• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کے دور میں جب یہ فیصلہ ہوگیا کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے ہر اُس رہنماکو گرفتار کرنا ہے جو حق، سچ اور اپنی پارٹی کے قائد میاں نواز شریف کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے لئے آوازبلند کرتا ہے، تو پھر ان گرفتاریوں کیلئے نیب جیسے ادارے کو آلہ کار بنایا گیا اور احکامات یہ تھے کہ گرفتار پہلے کرنا ہے اور الزام بعد میں لگانا ہے، اس کے بعد تو شاید ہی کوئی اہم لیگی رہنما ہو جو گرفتاری سے بچ سکا ہو، گرفتار ہونے والے ان اہم رہنمائوں میں ن لیگ کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال بھی شامل تھے جنھیں پارٹی قیادت انکی پارٹی سے وفاداری اور ان کی قابلیت کی وجہ سے آج بھی انتہائی اہمیت دیتی ہے، جاپان کے کئی اہم سرکاری اور غیرسرکاری ادارے ان کو لیکچرز دینے کیلئے جاپان بلاتے ہیں، چین کے سرکاری حکام انہیں سی پیک منصوبے کو حقیقی شکل دینے والے ’’پروفیسر آف سی پیک‘‘ کا خطاب دیتے ہیں، لیکن انھیں بھی عمران خان کے براہ راست احکامات پر گرفتار کیا گیا اور پھر ان کے خلاف تحقیقات شروع کی گئیں لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ نیب تمام تر تحقیقات کے باوجود احسن اقبال کے خلاف بتیس روپے کی کرپشن کا کیس بھی نہیں بنا سکا، لہٰذا انھیں اپنے علاقے نارووال میں یونیورسٹی اور کھیل کا میدان بنانے پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا کیس چارج کیا گیا، جب وہا ں بھی کچھ ثابت نہ ہو سکا تو بالآخر رہا کردیا گیا، وقت بدلا عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور ن لیگ کی قیادت میں پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی تو ایک بار پھر ان کو وزارت منصوبہ بندی کا چارج دیا گیا، جس کے بعد ایک بار پھر ہنگامی بنیادوں پر سی پیک کے اہم ترین منصوبے، جس کو سابقہ حکومت نے منصوبہ بندی کے ساتھ تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا، کو پوری رفتار کے ساتھ متحرک کردیا گیا ہے۔ آج کل کی تیز ترین اور اکھاڑ پچھاڑ والی سیاست میں ایسا ہی لگتا ہے کہ پوری حکومتی ٹیم سیاست میں ہی مصروف رہتی ہو گی اور چند ماہ باقی رہنے والی حکومت میں تمام منصوبے جمود کا شکار ہو چکے ہونگے، لیکن ایسا بالکل نہیں۔ حال ہی میں چند دن اسلام آباد میں گزارنے اور چند حکومتی وزراء کی مصروفیات دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ وزرا اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کر کے پاکستان کی معیشت کو بحران سے نکالنے میں مصروف ہیں، احسن اقبال سے جس دن میری ملاقات طے تھی اس سے ایک دن قبل انھوں نے پورا دن کئی اہم سرکاری میٹنگز کی صدارت کی تھی، دوپہر کا کھانا شام چھ بجے کھایا تھا اور رات ساڑھے بارہ بجے گھر پہنچے تھے، اگلے روز صبح وزیر اعظم شہباز شریف سے ان کی ملاقات طے تھی اور وہاں سے وہ سیدھے اپنی وزارت کے دفتر پہنچے تھے جہاں بلوچستان کی معتبر سیاسی شخصیت اختر مینگل سے ان کی پہلی ملاقات شروع ہوئی، احسن اقبال نے چند اہم معاملات پر فوری احکامات جاری کئے، اس دوران وہ سرکاری فائلوں کے معائنے میں بھی مصروف تھے وہ فائلوں میں ایک ایک لفظ پڑھ بھی رہے تھے اور غلطیوں کی نشاندہی بھی کرتے جا رہے تھے ایسا نہیں تھا کہ وہ کوئی بھی لیٹر بغیر پڑھے دستخط کر رہے ہوں، اختر مینگل صاحب نے اجازت چاہی تو بڑے ادب و احترام سے ان کو وہ لفٹ تک چھوڑنے گئے۔ انھیں رخصت کر کے سیدھے کانفرنس روم پہنچے جہاں وفاقی سیکریٹری تعلیم اور ان کی ٹیم موجود تھی جبکہ پورے پاکستان سے کشمیر سمیت پانچوں صوبوں کے سیکریٹری تعلیم آن لائن اس اہم میٹنگ میں شریک تھے، جس میں ملک بھر میں دو کروڑ سے زائد بچے جو نظام تعلیم میں شامل نہیں ہیں انھیں کس طرح تعلیمی نظام میں شامل کیا جائے، اس میٹنگ میں احسن اقبال نے کئی منصوبوں کو حتمی شکل دی۔ ان کی وزارت کے دوران گوادر میں ایئر پورٹ، اسپتال، ڈیپ سی پورٹ کی صفائی سمیت درجنوں منصوبے دوبارہ پوری رفتار سے شروع ہو چکے ہیں، چینی حکومت مطمئن ہے، احسن اقبال کی کئی میٹنگز کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ ہر فائل کو انتہائی باریک بینی سے پڑھتے ہیں، بیوروکریسی کی غلطیاں بھی پکڑ لیتے ہیں، یہاں تک کہ ان کا املا بھی ٹھیک کراتے ہیں، نہ خود کوئی غلط کام کرتے ہیں نہ ہی کسی کو کرنے دیتے ہیں لہٰذا یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ماضی میں جس طرح وہ تین ہزار دو سو ارب روپے کے امین تھے مستقبل میں بھی ان پر کوئی کرپشن کا الزام نہیں لگا سکے گا۔

تازہ ترین