• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیانیہ سازی ہمیشہ سے کپتان کا طرہ امتیاز رہی ہے مگراس بار بات بن نہیں پارہی ۔یہ طے کرنا دشوار ہوگیا ہے کہ 9مئی کو عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے والے کپتان کے پرستار تھے اوریہ سب اضطراری ردعمل کے طور پر کیا گیا یا پھر بلوائیوں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شرپسندی کا ارتکاب کیا۔وہ جو خوف کے بت توڑ کر گھروں سے نکلے ،پی ٹی آئی کے ہیرو ہیں یاپھر زیرو؟مہاتما نے پہلے کہا ،یہ تو ہوگا۔پھر فرمایا ،میں تو جیل میں تھا ،مجھے کیا معلوم؟اور اب پینترا بدل کر ساری ذمہ داری ایجنسیوں پر ڈال دی۔مگر سب سے مضحکہ خیز تاویل تحریک انصاف کے نوآموز صدر چوہدری پرویز الہٰی نے پیش کی ہے۔ فرمایا ’’کورکمانڈر ہاؤس پر حملے کے وقت آئی جی اور پنجاب پولیس کہاں تھی یہ سب تماشا دیکھ رہے تھے، اصل قصور وار محسن نقوی ہیں سزا تو ان کو ملنی چاہئے، حکومت نے جان بوجھ کر سرکاری اور فوجی تنصیبات کو بچانے کی کوشش نہیں کی، 9 مئی کے واقعات کی صاف اور شفاف انکوائری ہوئی توان میں حکومت کا خفیہ ہاتھ بے نقاب ہو جائے گا۔‘‘پہلی بار کسی ملزم نے اپنے دفاع میں یہ جواز پیش کیا ہے کہ اسے روکا نہیں گیا،لہٰذا نہ صرف اسے باعزت بری کیا جائے بلکہ اس کی جگہ کسی اور کو سزا دیدی جائے۔تکلف برطرف،آپ کے دورِ حکومت میں تحریک لبیک نے پرتشدد احتجاج کیا تو اس پر ان کے خلاف مقدمات کیوں درج کئے گئے ،اس منطق کے مطابق آپ کو سزائیں ہونی چاہئے تھیں ؟یادش بخیر ،اکتوبر 2009ء میں تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے راولپنڈی میں جی ایچ کیو پر قبضہ کرلیا ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اس غیر متوقع حملے کو روکنے میں ناکام رہے۔ بعد ازاں گرفتار دہشت گردوں کو سزائے موت دیدی گئی ۔رہنمائی فرمائیں ،آپ کے اس استدلال کے مطابق سزا کسے ہونا چاہئے تھی؟ویسے تحریک انصاف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے بعد پی ٹی آئی اندر گھسنے اور دہشت پھیلانے میں کامیاب ہوئی۔ شاید دونوں کا درجہ اور کیفیت بھی ایک جیسی ہے۔ان دونوں تنظیموں کو کبھی اسٹیبلشمنٹ کی محبوبہ کی حیثیت حاصل رہی ،اچانک بریک اپ ہوگیا تو صدمے کی حالت میں یلغار کردی گئی ۔اس مہم جوئی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ کبھی گرل فرینڈ سے اچانک منہ موڑنے کی غلطی نہ کریں ،چونکہ اسے سب راز معلوم ہوتے ہیں ،تمام راستوں کی خبر ہوتی ہے ،اس لئے وہ کسی بھی وقت آپ کے گھر میں گھس کر دھمال ڈال سکتی ہے،محتاط رہیں ۔سابق گرل فرینڈ کے لئے سبق آموز بات یہ ہے کہ ایک بار بریک اپ ہونے کے بعد کوئے جاناں میں جانے اور نئی ٹھوکر کھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پہلے کورکمانڈرز کانفرنس ،پنجاب کابینہ اور پھر قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے اعلامیے سے یوں لگ رہا ہے کہ 9مئی کو توڑ پھوڑ ،جلائو گھیرائو کرنے اور عسکری تنصیبات کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کا کیا یہ مطلب ہے کہ ان واقعات میں کچھ گھر کے بھیدی بھی ملوث تھے اور ان کا ٹرائل کیا جائے گا۔سوال یہ ہے کہ کیاپاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کسی سویلین کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے ؟آرمی ایکٹ 1952ء کی سیکشن ٹو ون ڈی میں دو ایسی گنجائشیں موجود ہیں جس کے تحت سویلینز کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔اگر کوئی شخص کسی کو فوجی کمانڈ کے خلاف بغاوت، فساد برپا کرنے کیلئے اشتعال دلانے، اُکسانے یا ترغیب یا تحریک دینے کا سبب بنے تو اس صورت میں بھی فوج اس کا ٹرائل ٹو ون ڈی کے تحت کر سکتی ہے ’چاہے ایسا کسی تقریر کے ذریعے ہی کیا گیا ہو، اگر اس سے فوج کے خلاف اکسانے کا تاثر بھی ملے تو اس صورت میں بھی اس شخص کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔‘تعزیرات پاکستان کی دفعہ 131کے تحت اگر کسی شخص پر مسلح افواج کے کسی اہلکار کو بغاوت پر اُکسانے کا جرم ثابت ہو جائے تو اس کی سزا موت ہے اور اس صورت میں بھی کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس قانون کے تحت مجرم کو عمر قید یا دس سال قید اور جرمانے کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کے تحت کسی بھی سویلین کا معاملہ 31ڈی میں لا کر اس کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کیلئے پہلے اس سویلین کے خلاف کسی تھانے میں مقدمہ کے اندارج اور مجسٹریٹ کی اجازت ضروری ہے۔ ’’نئے پاکستان‘‘ میں جب عنان اقتدار جناب عمران خان کے ہاتھ میں تھی تو آرمی ایکٹ کے تحت کئی سویلینز کا کورٹ مارشل کیا گیا۔ مثال کے طور پر ریٹائرڈ میجر جنرل ظفر مہدی کے بیٹے عسکری مہدی جو پیشے کے اعتبار سے کمپیوٹر انجینئر ہیں، انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن لینے پر ایک خط لکھا جس کی پاداش میں انہیں فوجی عدالت نے پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ سماجی کارکن ادریس خٹک کا کورٹ مارشل کیا گیا اور انہیں 14سال قید کی سزا سنائی گئی۔ کرنل (ر) انعام الرحیم ایڈوکیٹ کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ کے 6سالہ دور میں مجموعی طور پر 25سویلینز کا کورٹ مارشل کیا گیا۔

پی ٹی آئی نے اپنے دورِ حکومت میں فسطائیت اور ظلم و جبر کی جو فصل بوئی تھی، اب اسے کاٹنا پڑ رہی ہے۔ جو گہری کھائی انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے لئے کھودی دی، اب خود اس میں گرنے کے بعد بنیادی انسانی حقوق کی دہائی دے رہی ہے لیکن ہم جیسے جمہوریت پسند جہاں کل کھڑے تھے، آج بھی اسی موقف پر قائم ہیں۔ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کل بھی غیر قانونی تھا، آج بھی ناجائز اور غلط ہے۔ نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں انسداد دہشتگردی عدالتیں بنائیں اور 12اکتوبر کے بعد انہی عدالتوں میں ان کا ٹرائل ہوا۔ یہی تاریخ کا سبق ہے مگر افسوس ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتے۔

تازہ ترین