• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی ہلاکتوں کی تحقیقات کے لئے حکومتِ برطانیہ نے لارڈ ہنٹر کی زیرِصدارت ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا۔ اُس کے سامنے شہادتوں پر جرح کے ذریعے بڑے ہی دلخراش اور دَردناک حقائق منظرِعام پر آئے۔

(1) پولیس کوتوالوں کی ہر جگہ یہ پوری کوشش رہی کہ حالات کی سنگینی بیان کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیا جائے تاکہ پولیس کو زیادہ سے زیادہ ہنگامی اختیارات حاصل ہو جائیں اور وُہ فوج کی سنگینوں کے سائے تلے جسے چاہے پکڑے اور جسے چاہے بخش دے۔ یوں مارشل لا کے تحت پولیس کی رشوت ستانی اور بےتحاشا لُوٹ کھسوٹ کی بہت زیادہ شکایات سامنے آئیں۔

(2) امرتسر کے کوتوال کی یہ رپورٹ بھی کمیشن کے سامنے پیش کی گئی کہ پولیس تھانوں میں محصور ہو گئی ہے اور شہر فسادیوں کے قبضے میں چلا گیا ہے، حالانکہ جرح میں یہ بات ثابت ہوئی کہ ڈائر نے مطلق العنان حکومت کا چارج لینے کے فوراً بعد جب اپنے احکام کی اشاعت کا بندوبست کرنا چاہا، تو یہی کوتوال صاحب آدھی رات گئے شہر میں چھاپہ خانہ کھلوا کر اَور عملے کو جمع کر کے پوسٹر چھپوا لائے اور صاحب بہادر کی تحسین و آفرین کے مستحق قرار پائے۔

(3) یہ بنیادی سوال بھی زیرِبحث آیا کہ کمشنر اور ڈائر کو باہمی سمجھوتے کے ذریعے عام قانون اور آئین کو معطل کر دَینے اور ڈائر کو مطلق العنان اختیارات سنبھال لینے کا حق کیسے حاصل ہوا تھا۔ مارشل لا ایک خاص ضابطے اور مرکزی حکومت کی منظوری کے بغیر نافذ نہیں ہو سکتا تھا جبکہ ڈائر کسی مارشل لا یا کسی جائز قانون کے تحت ہدایات جاری نہیں کر رہا تھا بلکہ محض ’’ڈائر لا‘‘ کا ڈنڈا اِستعمال کر رہا تھا۔ بعدازاں یہ بھی ثابت ہوا کہ خاص قوانین کے ذریعے سرکاری ملازموں کی ہر غیرقانونی حرکت گرفت سے بالاتر قرار دَے دی گئی تھی۔

(4) جب ڈائر نے امرتسر کا چارج سنبھالا، تو اُس نے کوتوالِ شہر کو حکم دیا کہ فوج کی مدد لو اَور فساد کے سلسلے میں جس مجرم کی شناخت ہو جائے، اُسے پکڑ لو اَور فوجی عدالت کے سامنے پیش کرو۔

(5) یہ انسانیت دشمن حقیقت بھی بےنقاب ہوئی کہ ’’باغیوں‘‘ کا مورال ختم کرنے کی خاطر چوبیس گھنٹے کے لئے شہر میں پانی اور بجلی کی فراہمی معطل کر دی گئی تھی۔

(6) ایک پُراسرار شخص ہنس راج سابق ٹکٹ کلکٹر امرتسر کے ہنگاموں میں ایک عجیب و غریب کردار تھا۔ یہ شخص اُس ہجوم میں بھی شامل تھا جس نے بینک لُوٹے اور اَنگریز ملازم قتل کئے تھے۔ 12؍اپریل کو اُس جلسے کا صدر بھی یہی شخص تھا جو ایک پرائیویٹ اسکول میں رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج کا پروگرام طے کرنے کے لئے منعقد کیا گیا تھا۔ وہاں (پولیس کی رپورٹ کے مطابق) اُس نے یہ اعلان بھی کیا کہ کل جلیانوالہ باغ میں وہ عوام کے سامنے ڈاکٹر کچلو اَور ڈاکٹر ستیہ پال کی جانب سے موصول شدہ پیغامات پیش کرے گا۔ اِس اعلان کے باوجود وُہ گرفتار نہیں کیا گیا۔ 13؍اپریل کو جلیانوالہ باغ کے جس جلسے پر ڈائر نے گولیاں چلائیں، اُس کا منتظمِ اعلیٰ بھی یہی ہنس راج تھا اور جن لوگوں کو مس شروڈ پر حملے کی پاداش میں کوڑے لگائے گئے، اُس کی شناخت بھی پولیس کے گواہ کی حیثیت سے یہی شخص کرتا رہا۔ بعد میں اُسے دوسرے لیڈروں کے ہمراہ گرفتار بھی کر لیا گیا، لیکن مارشل لا ٹریبونل کے سامنے جب اُن لیڈروں کے مقدمات کی سماعت شروع ہوئی، تو ہنس راج سابق ٹکٹ کلکٹر سلطانی گواہ کے طور پر پیش ہوتا رہا۔

اپریل اور مئی میں لاہور مارشل لا کے مقدمات کا مرکز بنا رہا۔ ایک طرف لیڈروں پر بغاوت اور سازش کے مقدمات کی سماعت ہو رَہی تھی، جس میں پنجاب کی کئی تاریخی شخصیتیں شامل تھیں۔ دوسری طرف مارشل لا کی خلاف ورزیوں کے الزام میں ہر روز درجنوں شہریوں کو کوڑوں اور قید کی سزائیں سنائی جا رہی تھیں۔ مقامی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کرنل فرینک جانسن کی جانب سے ہر روز نت نئے نادر شاہی احکام جاری کئے جاتے۔ اُن احکام کی نقلیں عوامی جگہوں کے علاوہ مشتبہ قسم کے لوگوں کے مکانوں پر بھی چسپاں کر دی جاتی تھیں۔ مکان والوں کو حکم تھا کہ وہ اِن کی حفاظت کے پابند ہیں، ورنہ مارشل لا میں دھرلئے جائیں گے۔ راجہ غضنفر علی خاں چند روز بعد بی اے کا امتحان دینے والے تھے۔ اُن کے مستقبل سے متعلق افسرانِ بالا یہ وعدہ کر چکے تھے کہ بی اے پاس کرنے کے بعد اُنہیں ای اے سی نامزد کر دیا جائے گا۔ ایک دن راجہ نے مارشل لا کا ایک حکم نامہ پڑھا اور ایک لمحے کے لئے اُن کے ہوش و حواس معطل ہو گئے۔ اعلان میں تقریباً پچاس طالبِ علموں کے نام درج تھے جو مارشل لا کے تحت یونیورسٹی سے خارج کر دیے گئے تھے اور اُن کا نام سرِفہرست تھا۔ اُسی روز اُن کی زندگی کا راستہ بدل گیا۔

ہنٹر کمیشن کے عجیب و غریب ضابطہ کار کے مطابق شہادت پیش کرنے کا حق صرف حکومت کو حاصل تھا۔ سرکاری افسر پہلے اپنا تحریری بیان بھیج دیتے اور بعد میں جرح کے لئے پیش ہوتے۔ سیاسی جماعتوں، وکلا کی انجمنوں اور اَخبارات کے شور مچانے پر پنجاب کے شہریوں کو صرف ایک نمائندے کے ذریعے اپنی شہادت قلمبند کرانے کا موقع دیا گیا۔ یہ نمائندہ میاں فضل حسین تھے اور سرکاری افسروں پر جرح کی غرض سے وکیلوں کی ایک مرکزی کمیٹی نے بڑی محنت سے مختلف ضلعوں سے مواد جمع کر لیا تھا۔ اُس کمیٹی کا دفتر اُس زمانے میں صنعت کاری کے بادشاہ لالہ ہرکشن لال کی کوٹھی میں قائم تھا۔ یہ کوٹھی اب فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی صورت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہیں جرح کا وہ گولہ بارود تیار ہوتا تھا جس سے مسلح ہو کر پنڈت جگت نرائن سرکاری گواہوں پر تابڑتوڑ جرح کرتے تھے۔ اِس سلسلے میں پنجاب کے شہریوں کا مقدمہ لڑنے کے لئے تمام اخراجات اُسی شخص نے اٹھائے تھے۔ وہ خود مارشل لا کا قیدی رہا اور مارشل لا ٹریبونل سے پھانسی کی سزا پانے کے بعد عام معافی کے تحت رہا ہوا تھا۔ اُس وقت انگریزوں کی درندگی کا مقابلہ کرنے کےلئے ہندو اَور مسلمان پوری طرح متحد تھے جبکہ تحریکِ خلافت نے اِس اتحاد کو دوآتشہ کر دیا تھا۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین