ہمیشہ سے اعتماد تھا کہ میرا ذخیرہ الفاظ اتنا زرخیزتو ضرور ہے کہ خیالات کا اظہار کرسکوں۔ ہر طرح کے تصورات کو مرضی کے الفاظ میں ڈھال سکتا ہوں ۔ لیکن بدقسمتی سے اب ایسا نہیں ۔ موجودہ وقتوں کی سرانڈ میں بسا ذہن مفلوج ہوچکا۔ سوچ کے سوتے خشک ہیں ۔ الفاظ ملگجی دھند میں کھوگئے ۔ بیان کا اشتیاق بے دم ہوچکا ۔ انگلیاں کی بورڈ پر رکھتا ہوں تو ذہن میں تاریکی اتر آتی ہے ۔ خوف ناک بھوت اپنے مہیب ہیولوں کے ساتھ تعاقب میں ہیں ۔
وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ نائو اس منجدھار میں گھر جائے گی ۔ کبھی مشکل حالات کی اذیت اور گوشت نوچنے والے گدھوں اورخون آشام پرندوں کی ہمہ گیر یلغار کے باوجود امید بھر ادل دھڑک رہاتھا ۔ آس کی کھیتی ہری تھی ۔ یقین تھا کہ ادارے پاکستان کو اس تعفن زدہ دلدل سے نکال لیں گے ۔ لیکن اب تو نخل امید مرجھا چکا ۔ مایوسی کا اندھیرا گہرا ہونے لگا ہے ۔ہم مختلف قسم کے مافیا ز کی گرفت میں ہیں ۔ ان کی شیطانی جکڑ میں ملک بے پتوار کشتی بن چکا ہے ۔ طوفانی موجیں تھپیڑے مار رہی ہیں ۔ ناخدا منہ موڑ چکے ہیں ۔
بات بدترین سے بھی آگے بڑھ چکی ۔ اب جبر نئے معیار طے کرتے ہوئے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ملک کو یرغمال بنانے کی راہ پر ہے ۔ نومئی کے بدقسمت واقعات سے پہلے اور بعد میں تحریک انصاف کے قائدین اور کارکنوں کو اندھا دھند گرفتارکیا گیا ۔ گرفتار شدگان کے اہل خانہ، بشمول خواتین تک کا لحاظ نہ کیا گیا ۔ اُنھیں شرمناک طریقے سے ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اب تک ہونے والے تشدد میں پچیس افراد فائرنگ سے جاں بحق ہوچکے ہیں ۔پارٹی سے تعلق رکھنے والے پانچ ہزار سے زیادہ افراد زیر حراست ہیں۔
یہ سب کچھ ایک شخص، عمران خان کو ہدف بنانے کیلئےکیا جارہا ہے ۔ جس طریقے سے اُنھیں ان گنت جھوٹے اور من گھڑت مقدمات میں پچھلی مرتبہ گرفتار کیا گیا، اُن کی دوبارہ گرفتاری کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے ، اسے پاکستانی تاریخ کا بدترین سیاسی انتقام قراردیا جاسکتا ہے ۔ مقصد اُنھیں راستے سے ہٹانا ہے ۔ سیاسی طورپرشکست دینے میں ناکامی پر جسمانی طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ قاتلانہ حملے میں بال بال بچے ، اگرچہ اُن کی ٹانگ کا زخم ابھی پوری طرح مندمل نہیں ہوا۔ اپنی کوششوں میں ناکامی پر منصوبہ سازاب خان کو دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث کرکے سزا دینا اور ان کی پارٹی پر پابندی لگانا چاہتے ہیں ۔ اس کے بعد ہی وہ انتخابات کا انعقاد کرائیں گے تاکہ سیاسی اکھاڑے میں خان ان کے مدمقابل نہ ہواور وہ انتخابات جیت کر حکومت بنا لیں ۔
اُن کے ساتھیوں کو ڈرایا جارہا ہے کہ وہ اُن کا ساتھ چھوڑ دیں ۔ گرفتار ہونے والوں پر دبائو کہ وہ آزادی کے بدلے پارٹی چھوڑ دینے کا اعلان کریں ۔ مجموعی طور پر یہ کوشش بھی ناکام ثابت ہوئی ہے کیونکہ خان اور ان کے حامیوں پر ڈھائے گئے مظالم کے باوجودکوئی بھی تحریک انصاف کے علاوہ سیاسی مستقبل کہیں نہیں دیکھتا ۔ مزید برآں، خان نے معاشرے کے تمام طبقوں میں آگاہی پیدا کردی ہے ۔ وقت آنے پر اس کے نتیجے میں قابل بھروسا اور پائیدار نظام قائم ہوسکتا ہے اور اقدار اور اخلاقات سے تہی داماں اس نظام کی بساط لپٹ سکتی ہے جو ماضی میں ملک میں مستعمل رہا ہے ۔ اب دھمکی دی جارہی ہے کہ نو مئی سمیت مظاہروں میں شامل افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔ اس سے اس طبقہ اشراف کی گرفت مزید مضبوط ہوگی جو پہلے ہی اختلاف برداشت کرنے کا روادار نہیں ۔ ملک جس نہج تک پہنچا دیا گیا ہے ، یہ گراوٹ بہت دیر تک برقرار نہیں رہ سکتی ۔ کچھ نہ کچھ ہوگا۔ امید کی جاتی ہے کہ کچھ بھی ہو،نظام کا شیرازہ نہیں بکھرے گا ۔ آئین میں درج اصولوں کے گرد رہتے ہوئے صحیح و غلط اور قانونی و غیر قانونی کے درمیان فرق پیدا کرنے کا راستہ تلاش کیا جائے گا۔ یہاں رہنے والے لوگوں کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کیا جانا چاہئے تاکہ ان کے الفاظ میں امید اور رجائیت کا آہنگ مٹنے نہ پائے ۔
آج پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جس کے ستون نہیں ہیں۔ اس کی ادھوری پارلیمنٹ ہے جس میں پی ٹی آئی کو باہر رکھا گیا ہے۔ اس وقت اس کی نشستوں پر آئینی تعداد سے نصف اراکین ہیں۔ عدلیہ کو کھلے عام اور بے ہنگم طریقے سے تنقید کا سامنا ہے، آئین کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اسے محض ڈسپوزبل کاغذوں کا پلندہ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں مبینہ مجرموں کا ایک گروہ ہے جس نے حکومت کے نام پر ملک پر قبضہ جما رکھا ہے۔ کیا یہ پاکستان کی وہ شکل اور جہت ہے جسے ہم دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں؟
ملک کی بگڑتی صورتحال پر لکھنا انتہائی تکلیف دہ تجربہ ہے۔ جبر اور دبائو کے پیمانے نہیں ہوتے۔ وہ متعدد قسم کے ردعمل کو جنم دیتے ہیں جو ممکنہ طور پر پرتشدد کارروائیوں کی صورت پھیل سکتے ہیں۔ اگر اس صورت حال کو کنٹرول کرنا ہے تو ان وجوہات کا معروضی جائزہ لینا ہو گا جنھوں نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا اور جنھوں نے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی کہ وہ حکمران ٹولے پر اعتماد کرنے پر تیار نہیں۔ دوسری طرف جبر کی بے لگام حکمرانی عوام کے اعتماد کو مزید مجروح کر دے گی، بشرطیکہ ایسی کوئی چیز باقی رہ گئی۔ اس حوالے سے ہر گزرتے دن کی اہمیت ہے۔ ہر منٹ اہم ہے۔ ہوا میں حقیقی خطرے کی دھمک سنائی دے رہی ہے۔ لوگ ایسے وطن کے ساتھ وابستہ نہیں رہ سکتے جس کی نہ کوئی شکل ہو، نہ جہت۔ کھوکھلی بنیادوں پر اعتماد کی عمارت استوار نہیں ہو سکتی ۔
ٹی ایس ایلیٹ کا حوالہ دینا چاہوں گا:
’’میں پیغمبر نہیں ...اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں اپنی تابانی کا لمحہ دیکھ چکا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ ابدیت میں خدمت گار نے میرا لبادہ تھاما۔ قصہ مختصر یہ کہ میں خوف زدہ تھا۔‘‘