• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی مالیاتی نظام جارحانہ تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ دنیا بھر کے مالیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ ڈالر گراوٹ کا شکار ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ کرنسیاں بھی پنپ رہی ہیںجو اس کی جگہ لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ ڈالر کے غلبے نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں کا تسلط قائم کیا۔ مختلف براعظموں میں معیشت کو ڈی ڈالرائز کرنے کیلئے بیک وقت اقدامات کئے جا رہے ہیں اور اس کے پوری دنیا کے سیاسی اور مالیاتی منظر نامے پر دور رس اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ڈالر غالب آیا۔ بریٹن ووڈز کانفرنس نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی بنیاد رکھی۔ ان مالیاتی اداروں کے ذریعے مغربی طاقتوں بالخصوص امریکہ نے تیسری دنیا کے ممالک کو کنٹرول میں رکھا ۔ یہ نظام امریکی تنظیموں نے اس طرح ترتیب دیا تھا کہ تیسری دنیا کے ممالک مغربی طاقتوں کے فراہم کردہ فنڈز کے محتاج رہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا سرفہرست اسپانسر امریکہ ہے، یہ واشنگٹن کا طے کردہ ایجنڈا ہے جس پر یہ تنظیمیں عمل پیرا ہیں۔ بارہا، دنیا بھر کی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں نے IMF میں عالمی معیشتوں کی شمولیت اور مساوی مواقع کی نمائندگی کی ضرورت پر زور دیا لیکن اس کا اثرکبھی نظر نہیں آیا۔ مغربی اقوام زیادہ تر سرمایہ دارانہ نوعیت کی ہیں اسی لئے یہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسی ہے کہ وہ سرمایہ داری اور اس کے مفادات کا تحفظ کریں۔

چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے عالمی سطح پر سرمایہ داری کا غلبہ ہے۔ سوویت یونین کے زوال کو سوشلزم کیلئے ایک دھچکا سمجھا جاتا ہے۔ سرمایہ داری کیلئے سوشلزم کو بھینٹ چڑھایا گیا۔ یہاں تک کہ ویتنام اور چین جیسے ممالک نے بھی نجی ملکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کی تحریکیں شروع کیں جو جمہوریت کے کنٹرول سے چلتی ہیں۔ اسے نیو ورلڈ آرڈر کا نام دیا گیا۔ منافع اور عالمی تسلط کا ایک نظام مارکیٹ کی قوتوں پر مبنی تھا ان مارکیٹ فورسز کو عالمی سطح پر IMF اور ورلڈ بینک کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا تھا۔ دنیا کو کنٹرول کرنے اور اتحادیوں کو فنڈز فراہم کرنے کیلئے یہ ایک بہترین پھندہ تھا ۔ آج بھی ایسا ہی ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے یوکرین کو روسی افواج سے لڑنے کیلئے 17بلین ڈالر زسے زیادہ کی پیشکش کی ۔ جبکہ دوسری طرف لبنان، سری لنکا اور پاکستان جیسی قوموں کو بیل آؤٹ پیکیجز کیلئے سخت شرائط اور انتظامی نقصان دہ تبدیلیوں کیلئے مجبور کیا۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو مغربی طاقتیں جیو پولیٹکل ایجنڈوں کیلئےاستعمال کرتی رہی ہیں۔ سازگار لیڈروں اور حکومتوں کو کریڈٹ لائنز، بیل آؤٹ پیکیجز اور پروجیکٹس کی فنڈنگ ملتی ہے ،جو اس پر عمل نہیں کرتے انہیں پابندیاں مل جاتی ہیں۔ درجنوں مثالیںموجود ہیں۔ افریقہ، جنوبی امریکہ یہاں تک کہ ایشیا میں، جو ممالک اپنی خارجہ پالیسی واشنگٹن کے مطابق ترتیب دیتے ہیں، انہیں آئی ایم ایف سے ریلیف ملتا ہے۔ جو ممالک نا پسندیدہ ہیں ان پر پابندیاں لگائی جاتی اور انہیں نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ غریب ممالک کی ترقی میں مدد کرنے کی بجائے امریکہ نے غریب ممالک کو آئی ایم ایف کے قرضوں اور کریڈٹ لائنوںمیں جکڑ لیا۔

چین کی ترقی دنیا کی معاشیات میں ایک منفرد کیس اسٹڈی ہے۔ کمیونزم اور سوشلزم پر قائم ایک ملک سرمایہ دارانہ وسیع عالمی نظام کے ہوتے ہوئے سب سے بڑی معاشی طاقت بن گیا ہے۔ چینی ماڈل نہ تو سوشلسٹ ہے اور نہ ہی سرمایہ دارانہ بلکہ دونوں کا خوبصورت امتزاج ہے۔ چینی نظام نے کروڑوں افرادکو غربت سے نکالا آج ہرچینی خاندان کی اوسط گھریلو آمدنی تیرہ ہزار ڈالر ماہانہ سے زیادہ ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت بنیادی طور پر جمہوریت پر انحصار کرتی ہے جو حکومت کرنے والے کثیر الجماعتی نظام میں اکثریت کی مرضی کی مرہونِ منت ہے لیکن چین ایک واحد جماعتی ملک ہے جو قابل، وفادار، بہادر اور قوم پرست رہنما پیدا کرتا رہاہے۔چینی ماڈل بالکل نیا اور عالمی معیشت کو بدل رہا ہے۔ ڈالر کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی حمایت حاصل ہے جوتیزی سے زوال پذیر ہے۔برازیل اورارجنٹائن، جنوبی امریکہ کی دو بڑی معیشتیں پہلے ہی غیر ڈالر کرنسیوں میں تجارت کر رہی ہیں۔ چین، بھارت، روس اور جنوبی افریقہ ڈالر کے متبادل کے طور پر اپنی اپنی کرنسی شروع کر رہے ہیں۔ 2022میں عالمی مالیاتی ذخائر کا 58فیصد ڈالر میں تھا جو چینی یوآن کے اجرا کے ساتھ تبدیل ہونے والا ہے۔ ایشین مانیٹری فنڈ پہلے ہی آئی ایم ایف کے متبادل کے طور پر حرکت میںآچکا ہے۔

برکس اور ون بیلٹ روڈ منصوبے کی مغربی دنیا میں کوئی برابری نہیں ہے، بہت سے یورپی ممالک چین کے ساتھ تجارت اور تجارتی توسیعی منصوبوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔پاکستان ایک جیو اسٹرٹیجک ملک ہے۔ یہ مواقع اور صلاحیتوں سے مالا مال ہے ، عالمی مالیاتی نظام کی تبدیلی کے اس عمل میںضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کی توجہ اندرونی مسائل پر مرکوز ہو۔ چین کی توسیع اور ڈی ڈالرائزیشن سے پاکستان کو بہت زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے اگر ڈالر کی قدر اس وقت کم ہو جاتی ہے جب یہ تیل کی بنیادی کرنسی نہیں ہے تو پاکستان کے قرضوں کا تناسب بہت گر ئیگا۔ وقت آ گیا ہے کہ عالمی مالیاتی اوور ہالنگ کی لہر پر سوار ہونے کیلئے تمام توانائیوں کو جمع کر کے چینلائز کیا جائے۔

(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین