آج ارادہ تھا کہ وصی حیدر زیدی سے بھی ملاقات کر ہی لیں کہ وہ بےچارے جب سے ہم واردِ دہلی ہوئے تھے، مسلسل رابطہ کرنے اور ملنے کی کوشش کررہے تھے، لیکن جب ہم ہوٹل سے نکل کھڑے ہوتے، تو موبائل فون کے سگنلز اور انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے رابطوں کے سارے بندھن ٹوٹ جاتے۔ پھر رات گئےجب ہوٹل واپسی ہوتی، تو واٹس ایپ پیغامات کے بوجھ تلے دَب کر ہلکان ہو رہا ہوتا۔ وصی حیدر، دہلی کے معروف داستان گو ہیں، جن کا اصل وطن مظفّر نگر ہے، مگر کئی برس سے دہلی میں مقیم ہیں۔ اُردو ادب سے بے حد لگاؤ کے سبب اُردو بازار کے نام سے دریا گنج میں ایک پبلی کیشن ہاؤس بنا رکھا ہے۔ ہم نے اُنہیں ہوٹل سے نکلتے ہوئے واٹس ایپ پہ کال کی، تو وقت ساڑھے تین بجے کا طے ہوا۔ انہوں نے کہا کہ حاجی کے چائے خانےپہ مٹیا محل آن پہنچیں گے۔ نہ ہم نے اُنہیں دیکھ رکھا تھا، نہ انہوں نے ہمیں، تو ہم نے واٹس ایپ پر اُنہیں اپنی تصویر بھیجی تاکہ ملاقات پر پہچان سکیں۔
بہرحال، مکتبۂ جامعہ حاضری کے بعد مٹیا محل میں حاجی کےچائےخانے پہنچ گئے۔ گھڑی تین سے ساڑھے تین پہ پہنچی، پھر پونے چار کی طرف عازمِ سفر ہوئی اور یوں چار بج گئے، مگر وصی زیدی کےآنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ ہمارے دوستوں نےاصرار کیا کہ اب چلتے ہیں، وہ نہیں آئیں گے، ہم نے چائے خانے کہ کاؤنٹر پہ اطلاع دی کہ اگر کوئی صاحب ہمارا پوچھتے آئیں، تو بتا دینا کہ ’’آپ کا کافی دیر انتظار کیا تھا، اب آگے بازار میں کسی ہوٹل سے کھانا کھانے چلے گئے ہیں۔‘‘ ہمارے ہری پور ہزارہ کے ایک دوست باسط دو دفعہ دلّی یاترا کر چُکے ہیں، انہوں نے تلقین کی تھی کہ مٹیا محل میں’’شاہی خیمہ‘‘نامی ہوٹل سے کھانا ضرور کھائیے گا، تو ہم لوگ شاہی خیمے کی تلاش میں نکل پڑے۔
تھوڑا ہی آگے بڑھے تھے کہ ہوٹل نظر آگیا، عُمدہ، صاف سُتھرا، چھوٹا سا ریسٹورنٹ تھا۔ ہم نے آخر میں چبوترا نُما فرشی نشست پہ قبضہ جما لیا۔ کڑاہی اور کباب آرڈر کیے۔ ایک بار دل میں آئی کہ کھانا آنے تک ایک بار پھر جا کر حاجی کے چائے خانے پہ پتا کر آتے ہیں کہ شاید وصی آن پہنچے ہوں۔ تو ہم شاہی خیمہ سے نکل کر دآئیں ہاتھ جامع مسجد کی طرف چل دیئے۔ کوئی بیس، پچیس قدم چلے ہوں گے کہ ہلکی سی داڑھی کے ساتھ ہنستے مُسکراتے چہرے والا ایک نوجوان آکر ہم سے بغل گیر ہوگیا۔ ’’آپ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا ہیں ناں…؟‘‘اُس نے استفسار کیا، تو ہم حیران کے دہلی کے گلی کُوچوں میں یہ کون شناسا نکل آیا، جو ہمیں یوں پہچان کے لپٹ گیا ہے۔ ’’جی…‘‘ہم نے جواب دیا، تو وہ بولا ’’مَیں وصی حیدر زیدی ہوں۔ حاجی کے ہوٹل پہ آپ کا پتا کیا، تو آپ وہاں سے نکل چُکے تھے۔ بہت پریشانی ہوئی، چائے خانے والے نے بتایا کہ آپ لوگ اِس طرف کھانا کھانے نکلے ہیں۔ دیکھیں، قسمت میں میل لکھا تھا، سو ملاقات ہو گئی۔‘‘
ہم وصی کو ساتھ لیے شاہی خیمہ لَوٹ آئے۔ کھانے کے ساتھ گپ شپ بھی چلتی رہی۔ شاہ جہاں آباد کے گلی کُوچوں سے متعلق وصی کی معلومات حیرت انگیز تھیں۔ وہ کہنے لگا کہ ’’آتے ہی آپ کی ملاقات مجھ سے ہو جاتی، تو پھر مَیں آپ کو دہلی گُھماتا پھراتا۔‘‘ اور ہم کفِ افسوس ملنے لگے کہ شروع ہی میں وصی حیدر سے ملاقات کی سبیل کیوں نہ نکالی۔ ابھی کھانے کا سلسلہ اختتام کو نہیں پہنچا تھا کہ وصی حیدر ہاتھ دھونے کے بہانے اُٹھے اور کھانے کا بِل ادا کر آئے۔ یہ بات اُن کی مہمان نوازی پہ دلالت کرتی تھی، گوکہ ہم لوگوں نے اِس پر بہت احتجاج کیا، مگر انہوں نے کہا کہ ’’آپ لوگ دہلی میں میرے مہمان ہیں۔ میرےہوتے ہوئےبِل ادا نہیں کر سکتے۔
اگر ملاقات کچھ دیر پہلے ہوجاتی، تو مَیں اپنی پسند کی جگہ سے آپ کو کھانا کھلاتا، تب آپ کو دہلی کے اصل چٹخارے کا پتا چلتا۔‘‘ کھانے سے فراغت کے بعد وصی حیدر سے الوداعی معانقہ کیا اور ایک ای رکشے (الیکٹرانک رکشا) میں بیٹھ کر بازار ’’بلی ماراں‘‘ کا رُخ کیا۔ بازار بلی ماراں سے گلی قاسم جان نکلتی ہے، اب ارادہ تھا، گلی قاسم جان میں مرزا اسداللہ خان غالب کی حویلی دیکھ لیں۔ پرانی دلّی کے گلیاروں میں آمدورفت کے لیےزیادہ تر چھوٹے ای رکشے یا سائیکل رکشے ہی استعمال ہوتے ہیں۔ الیکٹرک رکشے، آٹو رکشے سے سائز میں چھوٹے ہوتے ہیں، چار لوگ پھنس پھنسا کر بیٹھ سکتے ہیں اور اُن کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ رَش والی جگہ سے، آسانی سے کونوں کھدروں سے نکل جاتے ہیں۔ ہاں، اُن کی رفتار آٹو رکشےسے کم ہوتی ہے، مگر ماحول دوست ہیں۔ چاوڑی بازار سے گلی چرخی والاں نکل رہی تھی۔
رکشا اس گلی میں داخل ہوگیا۔ آگے جا کے گلیوں کی بھول بھلیّوں میں بازار تنگ ہوتا گیا۔ اُس گلی میں سامنے سے ایک چھوٹی ویگن چلی آئی، تو اب یہ حال تھا کہ ہمارا رکشا اور ویگن آمنے سامنے تھے اورگنجائش صرف اُن کے ٹکرانے کی بچی تھی۔ لیکن پھر کچھ ویگن پیچھے گئی اور کچھ رکشے والے کی پُھرتی اور مہارت کام آئی، یوں بالآخر رکشا ایک طرف سے پہلو بچا کے نکل ہی گیا۔ اور بلی ماراں بازار میں رکشے والے نے ہمیں جا اُتارا۔ ہمارے شولڈر بیگ کی زِپ ٹُوٹ گئی تھی، ایک بغلی گلی میں موچی کو ڈھونڈنے کے لیے داخل ہوئے، تو اُس گلی میں کبابیوں کی دُکانیں تھیں۔ خواجہ حسن نظامی نے ’’سیرِ دہلی‘‘میں ذکر کیا تھا کہ بلی ماراں کے قریب کچھ کبابیوں کی دُکانیں ہیں، جو صفائی ستھرائی کا خیال تو نہیں رکھتے، مگر کباب بہت لذیذ بناتے ہیں، تو ہمیں لگا کہ وہ کبابی، اِن کبابیوں کے آبا ؤ اجداد میں سے ہوں گے۔ گلی میں ایک میڈیکل اسٹور کے تھڑے پہ ایک موچی براجمان تھا۔
اُسے بیگ دکھایا، تو اس نے فوراً ہی بیگ کی زِپ لگا دی۔ پھر ہم ایک کبابیے کی دُکان میں جاگُھسے، جس کا نقشہ ہوبہو ویسا ہی تھا، جو خواجہ حسن نظامی نے اپنی کتاب میں کھینچ رکھا تھا۔ میز، کرسیاں تک میل کچیل کے بوجھ تلے دَبی بمشکل سانس لے رہی تھیں۔ البتہ، کباب لذیذ بہت تھے، تو اردگرد کے ناگفتہ بہ حالات کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم نے اپنی تمام تر توجّہ کبابوں ہی پہ مرکوز رکھی۔ کبابوں کی دعوتِ شیراز اُڑا کر ہم گلی قاسم جان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ بلی ماراں بازار میں جابجا چشموں کے فریمز،عدسوں کی ہول سیل دُکانیں ہیں اور انواع و اقسام کےجوتے بھی ہول سیل ریٹ پہ دست یاب ہیں۔ ہمیں ایک چشمے کا فریم پسند آیا، وہ خرید لیا، جوتے بھی خریدنا چاہ رہے تھے، مگر پاپوش اُس گلی میں اس دل ناداں کو کوئی خاص پسند نہ آیا۔
جوتوں کی کھڑکی والی خریداری یعنی وِنڈو شاپنگ میں گلی قاسم جان آپہنچی اور ہمارا قافلہ اس گلی میں مڑ گیا۔ بائیں ہاتھ گلی قاسم جان میں دو دُکانوں کے بیچ مرزا اسداللہ خاں غالب کی حویلی کی داخلی ڈیوڑھی تھی، جس میں آسمانی رنگ کی وردی پہنے چھوٹی سی داڑھی والا سیکیوریٹی گارڈ، افضل خان ایک کرسی پہ خُود براجمان تھا، تو دوسری پہ کھانا رکھے پیٹ پوجا کر رہا تھا، جب کہ بائیں ہاتھ اُس کی موٹر سائیکل پارک تھی۔ حویلی میں ہمارے داخلے نے اُس کے کھانے میں خلل ڈالا، جس پہ ہمیں افسوس ہوا۔ ڈیوڑھی میں دائیں ہاتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں بائیں دیوار پہ مرزا اسداللہ خان غالب کے چغے کا نمونہ فریم کر کے چسپاں کیا گیاہے، جب کہ سامنے کی دیوار کے ساتھ ایک اسٹینڈ پرمرزا نوشہ کا سنگی مجسمہ دھرا ہے اور اس کے دونوں طرف دیوانِ غالب کے دو قدیم قلمی نسخے سجے ہیں۔ اُس کمرے سے نکل کے ایک چھوٹے سے صحن میں داخل ہوئے، تو اُس کے بائیں ہاتھ تین درّوں والا ایک دالان تھا، اُس میں بھی مرزا نوشہ کے کچھ نوادرات محفوظ کیے گئے ہیں۔
ڈیڑھ، دو کنال کی حویلی میں سے یہ دو سے تین مرلہ جگہ، نوّے کی دہائی میں دہلی کی حکومت نے قبضہ مافیا سے واگزار کروا کے غالب میوزیم میں تبدیل کردی تھی۔ باقی کی حویلی پہ تاجروں نے قبضہ کرکے اُسے مال گودام میں تبدیل کردیا ہے۔ اب بھی اس میں گودام ہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کی مِڈل کلاس نے علم و ہنر سے ناتا توڑ کر حصولِ زر کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔ تو یہ مڈل کلاس اب چھوٹی چھوٹی دکانیں اور گودام بنا کر پیسا پیسا جوڑتی اور گنتی ہےاور باقی کی دنیا سے بے خبرحصولِ رزق میں صبح شام کرتی ہے۔
مرزا نوشہ کی حویلی کی زیارت سے فارغ ہو کر چاندنی چوک بازار جا نکلے، وہاں فتح پوری مسجد میں مغرب کی نماز ادا کی۔ مسجد کے وسطی تالاب کے پاس بیٹھ کر ہم جرابیں پہن رہے تھے کہ ایک نسوانی چیخ کی آواز سُنائی دی، جسے سُن کر دل دہل سا گیا۔ ایک خاتون اُس تالاب کے قریب کھڑی ہو کر چلّا رہی تھیں، ایک چھوٹے بچّے کو انہوں نے بغل میں دبا رکھا تھا۔ معلوم کرنے پہ پتا چلا کہ اُن کی تین سال کی بچّی کھیلتے کھیلتے تالاب میں گرگئی ہے۔ فوراً ہی ایک شخص نے تالاب میں چھلانگ لگا کر بچّی کو نکالا اور پھر ٹانگوں سےپکڑ کر کچھ دیر الٹا لٹکائے رکھا اس کےبعدپیٹ کے بل لٹا دیا۔ بہرحال، اس نیک دل شحص کی کوشش نے اپنا رنگ دکھایا اور بچّی نے آنکھیں کھول دیں۔ جب تک بچّی نے آنکھیں نہیں کھولی تھیں، ماں مسلسل آہ و فغاں کرتی رہی اور ہمارے چہرے پہ بھی گہری فکرمندی چھائی رہی۔ بچّی کے ہوش میں آتے ہی ہم لوگ مسجد سے نکل کر چاندنی چوک کے لیے چل نکلےاور آٹو رکشا پکڑا، جو کچھ گلیوں سے گزر کر چاوڑی بازار میں داخل ہوا۔
پھر قاضی کے حوض والے چوک سے گزرا، وہی حوضِ قاضی، جہاں تَھڑوں پہ سو کر میر تقی میر نے اپنی غریب الوطنی کی راتیں گزاریں، جس کا ذکر مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنے مضمون ’’دہلی کا ایک یادگار مشاعرہ‘‘ میں کیا۔ جہاں مبارک النسا بیگم کی حویلی، مولوی کریم الدّین نے کرائے پر لے کر مکتبہ بنا رکھاتھا۔ ہم نے وجدان کی آنکھ وا کی، تو شاعروں کی پالکیاں، اُس حوض کے اردگرد گھومتی نظر آئیں۔ یوں لگ رہا تھا، ابھی مرزا نوشہ نظر آئیں گے، ساتھ ہی کہیں سے مومن خان مومن، استاد ابراہیم ذوق کی سواری آن پہنچے گی۔ شہزادہ مرزا فخرو بغل میں غزلیں دابے اپنے شاہی پروٹوکول کے ساتھ آن وارد ہوں گے۔ سوچوں کے ہیر پھیر میں اجمیری دروازہ آ گیا۔
وہی اجمیری دروازہ، جس کے اندرون کبھی ہندوستان کے بہت بڑے صحافی ’’دیوان سنگھ مفتون‘‘ کے اخبار ’’ریاست‘‘ کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ اجمیری دروازے کے پاس کھڑے ہو کرہم نے بھی تصویریں بنوائیں۔ دروازے کے بالکل سامنے ’’اینگلو عربک سینیر سیکنڈری اسکول‘‘ کی عمارت نظر آئی۔ یہ دہلی شہر کا سب سے پرانا اسکول ہے، جسے اورنگ زیب عالم گیر کے دَورِ حکومت میں 1696ء میں غازی الدّین خان فیروز جنگ نے قائم کیا تھا۔ غازی الدّین خان فیروز جنگ، عالم گیری فوج کےدکن میں کمان دار اور قمرالدّین خان آصف جاہ اوّل کے والد تھے۔ قمرالدین خان آصف جاہ اوّل نےحیدر آباد دکن میں آصف جاہی سلطنت قائم کی اور حیدر آباد دکن کے پہلے نظام کہلائے۔ مولانا الطاف حُسین حالی اور شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد وغیرہ یہاں درس و تدریس کیا کرتے تھے۔ سر سیّد احمد خان، مولانا محمّد حُسین آزاد اس عظیم درس گاہ کے نمایاں طالب علم تھے۔
پرانی دلی کی بھول بھلیّوں میں سے ہوتا ہوا، آٹو رکشا پہاڑ گنج کی طرف چل دیا اور پہاڑ گنج کی ایک چھوٹی سی گلی میں گُھس کربریک لگا دی۔ ایک چھوٹا سا ٹین کا کھوکھا تھا، جس کے سامنے رکشا جا کر رک گیا تھا۔ رکشے والے کے ہارن دینے پہ ایک ہڈیوں کا ڈھانچا نُما شخص اُس کھوکھے سے برآمد ہوا۔ ’’بھیّا! کپڑے استری کر دیئے؟‘‘ رکشے والے نے پوچھا۔ ’’ایک منٹ دو، ابھی کر دیتا ہوں۔‘‘ اُس نے کھوکھے کے اندر گھس کر کوئلوں والی استری کھانستے کھانستے پھونکیں مارکے سلگائی اور دس منٹ لگا کر ایک پتلون، شرٹ استری کر کے رکشے والے کےحوالے کردی۔ پھر رکشا ڈرائیور نے دس روپے کانوٹ اُسےتھمایااور کپڑےپکڑ کر رکشے کے اسٹیرنگ کے سامنےچھوٹے سےڈیش بورڈ پہ رکھ دیئے۔ بوڑھے دھوبی نے کھانستے کھانستے ہمارا وقت ضایع ہونے پہ معذرت کی اور کھانسی کے دَورے سے سنبھل کر ہاتھ ہلاتے ہوئے الوداع بھی کہا۔ (جاری ہے)