• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب الیکشن نظرثانی کیس، پی ٹی آئی نے جواب جمع کرا دیا

فائل فوٹو
فائل فوٹو

پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کے حکم پر الیکشن کمیشن کی نظرثانی کی درخواست پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے جواب جمع کرا دیا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل تھے۔

پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کی استدعا

تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کی استدعا کر دی۔

پی ٹی آئی نے جواب میں کہا ہے کہ نظرثانی اپیل میں الیکشن کمیشن نے نئے نکات اٹھائے ہیں، نظرثانی اپیل میں نئے نکات نہیں اٹھائے جاسکتے، الیکشن کمیشن نظرثانی اپیل میں نئے سرے سے دلائل دینا چاہتا ہے۔

عدالت نے 90 دن میں انتخابات کیلئے ڈیڈ لائن مقرر کی، تحریک انصاف

جواب میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کوئی تاریخ نہیں دی، عدالت نے 90 دن میں انتخابات کے لیے ڈیڈ لائن مقرر کی، صدر مملکت نے انتخابات کے لیے 30 اپریل کی تاریخ دی، الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کی تاریخ کو تبدیل کر دیا۔

تحریک انصاف نے کہا کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر 30 اپریل کی تاخیر کو کور کیا، 30 اپریل کی تاریخ میں 13 دن کی تاخیر ہوئی، عدالت نے فیصلے میں 13 دن کی تاخیر کو کور کیا، الیکشن کمیشن چاہتا ہے سپریم کورٹ نظریہ ضرورت کو زندہ کرے۔

نظریہ ضرورت دفن کیا جا چکا جسے زندہ نہیں کیا جا سکتا، پی ٹی آئی

جواب میں کہا گیا ہے کہ نظریہ ضرورت دفن کیا جا چکا جسے زندہ نہیں کیا جا سکتا، 90 دنوں میں الیکشن آئینی تقاضہ ہے، آرٹیکل 218 کی روشنی میں آرٹیکل 224 کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، آئین اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دیتا ہے، آئین میں نہیں لکھا تمام انتخابات ایک ساتھ ہوں گے۔

پی ٹی آئی نے جواب میں یہ بھی کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے کہنے پر سپریم کورٹ آئین میں ترمیم نہیں کر سکتی، آرٹیکل254 کے لیے 90 دنوں میں انتخابات کے آرٹیکل 224 کو غیر مؤثر نہیں کیا جا سکتا، آئین کے بغیر زمینی حقائق کو دیکھنے کی دلیل نظریہ ضرورت اور خطرناک ہے، ایسی خطرناک دلیل ماضی میں آئین توڑنے کے لیے استعمال ہوئی، عدالت ایسی دلیل کو ہمیشہ کے لیے مسترد کر چکی ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ وفاق اور پنجاب حکومت کا جواب ابھی ملا ہے، پی ٹی آئی نے تحریری جواب جمع نہیں کرایا۔

وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی جواب پہلے سے مجھے فراہم نہیں کیا گیا۔

 کیا ہم آپ کی مدد کریں کہ جوابات میں کیا کہا گیا ہے؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا ہم آپ کی مدد کریں کہ جوابات میں کیا کہا گیا ہے؟ پہلے آپ نے یہ بتانا ہے کہ کیسے نظرثانی درخواست میں نئے گراؤنڈز لے سکتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز سپریم کورٹ نے خود آئین کے تحت بنائے ہیں، سپریم کورٹ کرمنل اور سول دائرہ اختیار سے باہر اختیارات استعمال نہیں کر سکتا۔

وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے نظرثانی کے اختیار کا آرٹیکل 188 اختیارات کو محدود نہیں کرتا، بڑھاتا ہے۔

آئین سپریم کورٹ کو اپنے فیصلوں پر نظرثانی کی اجازت دیتا ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین سپریم کورٹ کو اپنے فیصلوں پر نظرثانی کی اجازت دیتا ہے، اب آگے چلیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 184 تھری کے تحت کارروائی سول نوعیت کی نہیں ہوتی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 184 تھری کا ایک حصہ عوامی مفاد دوسرا بنیادی حقوق کا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ اگر انتخابات کا مقدمہ ہائی کورٹ سے ہو کر آتا تو کیا سول کیس نہ ہوتا؟

ہائیکورٹ کا آئینی اختیار سپریم کورٹ سے زیادہ ہے، وکیل الیکشن کمیشن

وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ کا آئینی اختیار سپریم کورٹ سے زیادہ ہے۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کے مطابق نظرثانی کا دائرہ اختیار محدود نہیں بلکہ طریقہ کار محدود ہے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ نظرثانی کیس میں اپنے دائرہ اختیار کا فیصلہ کیوں کرے؟

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ آئین میں درج اپنے تمام دائرہ کار کو یکجا کر کے استعمال کر سکتا ہے؟

سپریم کورٹ کیوں اپنے دائرہ اختیار میں ابہام پیدا کرے؟ جسٹس منیب اختر

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ سے اپیل آئے تو آپ کے مطابق عدالتی دائرہ کار محدود ہے، نظرثانی کیس میں آپ کا مؤقف ہے کہ دائرہ محدود نہیں، کیا یہ بنیادی حقوق کے مقدمہ کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں؟ سپریم کورٹ کیوں اپنے دائرہ اختیار میں ابہام پیدا کرے؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 184 تھری میں اپیل کا حق نہیں، اپیل کا حق نہ ہونے کی وجہ سے نظرثانی کا دائرہ محدود نہیں کیا جا سکتا۔

اصل سول دائرہ کار ہائیکورٹ کو حاصل ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اصل سول دائرہ کار ہائی کورٹ کو حاصل ہے۔

 وکیل سجیل سواتی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے،  24 سے زائد فیصلے پڑھے لیکن نظرثانی اختیار کی حد کسی میں لکھی نہیں گئی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا پتا آئین سازوں نے نظرثانی کا دائرہ کار محدود اس لیے رکھا ہو کہ مرکزی کیس کے متن سے باہر نہ جایا جائے، ہم اس کو نظرثانی کے بجائے ایک ہی کیس کی دوبارہ سماعت کیوں نہ کہیں؟

آئینی مقدمات میں نیا نکتہ اٹھایا جا سکتا ہے، وکیل سجیل سواتی

وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ عدالت کو نظرثانی میں انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا ہے، عدالت کو نظرثانی میں ضابطہ کی کارروائی میں نہیں پڑنا چاہیے، آئینی مقدمات میں نیا نکتہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

جسٹس منیب نے وکیل سجیل سواتی سے سوال کیا کہ کیا آپ کی دلیل ہے 184 تھری میں نظرثانی کی سماعت اپیل کی طرح کی جائے؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ بالکل میں یہی کہہ رہا ہوں، 184 تھری میں نظرثانی دراصل اپیل ہی ہوتی ہے، 184 تھری کے مقدمے میں نظرثانی کا دائرہ اختیار محدود نہیں ہونا چاہیے۔

آپ نے دلائل میں بڑے اچھے نکات اٹھائے ہیں، چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دلائل میں بڑے اچھے نکات اٹھائے ہیں، ان نکات پر عدالتی حوالہ جات اطمینان بخش نہیں ہیں، آپ اپنے دلائل میں صرف نظرثانی تک محدود رہیں۔

سپریم کورٹ کا 4 اپریل کا فیصلہ

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 4 اپریل کو فیصلے میں 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔

14 مئی کی ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود عدالتی حکم پر عملدرآمد نہیں ہو سکا، 3 مئی کو الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے پر نظرثانی کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے انتخابات میں تاریخ دینے پر اعتراض اٹھایا تھا۔

سپریم کورٹ نے 15 مئی کو کیس کی سماعت کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کیا تھا۔

قومی خبریں سے مزید