• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے اب تک کئی ملکوں میں جانے اور انھیں دیکھنے کا موقع ملا ہے لیکن اتفاق یہ ہے کہ عرب امارات کا یہ میرا پہلا دورہ ہے۔ یہاں آ کر اندازہ ہوا کہ عرب امارات نے کس طرح بڑی تیزی کے ساتھ زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کی ہے۔ امارات کی ترقی میں سترہ لاکھ پاکستانی اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ میں دبئی سے یہ کالم لکھ رہا ہوں اور یہاں ہمارے میزبان سرمد خان ہیں جو عرب امارات، پاکستان اور لندن کے علمی وادبی حلقوں میں خاصے مقبول ہیں ۔ پاکستان ایسوسی ایشن دبئی نے بھی ہمارے اعزاز میں خصوصی تقریب کا اہتمام کیا۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ عرب امارات میں رہنے والے پاکستانی حالیہ چند دنوں میں ہونے والی پاکستانی صورتحال کے بارے میںکافی پریشان اور فکرمند ہیں۔ہمارے اس دورے کا مقصد امارات کی ترقی میںپاکستانی کمیونٹی کا کردار، دبئی و شارجہ میں لائبریریوں کا وزٹ اور یہاں عرب ممالک میں پاکستانی ادب کے فروغ کےلئے اہل قلم اور احباب سے ملاقاتیں کرنا تھا۔مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ پاکستان ایسوسی ایشن دبئی پاکستانی کمیونٹی کے مسائل کے حل کے لئے شب و روز خدمات انجام دے رہی ہے۔ PAD کا ادارہ اوور سیز پاکستانیوں کے لئے رول ماڈل بن چکا ہے۔ پاکستان ایسوسی ایشن کے عہدیدارنے ہمیں اس ادارے میں موجود پاکستان میڈیکل سنٹر ، شعبہ اسپورٹس ، لائبریری۔ آڈیٹوریم اور خواتین کی فلاح و بہبود کےلئے بریفنگ دی۔ اس ادارے کا وزٹ کر کے اندازہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے پاکستانی افراد کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ پاکستان ایسوسی ایشن دبئی کی خصوصی تقریب سے اظہار خیال کرتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی خدمات لائق تحسین ہیں یہ ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔ ویسے تو پورا عرب امارات ہی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہےلیکن دبئی ان میں اپنی مثال آپ ہے ۔ دبئی میں دو سو نیشنلٹی رکھنے والے افراد موجود ہیں ، زندگی بڑے امن و سکون کے ساتھ رواں دواں ہے۔ کوئی لڑائی جھگڑا یا تعصب نہیں ہے ہر فرد ایک دوسرے کا احترام کرتا ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں میں وطن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ایسے کئی پاکستانی ہیں جو پچھلے پینتیس چالیس سال سے امارات میں قیام پذیر ہیں۔ان کی مسلسل محنت کی ایک کامیاب داستان ہے۔ اکثر نے زیرو سے ہیرو تک کا سفر مسلسل محنت سے کیا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ ملاقاتوں میں یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ عرب امارات میں موجود پاکستانی ہر سال محنت و مشقت کر کے خطیر زرمبادلہ پاکستان بھجواتے ہیں لیکن ان کے ساتھ وطن واپسی پر اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ پاکستانی ائیرپورٹ پر عملے کا رویہ اچھا نہیں ہوتا بلکہ انھیں تنگ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بیرون ملک ووٹ کا حق بھی اوور سیز پاکستانیوں کو ملنا چاہئے۔ اوور سیز پاکستانیوں کی اندرون ملک پراپرٹی پر ناجائز قبضے ختم کرانے کے لئے بھی حکومت پاکستان کو فوری ایکشن لینا چاہئے۔ دبئی میں پاکستانی قونصلیٹ جنرل حسن افضل خان سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ عرب امارات میں پاکستانی ایمبیسی اور دبئی قونصلیٹ دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید بہتری اور تجارت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر رہےہیں۔ اس وقت پاکستان اور امارات کے درمیان دس ارب ڈالر سے زائد سالانہ تجارت ہو رہی ہے۔ قونصل جنرل نے بتایا کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان وفود کا تبادلہ اور ادب و ثقافت کے فروغ کے لئے کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی کے بچوں کو تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے لئے قونصلیٹ اور سفارتی مشن خدمات انجام دے رہا ہے ۔ایک اور اہم مسئلے کی جانب ہم نے پاکستانی قونصلیٹ جنرل کی توجہ مبذول کروائی کہ متحدہ عرب امارات کی جیلوں میں اس وقت ہزاروں قیدی ہیں جو ڈرگز اسمگلنگ میں سزا بھگت رہے ہیں۔اس حوالے سے ہمارے سفارت خانے اور پاکستانی حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں۔ یہ صورتحال ہماری بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔ ایسے پاکستانی قیدی جن کی سزائیں پوری ہو چکی ہیں مگر وہ تھوڑے سے جرمانے کی وجہ سے رہا نہیں ہو پارہے ان کی رہائی کے لئے پاکستانی حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ایک اور اہم بات ہمارے میزبان سرمد خان نے بتائی کہ دبئی میں میٹرو ٹرین کا بہترین نظام موجود ہے۔ ہمارے اکثر پاکستانی بھائیوں کو پتہ ہی نہیں ہے کہ دبئی ائیرپورٹ کے ساتھ ہی میٹرو ٹرین منسلک ہے جو ہر پانچ منٹ کے بعد آتی ہے۔ پورا دبئی اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔جو پاکستانی دبئی ائیرپورٹ پہنچتے ہیں ، اگر ان کے موبائل میں مطلوبہ مقام کی لوکیشن موجود ہے تو وہ ٹرین کے ذریعے کم وقت اور کم خرچ میں اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ۔عرب امارات۔ پاکستان کا برادر اسلامی ملک ہے اور اس کےہم سے دیرینہ مثالی تعلقات ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات کو آگے بڑھانے کے لئے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ عرب امارات نے ہر نازک موڑپر پاکستان کا ساتھ نبھایا ہے۔ سعودی عرب، عرب امارات، ترکیہ، ایران اور پاکستان مل کر چین اور روس کے اشتراک سے اس خطے کی تعمیر و ترقی کے عمل میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

تازہ ترین