیگریشن سے فارغ ہوکر ہم بی ایس ایف کی بس میں بیٹھ گئے، جس نے اٹاری واہگہ بارڈر پہ اُتار دیا۔ شومئی قسمت کہ سامان کے لیے جو ٹرالی ہمارے حصّے میں آئی، اس کا ٹائر پھٹاہوا تھا، جس کی وجہ سے اُسے دھکیلنا مشکل ہوگیا، جب کہ بی ایس ایف والوں کی کوشش تھی کہ جلد از جلد قافلہ بارڈر کراس کر جائے، تو بی ایس ایف کے ایک جوان نے ہماری ٹرالی کو دھکّا لگایا۔ اٹاری گیٹ پر، پاسپورٹ پہ ایک لمبے تڑنگے جوان نے بھارت سے ایگزٹ کی مُہر لگائی، تو ہم نے اپنا سامان اُٹھایا اور ’’واہگہ گیٹ‘‘ کراس کر کے سرزمینِ پاکستان پر قدم رکھ دیا۔
گوکہ کئی دن کے مسلسل سفر کے باعث بدن تھکن سے ٹُوٹ رہا تھا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنے وطن واپس لوٹتے ہی گویا رُوح میں ایک تازگی سی سرایت کرگئی۔ ہم نے مُڑ کر اٹاری گیٹ پہ الوداعی نگاہ ڈالی اور پاکستان میں قائم واہگہ امیگریشن چیک پوسٹ کی طرف چل دیئے۔ (ختم شد)