• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مَیں اپنی نئی نسل کو آئین کی اہمیت اور اُس کی تاریخ سے آگاہی فراہم کرنے کے لئے کئی ماہ سے ایک سلسلۂ مضامین اُردو کے سب سے بڑے اخبار میں لکھ رہا ہوں۔ یہ سلسلۂ مضامین 1919ء تک پہنچ گیا ہے جب ہندوستان کے مسلمان اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں تحریکِ خلافت میں صَرف کر رہے تھے۔ مسلمانوں کا امڈتا ہوا سمندر دَیکھ کر ہندو قائدین بھی تحریکِ خلافت میں شامل ہو گئے اور سول نافرمانی کی تحریک چل نکلی تھی۔عجب بات ہے کہ ترکی میں واقعات ایک نیا رُخ اختیار کر گئے تھے۔ ٘مصطفیٰ کمال پاشا نے ینگ ٹرکس کی مدد سے ترکی کو محکوم بننے اور تقسیم ہونے سے بچا لیا اور 1920ء میں یومِ آزادی منانے کا اعلان کر دیا تھا۔ پھر چار سال بعد گرینڈ نیشنل اسمبلی میں 3مارچ 1924ء کو خلافت کے خاتمے کی قرارداد پیش کی۔ خلیفہ کو اُن کی معزولی کے بارے میں چند گھنٹے بعد اطلاع دی گئی اور اُسی وقت پولیس نے اُنہیں جہاز پر بٹھا کر جلاوطن کر دیا۔کمال اتاترک نے اقتدار پر اَپنی گرفت مضبوط کرنے کے بعد ترکی پر سیکولر آئین مسلط کر دیا اور وَقفے وقفے سے اسلام کو دیس نکالا دے دیا۔ عربی زبان میں اذان اور قرآن کی تلاوت ممنوع قرار پائی۔ حج پر پابندی عائد ہو گئی اور عورتوں کے لئے حجاب ممنوع قرار پایا۔ پھر یکایک رسم الخط تبدیل کر دیا گیا جس کے باعث ترکی زبان میں بیش بہا اسلامی لٹریچر زندگی سے خارج ہوتا گیا۔ ترکی اِس دوران اُمتِ مسلمہ سے کٹ گیا اور فوج اِس کام پر مامور کر دی گئی تھی کہ وہ سیکولر دستور کی ہر قیمت پر حفاظت کرے گی۔ قدرت نے اِس طرح کے حالات پیدا کر دیے کہ کمال اتاترک کو اَیسے افراد اَپنی پارٹی میں شامل کرنا پڑے جو آگے چل کر اِسلام اور جمہوریت کے محافظ ثابت ہوئے۔ 1919ء میں یونان نے ازمیر پر چڑھائی کر دی۔ نوجوانوں کی ایک ٹیم نے اُسے عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔ اُس ٹیم کا لیڈر عدنان تھا۔ اِس دفاعی جدوجہد میں اُس کا تعارف جلال بایار سے ہوا جو آگے چل کر پختہ دوستی میں تبدیل ہو گیا۔ 1930ء میں مصطفیٰ کمال نے اُن کی غیرمعمولی صلاحیتوں کے پیشِ نظر اُنھیں مجلسِ کبیر ملّی کا رُکن منتخب کرایا اور وُہ 1960ء تک برابر اُس کے رکن منتخب ہوتے رہے۔ جب ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں قائم کرنے کی اجازت مل گئی، تو اُنہوں نے 7 جنوری 1946ء کو اَپنے ساتھیوں کی مدد سے ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد رَکھی۔ دو ہی سال بعد اِس نئی جماعت نے خلق پارٹی کی 69 نشستوں کے مقابلے میں 408 نشستیں جیت کر حکومت بنائی۔ اِس میں جلال بایار صدر اَور عدنان میندریس وزیرِاعظم چُنے گئے۔ اِن دو قائدین سے جس دور کا آغاز ہوا، اُسے ترکیہ کی تاریخ میں ’سفید انقلاب‘ کہا جاتا ہے۔اُس دور میں جمہوریت بحال ہوئی۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے اقتدار میں آتے ہی عربی زبان میں اذان دینے کے انتظامات شروع کر دیے۔ 17 جون 1950ء ترکی کی تاریخ میں وہ یادگار دِن ہے جب 18 سال بعد اِس ملک کے طول و عرض میں پہلی مرتبہ عربی میں اذان دی گئی اور 25 سال بعد 423 ترکوں نے فریضۂ حج ادا کیا۔ مسجدوں کی تعمیر کا ایک عظیم الشان پروگرام شروع ہوا اَور اِس کے علاوہ اِسلامی علوم کی توسیع اور اَشاعت پر خصوصی توجہ دی گئی۔عدنان میندریس کی حکومت نے عوامی مقبولیت کے بَل بوتے پر آئین سے سیکولر شقیں نکالنے کا عندیہ دیا، تو فوج نے 27 مئی 1960ء کو حکومت کا تختہ اُلٹ دیا اور جنرل گرسل کی نگرانی میں فوجی حکومت قائم ہوئی جس نے ڈیموکریٹک پارٹی کے منصب داروں کے خلاف نمائشی مقدمات چلائے اور وَزیرِاعظم عدنان میندریس اور وَزیرِخارجہ زورلو کو پھانسی دے دی۔پھر ایک مدت بعد بیسویں صدی کے آخری دو عشروں میں ایک نوجوان طیب ایردوان عوامی سطح پر اُبھرا۔ اُس نے عوامی اجتماع میں ’میناروں کی عظمت‘ کے نام سے ایک نظم پڑھی جس پر وہ گرفتار کر لیا گیا، مگر پانچ سال بعد وہ ایک محبوب قائد کی حیثیت سے قومی سیاست پر چھا گیا۔ سیاسی جماعتوں پر سے پابندی اٹھی، تو جناب نجم الدین اربکان نے ’رفا پارٹی‘ قائم کی جس کے ایردوان بڑے فعال رکن تھے۔ وہ استنبول کے میئر منتخب ہوئے، تو اُس شہر کی کایا پلٹ دی اور بلدیاتی اداروں کے ذریعے عوام کی خدمت کا ایک اعلیٰ معیار قائم کیا اور میانہ روی کو اَپنا شعار بنایا۔ وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آگے بڑھتے گئے اور مسلم کاز کی حمایت میں اپنے معاصر حکمرانوں سے بہت ممتاز دِکھائی دیے۔اُنہوں نے اپنی قوم کو سویلین بالادستی کا تحفہ دیا۔ اُن کے عہد میں ترکی نے دفاعی پیداوار میں اِس قدر ترقی کر لی کہ اب وہ رُوس کو بھی ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ یہ ملک اِس قدر اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ یورپی یونین بھی اُس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی ہے جبکہ روس بھی اِس کی دوستی کا خواہش مند ہے۔ صدر ایردوان نے کرنسی مضبوط کر دی ہے اور عام آدمی کا معیارِ زندگی پہلے سے بہتر ہو گیا ہے۔ اب ایسے مردِ حُر کو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں شکست دینے کیلئے چالاک اور نادان قوتیں یکجا ہو گئی ہیں، مگر صدارتی انتخاب میں طیب ایردوان نے 49.5 فی صد ووٹ حاصل کئے ہیں جبکہ اُن کا حریف 5فی صد پیچھے ہے۔پارلیمنٹ میں ایردوان کی پارٹی کو اکثریت مل گئی ہے۔ اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ طیب ایردوان کی اِس طرح مدد کی جائے کہ اُن کی پالیسیوں کو اِستحکام حاصل ہو اَور اُن کے بعض کمزور پہلوؤں کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی جائے۔ 1924ء میں ترکی اُمتِ مسلمہ سے کٹ گیا تھا جبکہ 2023ء میں وہ خلافتِ عثمانیہ کی شان و شوکت کی بازیابی کا ایک زندہ جاوید استعارہ بن چکا ہے۔ پورے ترکی میں مساجد کے مینار رَوشن ہیں اور خواتین حجاب اوڑھنے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔ اُنہیں 28 مئی کو رَن آف انتخابات میں 50فی صد سے زائد ووٹ ملنے چاہئیں تاکہ اسلام کا قلعہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوتا جائے۔ استنبول میں ایردوان نے 20 لاکھ کی ریلی سے خطاب کیا ہےا ور یہ اُمید قائم ہوئی ہے کہ رن آف انتخابات میں طیب ایردوان 50فی صد سے زائد ووٹ حاصل کر لیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین