• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’کب تک کرائے کے گھروں میں دھکے کھاتے رہو گے۔کوشش کرکے اپنا گھر بنالو۔اس سے بڑی کوئی راحت نہیں ۔‘‘’’تمہیں بے روزگار دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ ابھی تک نوکری کا بندوبست نہیں ہوا؟‘‘۔’’اللّٰہ صحت دے، تمہارے والد صاحب کی طرح ہمارے ابا کو بھی کینسر تشخیص ہوا تھا۔ ہر جگہ علاج کروایا مگر چند ماہ بعد ہی فوت ہو گئے۔ بہت خوفناک مرض ہے، کسی کو صحتیاب ہوتے نہیں دیکھا۔‘‘ ’’ماشااللّٰہ کتنی پیاری بیٹی ہے، ابھی تک شادی نہیں کی؟ اچھے رشتے کہاں ملتے ہیں، ہر گھر میں یہی مسئلہ ہے۔ لیکن زیادہ دیر نہ کرو، عمر نکل گئی تو بہت پچھتائو گے۔ جیسے تیسے اس کے ہاتھ پیلے کردو‘‘۔’’تم تو ہو ہی نکمے، کام چور اور بدتمیز۔ ان کے بچوں کو دیکھا ہے کتنے مہذب، ہونہار اور محنتی ہیں۔‘‘

بظاہرخلوص، ہمدردی اور پیار میں گندھے اس طرح کے جملے آپ نے اکثر سنے ہوں گے۔ اس طرح کی باتیں کرنے والے خیرخواہ طنز نہیں کررہے ہوتے، دراصل آپ سے متعلق متفکر ہوتے ہیں، آپ کی بہتری اور بھلائی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ شاید نیک نیتی کے تحت تشویش کا اظہار کرتے ہیں مگر یہ جملے تیر نیم کش کی طرح دل میں ترازو ہو جاتے ہیں۔ اُمیدوں کے چراغ بجھا کر مایوسی و ناامیدی کے اندھیروں میں اضافے کا سبب بنتے ہیں اور بنائو کے بجائے بگاڑ کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ مہنگائی کا وہ عالم ہے کہ سفید پوش گھرانےدو وقت کی روٹی پوری کرنے سے قاصر ہیں، گھروں کے کرائے اور بل کمر توڑ دیتے ہیں، اہل وعیال کی بنیادی ضروریات پوری کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ کولہو کے بیل کی طرح کام کرتے شخص سے بہتر کون جانتا ہے کہ اگر بچت کرکے کوئی چھوٹا سا گھر بنالیا جائے تو سکھ کا سانس لیا جاسکتا ہے لیکن بڑے شہروں میں سہانے مستقبل اور بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے خواب لے کر آنے والوں کیلئے اب اپنا گھر بنانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو چکا ہے۔ زندگی کی تلخیوں سے لڑ تے اور حالات کا حوصلے سے مقابلہ کرتے شخص کو جب کوئی اپنا اس محرومی کا احساس دلاتا ہے اور بتاتا ہے کہ تمہیں خوابوں کا اک جہاں آباد کرنا ہے، تو اس کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ سہانے کل کی فکر میں خوبصورت آج کے پل بھی برباد ہو جاتے ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہی جیسے آپ کسی کی محرومیوں کے زخم مسلسل کھرچ کر تازہ کرتے رہیں اور درد کی شدت کم نہ ہونے دیں۔ اگر آپ واقعی خیرخواہ ہیں تو بار بار اپنے گھر کی بات کرکے ان کے زخموں پر نمک پاشی سے اجتناب کریں۔

ہمارے ہاں سرکاری ملازمین کے علاوہ کوئی کسی بھی وقت بے روزگار ہو سکتا ہے۔ نوکری سے نکالا جا سکتا ہے، کاروبار میں نقصان کے امکانات موجود ہیں۔ ہمارے ہاں اگر کوئی شخص بے روزگاری کا شکار ہو جائے یا پھر مالی معاملات کے گرداب میں پھنس جائے تو والدین، بہن، بھائی، بیوی، دوست، احباب سب تاسف بھرے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ یہ سوال ہی پریشان حال شخص کے حوصلے پست کرنےکیلئے کافی ہوتاہے کہ کیا بنا؟ نوکری کا کوئی بندوبست ہوا؟ جلدی کچھ کرو نہیں تو بیوی بچے بھوکے مر جائیں گے۔ گویا وہ تو پرلے درجے کا احمق اور نادان ہے، اسے تو اس حقیقت کا قطعاً کوئی اِدراک نہیں۔ بعض اوقات ہمدردی کا اظہار کرنے کیلئے اس طرح کی باتیں کی جاتی ہیں جو جلتی پر تیل کا کام کرتی ہیں۔ اگر آپ کو وہ شخص عزیز ہے تو اس کیلئےعملاً کچھ کریں، اسے پھر سے کھڑا ہونے میں مدد فراہم کریں لیکن اگر تعاون نہیں کر سکتے تو کم ازکم اپنی ان مصنوعی اور سطحی باتوں سے اس کی پریشانیوں میں اضافہ تونہ کریں۔

اسی طرح خدانخواستہ کوئی شخص بیمار ہو جائے تو عیادت کیلئے آنے والے غم گسار اسے زندہ درگور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ایسی ایسی عبرتناک کہانیاں خوب مرچ مصالحہ لگا کر سنائیں گے کہ بستر علالت پر دراز شخص معمولی بیماری کو بھی مرض الموت تسلیم کرنے پر تیار ہو جائے گا۔ اگر آپ بیمار پرسی کیلئے آ ہی گئے ہیں تو اس شخص کا حوصلہ بڑھائیں، اسے بتائیں کہ تم بہت جلد ٹھیک ہو جائو گے۔ اگر اُمید کی کرن نہیں دکھا سکتے تو کچھ دیر کیلئے خاموشی اختیار کرلیں۔

بیٹیوں سے متعلق بھی ہمارے سماجی رویئے بہت عجیب وغریب ہیں۔ ابھی بچی کالج جانا شروع نہیں کرتی کہ اس کی ماں کو فکر پڑ جاتی ہے کہ اسے جہیز میں کیا کچھ دینا چاہئے۔ عزیز و اقارب کیوں کسی سے پیچھے رہیں، وہ بھی آتے جاتے یہ سوال کرنا نہیں بھولتے کہ کیا بنا، کہیں رشتے کی بات چلائی ہے۔ جیسے جنم دینے اور پرورش کرنے والوں سے کہیں زیادہ انہیں فکر ہے کہ کب ڈول کو ڈولی میں بٹھایا جائے گا۔ ارے او صاحب ! جانے بھی دیں۔ آپ کی ان باتوں سے بیچارے والدین کے تفکرات میں مزید اضافہ ہوگا اور وہ معاشرتی دبائو کے سبب کوئی غلط فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ آپ اپنی نصیحتیں اور مشورے اپنے پاس رکھیں۔

آخری اور پانچویں روایتی جملے کا تعلق بذات خود والدین سے ہے ۔بچوں کی تربیت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی خوبیوں کو اجاگر کریں، اگر کوئی وصف ان میں نہیں ہے تو بھی اس کا ذکر کریں تاکہ وہ اسے اپنی شخصیت کے لئے مستعار لے سکیں۔ مثلاً اگر آپ بار بار یہ کہیں گے کہ میری بیٹی یا میرا بیٹا جھوٹ نہیں بولتے تووہ سچ بولنے اور آپ کے اعتماد پر پورا اُترنے کی کوشش کریں گے لیکن اگر آپ صبح شام لعن طعن کرتے رہیں گے اور یہی بات دہراتے چلے جائیں گے کہ تم تو ہو ہی ایسے،تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا تو بچے بھی ہٹ دھرمی کو اپنا شعار بنالیں گے۔ دوسروں کے جن بچوں کی آپ تعریفیں کرتے نہیں تھکتے ،وہ بھی اپنے گھروں میں اسی طرح کی حرکتیں کرتے ہیں اور شاید ان کے ہاں آپ کے بچوں کو بطور نمونہ پیش کیا جاتا ہو۔ چنانچہ ان کھوکھلے، سطحی اور روایتی جملوں سے گریز کریں۔

تازہ ترین