علاقائی امن واستحکام، ترقی، خوشحالی، باہمی تجارت بڑھانے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے خطے کے پڑوسی ممالک میں باہمی تعاون انتہائی ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز اسلام آباد میں پاکستان چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کی سہ فریقی کانفرنس میں ان اہم امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا جس کا اظہار ایک مشترکہ اعلامیہ کی صورت میں سامنےا ٓیا ہے۔ کانفرنس میں شرکت کے علاوہ وزرائے خارجہ نے آپس میں الگ الگ ملاقاتیں بھی کیں اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مہمان وزرائے خارجہ نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقاتیں کیں جن میں خطے کی سلامتی اور دہشت گردی سے نمٹنے سمیت اہم مسائل و معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ چین نے دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر زور دیا کہ تنازعہ کشمیر پاکستان اور بھارت میں تصفیہ طلب ہے جسے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہئے۔ پاکستان نے ون چائنا پالیسی کی حمایت کا اعادہ کیا جبکہ دونوں ملکوں نے اسٹرٹیجک تعلقات مزید مضبوط بنانے کے عزم کو دہرایا۔ پاکستان چین اور افغانستان کا شمار اہم ترین علاقائی ممالک میں ہوتا ہے جن میں وقوع پزیر ہونے والے واقعات پورے خطے پر اثرانداز ہوتے ہیں اس لئے سہ فریقی کانفرنس اور پاکستان کے آرمی چیف سے مہمان وزراء کی ملاقاتیں دوررس اہمیت کی حامل ہیں۔ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز اور سہ فریقی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ سے مترشح ہوتا ہے کہ فریقین نے کثیر الجہتی معاملات پر سنجیدہ بات چیت کی اور آپس میں تعاون بڑھانے کے لئے کئی اقدامات بروئے کار لانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ ان میں علاقائی سلامتی کے علاوہ بیلٹ اینڈ روڈ (اقتصادی راہداری) منصوبے میں افغانستان کی شمولیت ، تجارت میں اضافہ، دہشت گردی کا قلع قمع ، پاک چین اسٹرٹیجک تعلقات کو مزید بڑھانے اور پرامن افغانستان کی حمایت جیسے معاملات بھی شامل ہیں۔ آرمی چیف سے چینی وزیر خارجہ کی ملاقات میں مشترکہ سیکورٹی چیلنجوں کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لئے دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون مزید بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ افغان وزیر خارجہ سے علاقائی سلامتی، بارڈر مینجمنٹ اور سیکورٹی کے موجودہ ماحول میں بہتری کے لئے دو طرفہ میکانزم کو باقاعدہ بنانے کے مختلف پہلوؤں پر تبادلہ خیال ہوا۔ افغانستان اس وقت متعدد علاقائی دہشت گرد گروہوں کا اڈہ ہے جن سے پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ افغان وزیر خارجہ نے اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس حوالے سے تینوں ملکوں میں تعاون مزید مستحکم کرنے اور باہمی رابطے مضبوط بنانے کا اعادہ کیا گیا۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے افغان سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی اور اسمگلنگ کی روک تھام، ملک کی معاشی ابتری سے نمٹنے اور سلامتی کے تحفظ جیسے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں اس سلسلے میں سہ فریقی کانفرنس میں ہونے والی بات چیت امید افزا رہی ہے اور توقع ہے کہ آگے چل کر اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ چین سے پاکستان کی دوستی سدا بہار ہے۔ چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ہر طرح سے ساتھ دیا ہے۔ افغانستان ہمسایہ اسلامی ملک ہے مگر اس کے ساتھ تعلقات ہمیشہ مشکلات کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان نے طالبان حکومت کے حق میں عالمی برادری کو ہموار کرنے کی شروع ہی سے کوششیں کیں جس کا کابل اقرار تو کرتا ہے مگر سرحدی معاملات، خاص طور پر دہشت گردوں کو پناہ دینے اور ان کی پاکستان میں کارروائیاں روکنے کے حوالے سے اس کا طرز عمل محل نظر ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ اسلام آباد کانفرنس کے نتیجے میں وہ دہشت گردوں کو روکے گا اور باہمی تجارت میں پیش آنے والے مسائل بھی حل کرنے پر بھرپور توجہ دے گا۔