• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاری ملکی معاشی وسیاسی اور آئینی و انتظامی بحران خود ہمارے لئے تو بد سے بدتر ہے ہی لیکن دنیا بھر میں خصوصاً ترقی پذیر ممالک کیلئے ریاستی امن و استحکام کے اہداف کا یقینی حصول کا سبق بن گیا ہے کہ پاکستان23 کروڑ آبادی کی ایٹمی طاقت ہے۔ سبق یہ ہے کہ جس طرح ہم حکومتیں چلاتے ہیں اس کے بالکل برعکس راہ اختیار کی جائے۔ ہم عشروں سے عالمی اور علاقائی سیاست کے سرگرم کھلاڑی رہے ہیں اور دنیا اب بھی موجود عالمی حالات حاضرہ میں پاکستان کو ایک بہت اہم ملک کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ پاکستان کی اس حیثیت و اہمیت سے اگر کوئی مکمل غافل ہے تو وہ ہم خود ہیں۔ ہماری بڑی پیچیدگی یہ ہے کہ موجود گمبھیر ملکی صورتحال کا واضح اور مکمل قابل عمل ہی نہیں بلکہ آئین اور جاری صورتحال کے عین مطابق متفقہ حل موجود ہونے کے باوجود زیادہ سے زیادہ ایک ملین آبادی پر مشتمل طاقت ور، بااختیار و بااثر اور جائز و ناجائز دولتمند طبقہ جو ایک طاقتور سیاسی نظام (اولی گارکی) کی صورت میں ملک کے تمام وسائل اختیارات اور مواقع پر قابض ہے۔ یہ حل ’’موجود رسماً نافذ العمل متفقہ آئین کا مکمل اطلاق اور اس کی چھتری میں تمام ملکی شہریوں پر قانون کا یکساں نفاذ‘‘۔ مسئلہ اور پیچیدگی اور عشرہ بہ عشرہ مختلف النواع کے بحران در بحران کی کیفیت کی جڑ ہے۔ اس کی عملی شکل اطلاق آئین کے بڑے حصے سے انحراف اور تمام شہریوں پر قانون کے یکساں نفاذ سے مسلسل اور بڑھتا گریز ہے۔ یہ اب مکمل ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اس بڑے بنیادی اور قومی سطح کے بگاڑ اور کھلواڑ کے ذمے دار عوام تو ہر گز نہیں صرف اور صرف ریاستی ادارے ہیں جن کے دائرہ کار اور اختیارات کی حدود کا تعین متفقہ ملکی دستور کرتا ہے لیکن اتنے قابل قدر آئین کی خلاف ورزیاں اور اس کے ایک حصے کو جامد اور اس کا عدم اطلاق اس حکومت نے کیا جو آئین سازی کو اپنا سیاسی کارنامہ قرار دیتے نہیں تھکتی لیکن اس کےاپنے چاروں ادوار میں آئینی خلاف ورزیوں کا درجہ بڑھتا ہیگیا۔تاہم پہلے دور میں پی پی حکومت (77-1972)میں جس طرح فسطائیت مچائی گئی وہ اگلے تین ادوار میں تو نہ ہوئی تاہم کرپشن اور بیڈ گورننس کی صورت میں آئین سے کھلواڑ پی پی نے اپنے ہر دور میں کیا۔ جیسے کراچی میں مرضی کی مردم شماری اور حلقہ بندی سے شہر قائد فتح کرنے کے حربے سب سے بڑی مثال تو پہلا ہی دور تھا جس کا شاخسانہ مارشل لا کا نفاذ (1977) اور اس کے نتیجے میں آج عوامی بن گئی سیاسی جماعت ن لیگ کا جنم ہوا۔ لیکن رنگ ہیں زمانے کے اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ن لیگ آج پیپلز پارٹی کی اور پی پی اس کی ہمرکاب ہو کر مولانا صاحب کی غیر پارلیمانی رہبری میں اتحادی حکومت سے وہ طوفان فسطائیت مچا رہی ہیں کہ پی پی کے پہلے دور کی یاد تازہ ہوگئی۔ ارتقا بس اتنا کہ اتحاد کی آڑ میں یہ کارخمار ن لیگی حکومتی قیادت کے سپرد جو آئین پاکستان سے نپٹ رہی ہے۔سخت متنازعہ آئین کا حلیہ پارلیمانی قرار دادوں سے بگاڑتی شہباز حکومت نے ایک ہی سال میں ہارس ٹریڈنگ کی متروک اور سیاہ روایت کو بحال کیا مکمل متنازعہ حکومت بنائی اور بنا کر تادم جو کچھ کیا گیا اور کیا جا رہا ہے اسے ایک فقرے میں بیان کیا جائے تو یہ ہے کہ ’’ اپنی غیر آئینی اور غیر سیاسی ذاتی خاندانی اور گروہی اغراض کے لئے اپوزیشن اور عوام کو کچل کر آئین کو تقریباً لپیٹ کر روندا جا رہا ہے۔ کوئی سبق نہ سیکھا تو اور اب سپریم کورٹ پر پے در پے حملے پھر ایک بڑا غیر آئینی سے کیا ڈیزاسٹر ہر دو، پی پی اور ن لیگ کے ادھورے آئینی ادوار سے ملک چلاتے رہے تو ایک اور مارشل لا کاسبب بنے اور اب تو لٹیا ہی ڈبو دی ہے۔آئینی بحرانوں کے اس پس منظر میں بدتر اور ملکی معیشت کو نابود کر دینے والے اقتصادی بحران میں پھنسے ملک کو بحران سے عملاً نکالنے کے لئے گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ میں بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام جسٹس کارنیلس سیمینار سے چیف جسٹس پاکستان جناب عطابندیال نے خطاب کرتے آئین اور اس کے تحت تحلیل شدہ صوبائی اسمبلی کے انتخاب سے فرار اختیار کرتی اتحادی حکومت اور پوری قوم کو یقینی حل کے طور پر آئینہ حق دکھایا ہے۔ حل کوئی اچھوتا نہیں کوئی احتراعی نہیں، نہ مذاکراتی ، نہ جسٹس صاحب کا اپنا اور نہ سپریم کورٹ نے نکالا لیکن عین آئینی، اٹل اور حتمی ہے یہ کہ آئینی ذمے داری پوری کرنے عدالت عظمیٰ کے جج صاحب نے 90 روز میں انتخاب کرانے کی آئینی لازمے کے مطابق انتخاب میں جانے کا فیصلہ تو نہیں سنایا۔ ان کی یہ ہی رہنمائی اور علمی اور پیشہ ورانہ رہنمائی کو سپریم کورٹ کے زیر سماعت کیس کے فیصلے میں ڈھالنا، عدالت عظمیٰ کا آئینی فریضہ اور تقاضا ہوگا۔ ملک کو ابتری اور گھر گھر و فرد فرد کو اضطراب سے نکالنے ملک کو آئین کے مطابق سنبھالنے اور چلانے کا یہ ہی آئینہ حق اتحادی جماعتوں میں شامل نامور آئینی و قانونی ماہرین مسلسل اور چیخ چیخ کر انتہائی انداز دکھا رہے ہیں۔ یہ بھی نہ بھولا جائے کہ شہباز حکومت سپریم کورٹ اور اس کےاسی بنچ کے فیصلے میں ہارس ٹریڈنگ جیسی قباحت کے باوجودقائم ہوئی 13 جماعتی اتحاد، اپنے دوام کے لئے آئین و عدالت سےجس فساد میں مبتلا ہے اس سے بدترین سیاسی و معاشی استحکام پیدا ہوا اور ہو کر بڑھتا جا رہا ہے۔ چلو عمران خان کی نہ سنو، عوام سے دور ہو تو دور ہی رہو، بیرسٹر اعتزاز احسن اور بیرسٹر لطیف کھوسہ بولیں تو کان بند کرلو لیکن ہمارے متفقہ سدا بہار سچے پکے دوست ہر اچھے برے وقت کے ساتھی و حامی چینی صدر جناب شی پنگ اور وزیر خارجہ سعودی سفیر کا برادرانہ مشورہ ہی مان لو۔ جو فرماتے ہیں:’’بحران سے نکلنے کیلئے مل کر استحکام پیدا کریں‘‘ عقلمند راہ اشارہ کافی است۔ علاقائی تعاون اور CONNECTIVITY کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے پاکستان کو بذریعہ آئین بحران سے نکالو کہ سی پیک کی افغانستان تک توسیع کے لئے گزشتہ روز اسلام آباد میں تینوں برادر ملکوں کے وزرا خارجہ کی ملاقات کے فالو اپ میں ہوئی پیش رفت پاکستان کی موجودہ صورتحال میں امید کی کرن ہی نہیں یقینی راہ ہے لیکن اس کے لئے پاکستان کو مستحکم کرنے کی راہ بذریعہ آئین و انتخاب اٹل اور حتمی ہے۔

تازہ ترین