• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری ریاست میں اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے اور اگر یہ پائوں پختونخوا کا ہو ،کتنی آزادی ہے اس کا اندازہ دو متضاد خبروں سے لگایا جاسکتاہے،جہاں ایک خبر آتی ہے کہ پا کستان کیلئےاچھی خبر یہ ہے کہ پختونخوا کےضلع کرک میں واقع فیلڈ پر 5ہزار 900میٹرگہری کھدائی کے بعد تیل و گیس کا ذخیرہ دریافت ہوا ہے۔کنویں سے ابتدائی طور پر 1425بیرل خام تیل اور 118ملین مکعب فٹ گیس یومیہ حاصل ہو رہی ہے۔ او جی ڈی سی ایل نے ضلع کوہاٹ میں تیل و گیس کے نئے ذخائر دریافت کر لئے۔ ٹل بلاک میں تقریباً 20سال قبل2002 میں ضلع کرک کی تحصیل بانڈہ داؤدشاہ کےمقام گرگری میں پہلی بار تیل و گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے تھے جس کے بعد تحصیل بانڈہ داؤدشاہ کے کئی علاقوں کے علاوہ ضلع کوہاٹ کی تحصیل لاچی اور ضلع ہنگو کی تحصیل ٹل میں کئی مقامات پرتیل و گیس کے ذخائر نکلے تھے۔اب دوسری خبر ملاحظہ فرمائیں جس میں کہا گیا ہے کہ ضلع کرک کی تحصیل بانڈہ داؤدشاہ کے علاقے گرگری‘ سام‘امان کوٹ اور میلو حلالہ کے مقام پر منزلی 1‘ منزلی 2‘منزلی 5اور منزلی 7جبکہ ضلع ہنگو کی تحصیل ٹل کے علاقے آدم بانڈہ کے مقام پر منزلی 3میں تیل و گیس کے ذخائرختم ہوکر سیل کردیے گئے،ذرائع کے مطابق تحصیل بانڈہ داؤدشاہ کے علاقوں خڑی بانڈہ اور مکوڑی میں ویسٹ 1اورمکوڑی 2کے نام سے دو کنوئیں ناکام ہو گئے ہیں جہاں سی پی ایف پلانٹ مکوڑی کا کیمیکل ملا زہریلا پانی پائپ لائن کے ذریعے ان ہزاروں میٹر گہرے کنوؤں میں ڈال کرتلف کیا جاتا ہے۔اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ زہریلے پانی کا سدباب کیا جاتا ،اسکی بجائے زورآوروں نے سوچا نہ رہیگا بانس نہ بجے گی بانسری،تیل نکالنا ہی بند کردیا !! مقررہ وقت سےدس سال قبل ہی تیل و گیس کے ذخائر ختم ہونے کی بنیادی وجوہات میں تیز تر کمپریسر کے ذریعے اضافی مقدار میں تیل و گیس نکال کر زیادہ پیسہ حاصل کرنا شامل ہے۔اب ظاہر ہے کہ ایسا وہ طاقتورہی کرسکتے ہیں جنہیں یہ خوف ہی نہ ہو کہ اُن پر ہاتھ ڈالا جاسکتاہے ،اس میں ایک نہیں کئی عوامل کا عمل دخل ہے۔ ابتداء میں کمپنی نے کامیاب ذخائر کے بعدتخمینہ لگاکر دعویٰ کیا تھا کہ یہ ذخائر30 سال کیلئے کارآمد ہوں گے لیکن اب 20سال بعد ہی ٹل بلاک پر مشتمل ضلع کرک کی تحصیل بانڈہ دواؤدشاہ اور ضلع ہنگومیں کئی مقامات پرتقریباًنصف درجن پیداواری کنوؤں میں تیل و گیس کے ذخائر ناپید ہوگئے جنہیں اس کمپنی نے سیل کردیا۔ ۔خوش خبری یہ ہےکہ اوجی ڈی سی ایل کا کہنا ہے کہ توغ بالا کنواں نمبر 1 سے یومیہ 9ایم ایم ایس سی ایف ڈی گیس مل سکے گی،جب کہ توغ بالا کنواں نمبر 1 سے یومیہ 125 بیرل تیل حاصل کیا گیا ہے۔یہ کوہاٹ بلاک میں تیل و گیس دریافت کرنے کے سلسلے کی مسلسل دوسری کامیابی ہے، حکام کا کہنا ہے کہ نئی دریافت سے ملکی زر مبادلہ میں خاطر خواہ بچت جبکہ او جی ڈی سی ایل کے تیل و گیس کے ذخائر میں اضافہ ہوگا۔پی پی ایل کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ٹل بلاک میں ایک اور تیل و گیس کا ذخیرہ دریافت ہوا ہے،تیل وگیس کی نئی دریافت سے پاکستان کی انرجی سیکورٹی میں اضافہ ہوگا۔ایک خبرکے مطابق کوہاٹ ڈویژن کے تین اضلاع کوہاٹ‘ کرک اور ہنگو پر مشتمل’ٹل بلاک‘ میں تیل وگیس کے ذخائر تلاش کرنے والی غیرملکی کمپنی‘نے اب تک 25سے زائد کنوئیں کھودکر تیل و گیس کے کامیاب ذخائر دریافت کئے ہیں جہاں سے روزانہ ہزاروں بیرل خام تیل اور کروڑوں مکعب فٹ قدرتی گیس حاصل ہوتی ہے۔کہاجاتا ہے کہ ابتداء میں تیل وگیس تلاش کرنے والی کمپنی نے کامیاب ذخائر کے بعدتخمینہ لگاکر دعویٰ کیا تھا کہ یہ ذخائر30سال کیلئے کارآمد ہوں گے۔

کرک ضلع کی مکمل آبادی ایک ہی قوم خٹک پر مشتمل ہے۔ اس ضلع میں نمک کی کانیں بڑے علاقے پر پھيلی ہوئی ہيں جس سے زراعت کو نقصان ہورہا ہے۔  ضلع کابڑا مسئلہ پانی ہے۔ ضلع کوہاٹ میں تیل و گیس کے نئے ذخائرکی دریافت کے تحت توغ بالا کنواں نمبر 1 سے یومیہ 9 ایم ایم ایس سی ایف ڈی گیس مل سکے گی،جب کہ توغ بالا کنواں نمبر 1سے یومیہ 125 بیرل تیل حاصل کیا گیا ہے۔ نئی دریافت سے ملکی زر مبادلہ میں خاطر خواہ بچت ہوگی۔ آپ دیکھیں کہ پختونخوا 50ارب بیرل پیدوار دیتا ہے جبکہ دیگر صوبوں کی پیداوار ملاکر بھی 40ہزار سے کم ہے،لیکن یہ عجیب منطق ہے کہ جس صوبے میں را میٹریل ہے وہاں آئل ریفائنر ی نہیں ہے۔پختونخوا کے لوگوں کا یہ کہنا بجا ہے کہ آئل ریفائنری نہ ہونے سے پختونخوا کو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نہیں ملتی جبکہ دیگر صوبوں کو یہ ڈیوٹی اس لئے ملتی ہے کہ وہاں آئل ریفائینریاںہیں ۔پختونخوا پاکستان میں سب سے زیادہ بجلی کرنے والا صوبہ ہے، صرف تربیلا سے 80ارب یونٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے لیکن ستم دیکھیں کہ یہ بجلی وفاق 80پیسےفی یونٹ کے حساب سے پختونخوا سے لیتا ہے پھر یہی بجلی پختونخوا کو 20روپے فی یونٹ میں دیتاہے۔ افسوس کہ پاکستان میں احساس محرومی پیدا کرنے والے عوامل ختم کرنے کی بجائے ریاستی پالیساں ان میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین