• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


آج کل آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ آئین اسلامی بھی ہے جمہوری بھی ہے اور وفاقی بھی لیکن اس آئین میں اسلام کو صرف ملک کا مذہب قرار دیا گیا تھا اور قرار داد مقاصدتو صرف اس کا پیش لفظ تھا جس میں کہا گیا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کی ہے اور اقتدار ایک امانت ہے جو عوام کے منتخب نمائندے ہی استعمال کر سکتے ہیں ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں یہ فیصلہ کیا گیاتھا کہ یہ پیش لفظ آئین کا حصہ نہیں ۔ یہ سعادت جنرل ضیاء الحق کے حصے میں آئی جس نے قرار داد مقاصد کو آئین پاکستان کا ٹھوس حصہ بنایا اور آئین پاکستان میں آرٹیکل 2الف کا اضافہ کیا جس میں قرار داد مقاصد کو سمویا گیا اور اس طرح اس مملکتِ خدا داد کو اسلامی ریپبلک بنایا گیا ۔تا ہم ابھی اس آئین کو مزید بہتر بنانے کی گنجائش موجود ہے کہ اس میں انسان کے سماجی اور معاشی حقوق نہ ہونے کے برابر ہیں اور آئین کے بنیادی حقوق کے باب میں روٹی ، کپڑا اور مکان کی کوئی گارنٹی نہیں دی گئی ، بنیادی حقوق صرف سیاسی حقوق ہیں جیسا کہ تحریر و تقریر کی آزادی ،جلسہ جلوس اور سیاست کرنے کا حق۔ یورپ میں تو بڑے بورڈوں پر (عمر زلا)لکھا ملتا ہے کیونکہ انہوں نے حضرت عمرؓ بن خطاب کا سوشل سیکورٹی نظام اپنایا ہوا ہے جو ہمارے خلیفہ ِ دوئم نے قائم کیا اور فرمایا تھا کہ اگر دریائے دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمرؓاس کیلئے بھی جواب دہ ہو گا ۔تاہم پاکستان میں بڑی بڑی ڈگریاں لئے نوجوان طبقہ خجل خوارہو رہا ہے اور انہیں کوئی نوکری نہیں ملتی اور نہ ہی بے روزگاری الائونس جو یورپ کی حکومتیں اپنے شہریوں کو دیتی ہیں ۔ مزید بر آں جو بنیادی حقوق آئینِ پاکستان میں دیئے گئے ہیں گراس روٹ لیول پر انکے حصول کا کوئی نظام نہیں اور ان حقوق کو حاصل کرنے کیلئے آئین پاکستان کے آرٹیکل 199کے تحت ہائی کورٹ میں رٹ کرنا پڑتی ہے یا آرٹیکل 184کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑتا ہے، جو ایک عام یا غریب آدمی کے بس کی بات نہیں اور ابھی تک زیادہ تر سیاست دانوں نے ہی ایسے اقدامات کر کے اپنے سیاسی حقوق حاصل کئے ہیں ۔ہماری سپریم کورٹ نے اس کمی کو پورا کرنے کیلئے شہلا ضیاء کے مشہورِ زمانہ کیس میں تاریخی فیصلہ دیا کہ آئین کے آرٹیکل 9میں زندہ رہنے کا جو حق دیا گیا ہے تو وہاںزندگی سے مراد نباتاتی حیات مراد نہیں بلکہ زندہ رہنے کیلئے جو تمام بنیادی ضروریات درکار ہوتی ہیں اور ایک اچھی زندگی کیلئے جو سہولتیں چاہئیں وہ بھی زندگی کے حق میں شامل ہیں لیکن نہ تو اس فیصلے سے عوام الناس آگاہ ہیں اورنہ ہی اسکے حصول کیلئے انسانی حقوق کی عدالتیں قائم کی گئی ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ تحصیل کی سطح تک سول ججوں اور مجسٹریٹوں کو انسانی حقوق کے نفاذ کے اختیارات اور عام انسان کو انسانی حقوق کے حصول کے مواقع فراہم کئے جائیں، اس وقت انسانی حقوق دنیا کے سب ممالک میں ملک کے آئین کی بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں ابھی تک انسانی حقوق محض ایک خواب ہیں۔ اسی طرح آئین پاکستان میں ایک باب پرنسپل آف پالیسی کا ہے جس میں پڑے خوشنما مقاصد ریاستی پالیسی کے بنائے گئے ہیں جیسے سماجی و معاشی انصاف ، امتیازی سلوک کا خاتمہ، اسلامی ثقافت اور کیلنڈر کا فروغ وغیرہ لیکن ان پر عدلیہ کے ذریعے عمل درآمدنہیں کروایا جا سکتا۔اگرچہ آئین میں لکھا کہ صدرِ پاکستان پارلیمنٹ میں اور صوبائی گورنرصاحبان صوبائی اسمبلیوں میں انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ پیش کریں لیکن ایسا نہیں کیا جاتااور نہ ہی عدلیہ اس سلسلہ میں کوئی اقدام کر سکی ہے لہٰذا انسانی حقوق کو یقینی بنانے کیلئے آئین پاکستان میں مزید قانون سازی کی ضرور ت ہے اللہ کرے کہ جلد ایسا کیا جائے، آمین۔

تازہ ترین