• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فائل فوٹو
فائل فوٹو

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کے اجلاس میں نئے مالی سال2023-24 کے بجٹ سے متعلق تجاویز کا جائزہ لیا گیا۔

چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی زیرِ صدارت اجلاس میں پاکستان بزنس کونسل نے آمدن پر سپر ٹیکس برقرار رکھنے کی مخالفت کردی۔

پاکستان بزنس کونسل کا کہنا ہے کہ حکومتی آمدن بڑھانے کے لیے نئے ٹیکس دہندگان کو نیٹ میں لایا جائے، کاروباری طبقہ پہلے ہی منافع پر ٹیکس دے رہا ہے، سپر ٹیکس ایک بار لگایا گیا تھا جسے برقرار رکھنے کا جواز نہیں۔

پاکستان بزنس کونسل نے ریئل اسٹیٹ اور ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا مطالبہ کیا۔

پاکستان بزنس کونسل کے مطابق ریئل اسٹیٹ اور ریٹیل سیکٹر سے 747 ارب روپے ٹیکس وصولی کی گنجائش ہے۔

پاکستان بزنس کونسل نے اسمگلنگ پر قابو پانے، کاروباری لاگت میں کمی اور ایز آف ڈوئنگ بزنس کا بھی مطالبہ کیا

پاکستان بزنس کونسل کا کہنا ہے کہ کاروبار کرنے کے لیے سب کو یکساں مواقع دیے جائیں، پاکستان میں ٹیکس کے بوجھ کو درست طریقے سے تقسیم نہیں کیا گیا۔

پاکستان بزنس کونسل کا کہنا ہے کہ ملک کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کم ہے، پاکستان خطے میں ٹیکس محصولات میں سری لنکا، بھارت اور بنگلادیش سے پیچھے ہے۔

پی بی سی کے مطابق پیداوار میں کمی سے بیروزگاری جیسے مسائل کا سامنا  ہے، سپر ٹیکس کو ہمیشہ کے لیے نافذ کرنے کی افواہیں ہیں، حکومت کاروبار کے منافع پر ٹیکس لگا کر کاروبار سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔

مارکیٹیں، کاروباری مراکز شام 7 بجے تک بند کرنے کا مطالبہ

اس موقع پر شیری رحمٰن نے کہا کہ معاشی بہتری کے لیے  قرضوں پر انحصار کی پالیسی ترک کرنا ہوگی، ہمیں معاشرتی رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا اور مارکیٹوں کو جلد بند کرنا ہوگا۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ توانائی کی بچت ضروری ہے کیونکہ ہم درآمد کر کے ضروریات پوری کر رہے ہیں، دوست ملک ہم سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان اس وقت کیا اصلاحات کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جی ڈی پی کا 11 فیصد نقصان ہوا ہے، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے نقصانات پر قابو پانا بھی ضروری ہے۔

تجارتی خبریں سے مزید