• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی شخص جو لیڈر بننے کا خواہش مند ہو اُسے گرفتاری یا جیل یاترا سے نہیں گھبرانا چاہئے۔ سیاست کا میدان کرکٹ گراؤنڈ جیسا نہیں ۔ اگر سیاست کرنی ہے تو پھر صبر اور حوصلے کے ساتھ صعوبتیں جھیلنا بھی سیکھو اور کہو میرے پاکستانیو میں جیل جانے سے نہیں گھبراتا ۔ہماری اسی سرزمین ہند میں مہاتما گاندھی برسوں جیلوں میں رہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو، ولبھ بھائی پٹیل، سبھاس چندر بوس، مولانا ابوالکلام آزاد اور ہمارے خطہء پختونستان سے عدم تشدد کے عظیم پرچارک خدائی خدمتگار باچا خان جو محض غیروں کی نہیں اپنوں کی جیلوں میں بھی برسوں صعوبتیں جھیلتے رہے۔ نیلسن منڈیلا زندگی کے قیمتی انتیس سال جیلوں میں سڑتا رہا مگر تشدد یا منافرت چھوڑ کبھی کسی پر الزام تک نہ لگایا۔

اس طولانی تمہید کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ سب عظیم لیڈر روشن ضمیر سیاسی قیدی تھے جو قومی کاز کیلئے دکھوں کو جھیلتے رہے جبکہ نہایت معذرت کے ساتھ گزارش ہے کہ جناب جناح ثالث صاحب آپ کا معاملہ دوسرا ہے آپ دوسروں کو چور چور اور کرپٹ کرپٹ کہتے خودکرپٹ ثابت ہونے جارہے ہیں۔ آپ کو کس نےکہا تھا کہ کرپشن کے پیسوں سے اپنی ذاتی القادر یونیورسٹی قائم کریں۔ ہمارے اتنے بڑے بزنس ٹائیکون ملک ریاض کو برطانیہ میں 190ملین پاؤنڈز جن کی مالیت پاکستانی کرنسی میں تقریباً ساٹھ ارب روپے بنتی ہے جرمانہ ہوا یہ خطیر رقم حکومتِ برطانیہ حکومتِ پاکستان کے خزانے میں بھیج رہی تھی مگر آپ نے سپریم کورٹ کا کندھا استعمال کرتے ہوئے رئیل ا سٹیٹ ڈویلپر کو بیچ میں ڈال کر تحصیل سوہاوہ میں 458کنال اراضی زلفی بخاری کے نام منتقل کروائی، اسے ٹرسٹ کا متولی ظاہرکیا گیا۔ بعدازاں بنی گالہ میں بیٹھ کر اپنی سرکاری حیثیت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی بیگم بشریٰ بی بی اور خود کو ٹرسٹی ڈکلیئر کرتے ہوئے اس کی ملکیت حاصل کرلی۔ وہ ساری کہانیاں میڈیا میں آتی رہی ہیں کہ کس طرح اپنی کابینہ کو بھی اندھیرے میں رکھتے ہوئے دستخط کروائے جاتے رہے۔ گھر کے بھیدیوں نے بھی بہت کچھ اُگل دیا تھا۔ آپ کے مشیر احتساب شہزاداکبر نے دو ارب کی رشوت لیتے ہوئے جو گھناؤنا کردار ادا کیا ایک ایک کارستانی کی تفصیل اب اس مقدمے میں عوام کے سامنے آجائے گی۔ آپ نے بے گناہوں پر جس طرح کیچڑ اچھالا ملک کے قابلِ احترام سیاستدانوں کی جس طرح تذلیل کی۔ بلاثبوت جس طرح اپنے سیاسی حریفوں کو انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے جیلوں میں بند کرتے رہے۔ نوازشریف میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں، تم کو جیل میں بھی چین سے نہ بیٹھنے دوں گا۔ سیاستدانوں کیا میں اپنے مخالف صحافیوں کو بھی نشانِ عبرت بنادوں گا۔ حالیہ رمضان کی اپنے گھر افطاری میں درویش سب کے سامنے سہیل وڑائچ صاحب کو کہہ رہا تھا کہ اس شخص نے بے گناہ لوگوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں ان کے جواب میں اگر قدرت کی لاٹھی نہ اُٹھی تو ناچیز کا اس لاٹھی پرسے ایمان اٹھ جائے گا۔ پچھلے ہفتے شامی صاحب کو ملتے ہوئے کہا کہ اپنے مشاہدے اور وجدان کی بنیاد پر سیاسی لوگوں کے مستقبل کی مناسبت سے بہت کچھ بیان کرسکتا ہوں اس سلسلے میں خورشید قصوری کی مثال سنائی اور یہ بھی کہا کہ آپ لکھ لیں کہ یہ کھلاڑی لیڈر اب دوبارہ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر متمکن نہیں ہوسکے گا، یہ گرفتار اور نااہل ہوگا اور اس کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔

درویش نے احباب سے ہمیشہ یہ درخواست کی کہ اس کی پکڑہیوی اور واضح دکھتی کرپشن میں ہونی چاہئے۔ توشہ خانہ یا فرح گوگی کی لوٹ مارکوبھی ہمارے لوگ معمولی خیال کریں گے۔ نوازشریف کے خلاف تو ان لوگوں نے بالخصوص ثاقب نثار اینڈ کمپنی نے ایڑی چوٹی کا زور لگالیا مگر ایسا کوئی ایک ثبوت نہیں ملا جس سےکچھ ثابت کرسکتے پاناما سے بھی جب کچھ نہ ملا تو اقامہ میں دھرلیا گیا جسے کہیں بھی پذیرائی نہ ملی سنجیدہ لوگوں نے اسے محض انتقامی کارروائی اور کامل پلاننگ سے تیار کئے گئے منصوبے کا حصہ جانا۔آج وقت نوازشریف کی بے گناہی پر مبنی تمام سچائیاں سامنے لاتا چلا جارہا ہے۔ آڈیو لیکس کے ذریعے جو انکشافات ہوئے ہیں وہ اپنی جگہ، خود مجرمانہ پلاننگ کرنے والوں کے اپنے انٹرویوز میں تقریباً تمام حقائق کھل چکے ہیں۔

پاکستان کو برباد کردینے والی منصوبہ بندی میں استعمال ہونے والا بڑا مہرہ آج قانون کی گرفت میں آیا ہے تو ردِ عمل میں ہونے والی توڑ پھوڑ بھی اصلیت کو سمجھنے کیلئے بہت کچھ واضح کر گئی ہے۔ یہ تو ابھی شکر کرے کہ حکومت نے ظالمانہ نیب قانون کو بڑی حد تک منصفانہ بنادیا ہے ورنہ جیسا گھناؤنا استعمال آپ کرتے رہے، اس کے تحت تو 90روز تک اس کی ضمانت ہی نہیں ہوسکتی تھی۔ اب اگر 14دن بعد یا پہلے بھی اس کی ضمانت ہوجاتی ہے تو ثبوت اتنے قوی ہیں کہ کم از کم پانچ برس تک اس کی سیاسی نااہلی یقینی ہوگی۔ اس کی پارٹی جسے درویش سیاسی پارٹی کی بجائے بھان متی کا کنبہ خیال کرتا ہے جو فی الحقیقت محض ایک پریشر گروپ ہےجس میں زیادہ تر پی پی کے بھگوڑے شامل ہیں اندازہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں وہ جذبات کا نشہ اترنے پر اپنی پارٹی میں واپس پدھاریں گے، البتہ جن لوگوں نے تشدد اور مار دھاڑ کو روا رکھتے ہوئے املاک پر حملےکئے ، لوٹ مار کے ساتھ ساتھ توڑ پھوڑ کرتے ہوئے آگ لگائی ، ان کے خلاف بہر صورت کارروائی ہو گی۔ہمارے ان بھائیوں کو آج فلسفہ عدم تشدد سمجھنے اور باچاخان کی طرح اس پرعمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ورنہ تشدد انتقام اور منافرت بھرے جذبات سے ہمارا وہی حال ہوگا جس سے آج کا طالبانی افغانستان گزر رہا ہے۔

تازہ ترین