چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی گرفتاری قانونی یا غیر قانونی ہونے کا تعین کرنے سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی گرفتاری پر نوٹس لیا تھا، انہوں نے 15 منٹ کی دی گئی مہلت کے بعد سماعت کی تو آئی جی اسلام آباد اور ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے تاہم سیکریٹری داخلہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے سیکریٹری داخلہ کی عدم حاضری پر اظہارِ برہمی کیا اور آئی جی اسلام آباد سے کہا کہ آئی جی صاحب! آگے آئیں اور بتائیں کہ کیا ہوا ہے؟
عمران کو کیوں گرفتار کیا؟ IG نے عدالت کو بتا دیا
آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ نیب نے وارنٹ جاری کیے تھے، عمران خان کو کرپشن کے الزامات پر گرفتار کیا گیا ہے۔
آئی جی اسلام آباد نے وارنٹ کی کاپی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کر دی اور بتایا کہ نیب کو جس فورس کی ضرورت ہو وہ اس سے مدد لیتی ہے۔
بیرسٹر گوہر روسٹرم پر آ گئے اور واقعات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ وکلاء کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہماری وکالت تو بالکل ختم ہو گئی ہے، عمران خان وہیل چیئر پر تھے، رینجرز والے انہیں بائیو میٹرک سے قبل گرفتار کرنا چاہتے تھے، مجھ پر اور علی بخاری پر اسپرے کیا گیا، عمران خان کے سر پر راڈ مارا اور زخمی ٹانگ پر بھی مارا گیا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ انصاف تک رسائی بنیادی حق ہے، عمران خان سے ان کا بنیادی حق نہیں چھینا جا سکتا، اگر ضمانت کی درخواست دائر ہو جائے تو احاطۂ عدالت سے گرفتار نہیں کیا جا سکتا، اگر ضمانت خارج بھی ہو جائے تو اس طرح عدالت کے احاطے سے نہیں پکڑا جا سکتا، نیب کا قانون کہتا ہے کہ انکوائری کے دوران گرفتاری نہیں ہو سکتی، نیب نے کتنے نوٹس دیے اور عمران خان نہیں آئے؟ نیب کیس کا اخبار سے پتہ چلا کہ انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کر دیا گیا، عمران خان کی ضمانت کی درخواست تیار کر لی تھی، عمران خان بائیو میٹرک کرانے کے عمل سے گزر رہے تھے جب یہ سب کچھ ہوا۔
علی بخاری ایڈووکیٹ روسٹرم پر آگئے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ میں اور سلمان صفدر اے ٹی سی سے اکٹھے نکلے، میں بائیو میٹرک روم میں موجود تھا جب عمران خان آ گئے، کورٹ اسٹاف بھی وہاں موجود تھا جس نے کہا کہ اندر آ جائیں ورنہ بھگدڑ مچ جاتی ہے، رینجرز والے آئے اور پولیس والوں نے دروازہ نہیں کھولا تو شیشے توڑے، میں عزت کے لیے وکالت کرتا ہوں۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ علی موسیٰ گیلانی کو سپریم کورٹ کے باہر سے پکڑا گیا تو میں وکیل تھا، علی موسیٰ گیلانی کو بلا کر ضمانت دی گئی تھی، یہ عدلیہ، وکلاء اور اسلام آباد پولیس پر بھی حملہ ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکریٹری داخلہ کہاں تک پہنچے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وہ راستے میں ہیں، پتہ چلا ہے کہ شیلنگ ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں غصہ نہیں ہوتا۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ آج غصے کا دن ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے بھی راستے میں روکا گیا مگر میں پہنچ گیا ۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ مجھے نہیں معلوم کہ نیب اس طرح بھی گرفتاریاں کرتی ہے، کیا یہ گرفتاری قانونی ہے؟
چیف جسٹس عامر فاروق نے ہدایت کی کہ نیب کی طرف سے بھی کسی کو بلوا لیں، ڈی جی نیب یا پراسیکیوٹر جنرل کون ہے جسے بلایا جائے؟
اس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو طلب کر لیا۔
عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ میری گزارش ہے کہ عمران خان کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا جائے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان کو خدشہ تھا کہ انہیں گرفتار کیا جائے گا، گرفتاری کے لیے اس طرح سے حملے کا واقعہ کبھی نہیں دیکھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دگل نے سوال کیا کہ کیا بار روم یا پارکنگ ایریا کو کورٹ تصور کیا جائے گا؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے بیان پر وکلاء کی جانب سے شیم شیم کے نعرے لگائے گئے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دگل نے کہا کہ آپ میری بات سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر یہ کوئی طریقہ نہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے استدعا کی کہ واقعے کی انکوائری ہونی چاہیے۔
آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ گر اجازت دیں تو میں کچھ عرض کروں، مجھے تو ابھی یہ بھی معلوم نہیں کہ واقعہ اس کورٹ روم میں ہوا یا کسی اور جگہ؟
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تمام بات ابھی خواجہ حارث نے واضح کر دی ہے کہ واقعہ کب اور کیسے ہوا۔
آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ مجھے دیکھنے دیں کہ اگر میری پولیس فورس کے لوگ بھی زخمی ہوئے تو وہ کیسے ہیں؟
ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ رینجرز کی نفری تو یہاں تعینات کر رکھی ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ان کی اسٹینڈنگ پوزیشن تو نہیں تھی، اگر سسٹم بریک ڈاؤن کر جائے گا تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ یہ سسٹم اور اس کے چلنے کی بات ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے درخواست کی کہ میری استدعا ہے کہ انہیں رپورٹ بنانے دیں اور سماعت کل تک ملتوی کر دیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے کہ ضمانت کے پراسس میں بیٹھے بندے کے ساتھ ایسا ہوا، یہ عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کا معاملہ ہے۔
عدالت نے ڈی جی نیب راولپنڈی اور پراسیکیوٹر جنرل نیب کو آدھے گھنٹے میں طلب کر لیا اور سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا، ڈی جی نیب راولپنڈی اور پراسیکیوٹر جنرل نیب اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے۔
نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی بھی عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس کے تفتیشی افسر میاں ندیم راستے میں ہیں، وزارت داخلہ کو کہا یکم مئی کا وارنٹ ہے تعمیل کروائی جائے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ ہم سب ایک نظام کے تابع ہیں، کورٹ کے اندر ایک کام ہوا جو بظاہر غلط ہوا ہے، کیا عدالت کے احاطے سے گرفتاری ہو سکتی ہے؟ جس پر مظفر عباسی کا کہنا تھا کہ اگر کوئی گرفتاری میں مزاحمت کرے تو تمام اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
ڈپٹی پراسیکیورٹر جنرل کا کہنا تھا کہ پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچا، وکلا کے ساتھ برا سلوک ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گرفتاری کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کرنے کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے، وارنٹ کی تعمیل کا نارمل طریقہ کیا ہوتا ہے؟ نیب ہر کیس میں وارنٹ کی تعمیل ایسے ہی کرواتی ہے؟ جس پر مظفر عباسی کا کہنا تھا کہ جہاں گرفتاری میں مزاحمت کا خدشہ ہو وہاں فورس استعمال کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وارنٹ کی تعمیل غیر قانونی تھی؟ یہ جاننے کےلیے تعمیل کا طریقہ پوچھ رہا ہوں جس پر ڈپٹی پراسیکیورٹی جنرل نیب نے کہا کہ عمران خان نے بہت سے مواقع پر گرفتاری سے بچنے کیلیے مزاحمت کی، عمران خان نے انکوائری جوائن نہیں کی، وارنٹ قانونی طور پر جاری ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ گرفتاری قانون کے مطابق ہے یا حراست غیر قانونی ہے؟ اہم تشویش یہی ہے کہ گرفتاری قانون کے مطابق ہوئی یا غیر قانونی ہے؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ علی موسی گیلانی والا کیس رپورٹیڈ ججمنٹ ہے؟ جس پر فیصل چوہدری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ میں اس وقت وہاں موجود تھا اس لیے کیس کا حوالہ دیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وارنٹ تو تھے مگر جو طریقہ کار اختیار کیا گیا اس پر ہمیں تشویش ہے جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری پر پابندی نہیں، عدالتی تقدس کےلیے کمرہ عدالت سے گرفتاری نہیں کی جاتی۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ وکلا کی آنکھوں میں اسپرے کیا گیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی بھی ان کی آنکھیں لال ہیں۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نیب سے پوچھ لیں کہ انکوائری انوسٹی گیشن میں کب تبدیل ہوئی؟ اگر یہ انکوائری انوسٹی گیشن میں تبدیل ہوئی تو اس کی کاپی دینا لازم ہے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ انکوائری رپورٹ کی کاپی قانون کے مطابق نہیں دی گئی، میں نے اس بات پر نیب کو لیٹر لکھا جو ساتھ لگایا ہے، ایک طلبی کا نوٹس ملا تھا جس کا جواب دیا تھا، نیب کے اپنے ریکارڈ سے بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ چیئرمین نیب انوسٹی گیشن کے دوران وارنٹ جاری کر سکتا ہے، نیب آرڈی نینس میں ترمیم ہوئی۔ پہلے انکوائری میں بھی وارنٹ جاتی ہو سکتے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ نیب قوانین میں ترمیم بہتر ہے؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے خدشہ تھا ایسا کچھ ہوگا اس لیے اسی کیس میں بائیومیٹرک کروا رہا تھا۔ نیب کے القادر کیس میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کرنی تھی، یہ گرفتاری انصاف تک رسائی کے بنیادی حقوق کے خلاف اور غیر قانونی ہے۔
خواجہ حارث نے یہ بھی کہا کہ مسلسل نوٹسز کے باوجود پیش نہ ہونے پر وارنٹ جاری ہوتے ہیں، یہ بھی تو بتائیں کہ وہ نوٹسز کہاں ہیں؟
انہوں نے زور دیا کہ عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی اور یہ عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے، کوئی تصور کر سکتا ہے کہ عدالتی کمپاؤنڈ پر اس طرح سے حملہ کیا جائے؟
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ہر سماعت پر کہتے ہیں کہ گرفتاری یا قتل کیے جانے کا خدشہ ہے، گرفتاری غیر قانونی ہے، عمران خان کی رہائی کے احکامات جاری کیے جائیں۔
عمران خان کے دوسرے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ ہم عدالت مار کھانے کے لیے نہیں آتے، آج میرے عملے کو بھی مار پڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں تو عدالت کے سامنے ایک سازش بےنقاب کرنے لگا ہوں، اگر گرفتار کرنا تھا تو زمان پارک اور بھیرہ میں گرفتار کر لیتے۔
سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ آج عمران خان نے بائیو میٹرک کےلیے پیش ہونا تھا، عمران خان کی ضمانت درخواستیں پروسیجر میں آ چکی تھیں، ہم کورٹ میں گاڑی اندر لانے کی بھی درخواست کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج ججز گیٹ اوپن تھا میں نے سوچا کہ یہاں سے داخل ہو جاؤں، سیکیورٹی والوں نے کہا کہ سوچنا بھی نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ججز گیٹ نیب کےلیے کیسے کُھلا؟
سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو طبی معائنہ کے لیے اسپتال لے گئے ہیں، پہلے تو عمران خان کو جس طرح لے کر گئے انہیں یہاں پیش کرنا چاہیے، ایسی کیا قیامت ٹوٹ پڑی کہ بائیومیٹرک برانچ کے دروازے توڑ کر گرفتار کیا گیا۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب مظفر عباسی نے عدالت کو بتایا کہ 28 اپریل کو انکوائری انوسٹی گیشن میں تبدیل ہوئی، یہ انکوائری میں پیش نہیں ہوئے، نیب نے اس کی کافی تفصیل سے تحقیقات کیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ابھی کیس کے میرٹس پر نہیں جائیں گے، آپ ریفرنس دائر کریں اور احتساب عدالت میں جائیں۔
وکیل نیب کا کہنا تھا کہ انکوائری قانون کے مطابق انوسٹی گیشن میں تبدیل ہوئی، عمران خان کو 24 گھنٹے تحویل میں رکھ کر متعلقہ عدالت پیش کر سکتے ہیں۔
ڈی جی نیب راولپنڈی مرزا عرفان بیگ بھی عدالت میں پیش ہوئے، ان سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس کیس کو دیکھ رہے ہیں؟ آپ کا کیا رول ہے؟ جس پر ڈپٹی پراسیکیورٹی جنرل نیب مظفر عباسی نے جواب دیا کہ یہ سپروائز کرتے ہیں، وارنٹ گرفتاری چیئرمین نیب نے جاری کیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر وارنٹ کی تعمیل غیر قانونی طریقہ کار کے زمرے میں آتی ہے تو پھر رہائی ہوگی۔
چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد سے استفسار کیا کہ کورٹ کمپاؤنڈ سے آج تک کتنی گرفتاریاں کروائی ہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ سال میں پہلی بار وارنٹ گرفتاری کی وضاحت کےلیے بلایا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بلڈنگ کا نہیں، کمیونٹی کے ساتھ جو ہوا اس پر افسوس ہے۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے عمران خان کی گرفتاری قانونی ہونے کا نہ ہونے سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد اور سیکریٹری داخلہ کو 15 منٹ میں طلب کر لیا تھا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بھی 15 منٹ میں پیش ہونے کی ہدایت کی اور کہا کہ ہدایات لے کر فوراً بتائیں کہ یہ کام کس نے کیا ہے؟
چیف جسٹس نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کارروائی کرنا پڑی تو وزیرِ اعظم اور وزراء کے خلاف بھی ہو گی۔
انہوں نے استفسار کیا کہ یہ بھی بتائیں کہ کس کیس میں گرفتاری عمل میں لائی گئی؟
اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کی جانب سے 15 منٹ کا وقت آدھے گھنٹے تک بڑھانے کی استدعا کی گئی۔
عدالت نے استدعا مسترد کرتے ہوئے 15 منٹ میں ہی پیش ہونے کا حکم دے دیا۔