• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وزیراعظم عمران خان کوفوری رہائی اور عدلیہ کوتیز ترین انصاف مبارک ۔10مئی کو عمران خان کے خلاف مبینہ بیٹی ٹیریان جیڈوائٹ کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے کا کیس ختم ہوا۔11مئی کو یعنی گرفتاری کے محض دو دن بعد سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے چیئرمین کو حراست میں لئے جانے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مزید انصاف کی غرض سے یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوا دیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے اگلے روز نہ صرف القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت منظور کرلی بلکہ یہ فرمان بھی جاری کردیا کہ اگر کوئی نیا مقدمہ درج کیا جاتا ہے تو اس کے تحت بھی عمران خان کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا ۔غیر مشروط معافی کا تو سنا تھا مگر غیر مشروط اور لامحدود ضمانت سے متعلق پہلی بار معلوم ہوا۔آئین و قانون پر دسترس رکھنے والے ماہرین ہی رہنمائی فرماسکتے ہیں کہ جو مقدمات درج ہی نہیں ہوئے کیا ان میں پیشگی ضمانت دی جاسکتی ہے؟بہر حال سرعت انصاف کا معاملہ یہیں تک ختم نہیں ہوتا۔اسی دن توشہ خانہ فوجداری کیس کے حوالے سے مزید کارروائی سے روک دیا گیا اور عمران خان کے وکلا حکم امتناع حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔13مئی کو اسلام آباد کی عدالت نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف عدت میں نکاح کا کیس دائرہ کار سے باہر ہونے کے باعث خارج کردیا۔عدلیہ کے گن گانے اور داد وستد کے ڈونگرے برسانے والے طفلانِ انقلاب کہتے ہیں اگر عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کر رہی ہے اور شہریوں کی داد رسی کرتے ہوئے بروقت انصاف فراہم کر رہی ہے تو آپ کیوں معترض ہیں؟

المیہ یہ ہے کہ حادثاتی طور پر انقلابی ہو جانے والے ان بچوں کی یادداشت اور تاریخ بہت مختصر ہے ۔ان پر 9اور10اپریل کی درمیانی شب یہ راز منکشف ہوا کہ اس ملک کے تمام مسائل کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ ہے ۔اس کے بعد بنیادی انسانی حقوق سمیت تمام حقائق کھلتے چلے گئے۔لہٰذا نہ صرف ان طفلان انقلاب بلکہ سرعت انصاف کے مرض میں مبتلا منصفوں کی خدمت میں ماضی قریب کے بعض تلخ حقائق پیش کرنا چاہوں گاتاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔9مئی کو رینجرز نے عمران خان کو گرفتار کیا تو آپ کو بہت برا لگا ،کیونکہ یہ پولیس کا کام ہے ۔احتساب عدالت سے سزا ہو جانے پر میاں نوازشریف اپنی اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر بیٹی مریم نواز کے ہمراہ پاکستان واپس آئے اور لاہور ایئر پورٹ پر اُترے تو چاروں طرف گھیرا ڈالے ہوئے کمانڈوز کا تعلق کس محکمے سے تھا؟عمران خان احتساب عدالت کے جس جج محمدبشیر کے سامنے پیش ہوئے،اسی عدالت میں ایک سابق وزیراعظم نے کتنی پیشیاں بھگتیں؟اسی احتساب عدالت نے 6جولائی 2018ء کو نوازشریف کو سزا سنائی ،13جولائی کو نوازشریف اور ان کی بیٹی کو لاہور ایئر پورٹ پر گرفتار کیا گیا ،16جولائی کو اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔کئی ماہ تک ان اپیلوں کو زیر التوا رکھا گیا کیونکہ تب انصاف اور بنیادی انسانی حقوق عالم خوابیدگی میں تھے۔العزیزیہ اسٹیل مل کیس جس میں سزا سنانے والے جج ارشد ملک کے اعترافی بیان پر مبنی ویڈیو سامنے آئی ،اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی طویل عرصہ تک التوا کا شکار رہی ۔رُکن قومی اسمبلی علی وزیر 26ماہ تک قید رہے ۔انہیں 31دسمبر 2020ء کو گرفتار کیا گیا ۔عدالت عالیہ ،عدالت عظمیٰ کہاں کہاں دہائی نہیں دی گئی ،لیکن یوں لگتا تھا جیسے اعلیٰ عدلیہ نے اپنے کواڑ مقفل کرلئےہیں اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی ہیں تاکہ کوئی صدا یا التجا معزز جج صاحبان کی سماعتوں سے نہ ٹکراسکے۔جوآج یہ تاویل پیش کر رہے ہیں کہ چھٹی کے دن چیئرمین نیب نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری پر دستخط کئے،مقدمہ ابھی تفتیش کے مرحلے میں ہے اور عمران خان کو گرفتار کرلیا گیا ۔انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میر شکیل الرحمان کے خلاف بوگس مقدمہ ابھی انکوائری کے مرحلے پر تھا،عمران خان تو باربار نوٹس جاری کرنے کے باوجود پیش نہیں ہوئے ،لیکن وہ پیشی پر آئے، اس دوران چیئرمین نیب نے فوری طور پر وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے اور انہیں تحویل میں لے لیا گیا۔ماتحت عدالتوں اور پھر اعلیٰ عدالتوں سے بار بار استدعا کی جاتی رہی کہ ضمانت نہ دیں اس قانونی نکتے پر غور کریں کہ یہ گرفتاری غیر قانونی ہے مگر تب قانون ،انصاف،بنیادی انسانی حقوق جیسے الفاظ اپنی اہمیت کھوچکے تھے۔رانا ثنااللہ ،شاہد خاقان عباسی ،شہبازشریف،خواجہ سعد رفیق، خورشید شاہ ،آصف زرداری ،احد چیمہ،فواد حسن فواد سمیت کتنے ہی قیدیوں نے جبر ناروا کا سامنا کیا ۔سماجی کارکن گلالئی اسماعیل کے والدین انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے چکر لگاتے رہے۔ بلوچستان میں مولانا ہدایت الرحمان جیسے کتنے سماجی کارکن قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔

اگر طویل عرصہ بعد عدلیہ عالم خوابیدگی سے بیدار ہوئی ہے اور بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کر رہی ہے تو جی بسم اللّٰہ لیکن یہ وضاحت ضرور کی جانی چاہئے کہ گزشتہ چند برس کے دوران معزز جج صاحبان کس کونے میں بیٹھے تھے؟ یہ بھی بتایا جانا چاہئے کہ فعالیت اور تحرک کا یہ غلبہ کتنی دیر تک قائم و دائم رہنے کی توقع ہے؟اور ’کبھی یک بہ یک توجہ،کبھی دفعتاً تغافل ‘ یہ کیا ماجرا ہے؟کیا رُخ بدل بدل کر آزمایا جارہا ہے یا پھرواقعی انصاف کی سہولت محض تحریک انصاف کے لئے مختص ہے؟

تازہ ترین