• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس ملکِ بدنصیب میں جمہوریت کے عدم تسلسل نے آج یہ صورتحال پیدا کر دی ہے کہ کوئی بھی خودنمائی و خودستائی کا مارا شخص بائیس کروڑ عوام کے منتخب ادارے پارلیمنٹ کو چیلنج کر سکتا ہے، یہاں خاکیوں سے متعلق یہ سمجھا جاتا تھا کہ انہیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ عوامی امنگوں کے ترجمان ادارے اور اس کے قائد ایوان پر چڑھائی کر دیتے ہیں جبکہ آج نیا پہلو جلوہ گر ہوا ہے کہ آمرانہ ذہنیت کسی کا خاصا نہیں ہے۔

آج منتخب ایوان سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ’’ وہ وقت گیا جب منتخب وزیر اعظم کو بلی چڑھا یا جاتا تھا ،پارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا جو بھی آتا ہے وہ پارلیمینٹ پر حملہ آور ہو جاتا ہے ،جن کے اپنے بندوں میں اتفاق نہیں وہ ہمیں اتفاق رائے اور مذاکرات کا سبق پڑھا رہے ہیں، ہر کسی کا اپنا دائرہ کار ہے اپنی حدود میں رہو ہم پارلیمانی کارروائی کے منٹس دیں گے اور نہ وزیر اعظم کی قربانی بلکہ آپ نے جو ناقابل معافی گناہ کئے ہوئے ہیں ان کا جواب دیں۔‘‘اس کے برعکس دوسری طرف نہ صرف یہ کہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کو تسلیم کرنے اور اس کے خلاف جاری کردہ حکم امتناعی کو ختم کرنے سے انکار کر دیاگیا ہے بلکہ اس سلسلے میں فل کورٹ بنانے اورا سکینڈل کے حوالے سےمتنازع قرار پانے والے کو بنچ سے الگ کرنے کی استدعا بھی مسترد کر دی گئی ہے ،کیا پوری دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے کہ انصاف کی بڑی کرسی پر براجمان شخص یہ کہہ رہا ہو کہ وہ پارلیمینٹ کی بالادستی یا قانون سازی کی اتھارٹی کو نہیں مانتا !پارلیمنٹ کا تشکیل کردہ قانون یا ایکٹ آف پارلیمنٹ ابھی پراسس میں ہو اور وہ اس کے جنم لینے سے پہلے ہی اس پر حکم امتناعی جاری کر دے؟ واویلا یہ ہو کہ انصافی ادارے کے اختیارات چھینے جا رہے ہیں۔!

ہم غیر جانبدارانہ طور پر عدالتی اصلاحات کے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ءکا جائزہ لیتے ہیں تو کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں ملتا جس سے عدالتی اختیارات میں کمی کا تاثر بھی ابھرتا ہو، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عدالتی اختیارات جن کا استعمال فرد واحد اپنی من مانی سے کر رہا تھا انہیں ریگولیٹ کرتے ہوئے سینئر ججز کے ساتھ ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے تاکہ کوئی بھی قدم باہمی مشاورت سے اٹھایا جائے، کیا سینئر ججز کو او ایس ڈی بنا کر فرد واحد کی من مانیوں کا نام عدالتی اختیارات ہے ؟؟ جبکہ آئین واضح ہے کہ سپریم کورٹ کی یہ اتھارٹی ہے اورسپریم کورٹ سے مراد محض چیف جج نہیں بلکہ دیگر ججز بھی اس میں شامل ہیں ۔ آپ پارلیمنٹ سے کونسا ریکارڈ طلب فرما رہے ہیں وہ جس کی کارروائی کو آئینی تحفظ حاصل ہے جبکہ آئینی طور پر پارلیمنٹ کو قانون سازی کا جو حق حاصل ہے ،اسکے تحت وہ آپ کی تنخواہوں اور مراعات پر بھی نظر ثانی کر سکتی ہے ،پبلک اکائونٹس کمیٹی آڈیٹر جنرل کو بھی ہدایت جاری کر سکتی ہے اور پرنسپل اکائوٹنگ آفیسر کو تمامتر مالی معاملات میں بلا سکتی ہے اور عدم تعمیل پر وارنٹ گرفتار ی جاری کرسکتی ہے، یہ پوچھ سکتی ہے کہ ڈیم فنڈ کے سترہ ارب روپے کس حیثیت میں پڑے ہیں۔عوامی نمائندوں کو تو اس سے بڑھ کر جسٹس منیر کی کارستانیوں کے ریکارڈ سے شروع ہوتے ہوئے ارشاد ، انوار اور مشتاق کے ریکارڈ بھی منگوانے چاہئیں جو طاقتوروں کی آئین شکنیوں کو تحفظ دینے کیلئے اتاولے ہو گئے تھے ۔جس آئین کے کسی ایک لفظ یا قومے کو بدلنے کا اختیار پوری کی پوری سپریم جوڈیشری کو حاصل نہیں وہ کس حیثیت سے طالع آزمائوں کو یہ اتھارٹی تفویض کرتی رہی کہ آئین سے جو چاہو سلوک کرو۔

درویش اپنے منتخب نمائندوں کی خدمت میں استدعا کرتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی منوانے کے جو دعوے فرما رہے ہیں محض لفاظی کی بجائے عملی اقدام کریں۔ آپ لوگ دوسروں کو خود پر حملہ آور ہونے کے مواقع کیوں دیتے ہیں، جو طوفان آنا ہے آ جائے ۔ملک اس وقت جن بحرانوں سے گزر رہا ہے بالخصوص معاشی بربادی کی صورت میں اور آئی ایم ایف سے درپیش الجھنوں کی موجودگی میں کیا ملک کو یونہی غیر ذمہ دار لوگوں کے رحم و کرپرچھوڑدیا جائے؟ آپ لوگ حوصلے سے ٹھوس قدم اٹھائیں انصافیوں کی عوامی مقبولیت کے دعوے جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے، قیامت نہیں ٹوٹے گی بلکہ منصفانہ انتخابات سے پہلے ماضی کی تمام غلطیوں کاازالہ ممکن ہو گا۔

تازہ ترین