• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں مشرقی یورپ ’’قحط آب‘‘ کی گرفت میں ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ نے ایک اہم وارننگ دی ہے کہ ’’انسان کرۂ ارض کے وسائل کا بے دریغ اور بیدردی سے استحصال کر رہا ہے جس کو فوری طور پر روکا جانا چاہئے ورنہ بڑے پیمانے پر ایک عالمگیر تباہی و بربادی ہمارا انتظار کر رہی ہے‘‘۔ حال ہی میں شائع ہونے والی عالمی آبادی سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ زیادہ تر افراد اپنی پہنچ سے بھی زیادہ وسائل استعمال کررہے ہیں، اسے روکنے میں تاخیر کی گئی تو آگے چل کر بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2050میں 4.5ارب لوگ جو دنیا کی آبادی کا 45فیصد حصہ ہوں گے وہ ایسے ملکوں کے باشندے ہوں گے جن کی فی کس لیٹر پانی کی بنیادی ضرورت بھی پوری نہ ہو سکے گی۔ آج دنیا کی آبادی گزشتہ چالیس برسوں میں دگنا ہوکر 7ارب 25کروڑ تک پہنچ گئی ہے جو آئندہ پچاس برسوں میں یعنی 2050میں 10ارب تیس کروڑ ہو جائے گی۔ آبادی میں یہ اضافہ ترقی پذیر ملکوں میں ہوگا جہاں وسائل پر پہلے ہی ضرورت سے زیادہ دباؤ ہے چنانچہ جہاں وسائل نہ ہوں گے وہاں مسائل اٹھ کھڑے ہوں گے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا میں پانی کے ذخیروں کو تباہ کن طریقے سے آلودہ کیا جا رہا ہے دستیاب پانی فی الحال سالانہ 45فیصد استعمال ہو رہا ہے اور اس میں سے دو تہائی زرعی مقاصد کیلئے زیر استعمال ہے۔ سال 2025تک یہ کھپت 70فیصد ہو جائے گی اور اگر ترقی پذیر ممالک میں کھپت ترقی یافتہ ممالک کی سطح پر پہنچ گئی تو یہ 90فیصد ہو جائے گی۔ بہت سے ملکوں میں پانی کا استعمال پہلے ہی بہت بری طرح ہو رہا ہے۔ چین، جنوبی ایشیا (پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش وغیرہ) اور لاطینی امریکہ کے کچھ ملکوں میں زیر زمین پانی کی سطح ہر سال ایک میٹر کے لگ بھگ نیچے اتر جاتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے ایک ارب 10کروڑ افراد کو اب بھی صاف پانی میسر نہیں اور ترقی پذیر ملکوں میں 95فیصد گندا پانی اور70فیصد صنعتی گندگی دریاؤں، نہروں اور ندی نالوں میں بہا دی جاتی ہے۔ سمندروں کے وسائل کا بھی بے جا استعمال ہو رہا ہے، اقوام متحدہ نے اپنی اس رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا پیٹ بھرنے کیلئے خوراک کی پیداوار کو د گنا کرنا ہوگا اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس صدی میں پانی تیل کی طرح قیمتی اشیاء میں شامل ہو جائے گا اور اگر ایسا ہوا تو سب سے زیادہ فائدہ آبی وسائل سے مالا مال آسٹریا کو ہوگا اور وہ دوسرا سعودی عرب بن جائے گا۔ اعدادوشمار بھی بہت خراب صورتحال کا نقشہ کھینچتے ہیں اب یہی دیکھئے اقوام متحدہ ہی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر تین سیکنڈ میں ایک بچہ پانی کی مناسب فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے بیمار ہو کر مر جاتا ہے اور جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں مغربی ممالک میں آگ اور سورج کو مرکزیت حاصل ہے تو مشرق میں پانی کے مختلف ذرائع مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ کہاوت ہے کہ ’’سادہ پانی صرف گھوڑے پیتے ہیں‘‘۔ چنانچہ پانی کے بجائے مغربی ممالک کے باشندے شراب سے پیاس بجھاتے ہیں لیکن یہی شراب سے تشنگی بجھانے والی قومیں رفتہ رفتہ پانی کی اہمیت سے آگاہ ہو رہی ہیں اور اب وہ بھی معترف ہیں کہ قدرت کا بہترین مشروب صاف اور ٹھنڈا پانی ہی ہے کہ پانی زندگی کو پروان چڑھاتا ہے پانی صحتِ بدن کیلئے لازمی اور ضروری ہے۔دوسری طرف پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کا سب سے اہم مسئلہ پینے کا صاف پانی ہے گندے پانی سے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے اعدادوشمار کے مطابق پچھلے بیس برسوں میں اندازے سے کہیں زیادہ بیماریوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ پانی کو ’’زندگی‘‘ اور ’’جیون‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے بہت سے مقامات اور جگہوں پر اسے ’’امرت‘‘ اور ’’آب حیات‘‘ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ جس طرح پانی کی لہروں پر کشتی دوڑتی ہے اسی طرح ہماری زندگی کی ناؤ بھی پانی پر ہی رواں دواں ہے۔ میرے حساب سے آج ہمارا (ترقی پذیر ملکوں کا) سب سے اہم مسئلہ پانی کا حصول ہے نہ کہ جنگ و جدل، اس لئے ہمیں اس طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے کہ ہمیں صاف شفاف پانی میسر آسکے کہ یہی وقت کا تقاضا ہے۔

تازہ ترین