• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکیم محمد سعید مرحوم، ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم اور عبدالستار ایدھی مرحوم کے درجات کی بلندی کیلئے دعائوں اور ان کی دوراندیشی کو سلام پیش کرنے کے بعد عرض ہے کہ جب عمران خان ڈونلڈ ٹرمپ سے ملنے کے بعد جشن مناتے ہوئے آئے تو 10 اگست 2019 کو جنگ میں ”کشمیر اور امریکی اسکرپٹ کے زیرعنوان“ اپنے کالم میں، میں نے لکھا کہ:

” دوسری تبدیلی یہ آئی ہے کہ امریکہ کیلئے اب القاعدہ اور طالبان نہیں بلکہ چین پہلی ترجیح بن گیا ہے۔ چین کے مقابلے کیلئے جہاں وہ دیگر اقدامات کر رہا ہے وہاں اس کی ضرورت ہے کہ بھارت کو اس کے مقابلے کے قابل بنانے کیلئے پاکستانی سائیڈ سے مطمئن کردیا جائے اور دوسری طرف پاکستان کو بہلا پھسلا کر چین اور روس کی طرف مزید قریب جانے سے باز رکھا جائے چنانچہ ایک طرف افغانستان میں پاکستان کی ضرورت ہے تو دوسری طرف خطے سے متعلق امریکہ کے ذہن میں یہ نقشہ ہے، اسی لئے وہ وقتی طور پر پاکستان پر مہربان ہوا ہے۔“کشمیر کے معاملے میں امریکہ کی شہہ پر عمران خان کے دور میں انڈیا نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے لیکن اصل ہدف یہ تھا کہ امریکہ نے عمران حکومت کے ذریعے سی پیک کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے چین کو ناراض کیا۔‘‘

افغانستان سے امریکی افواج کے نکلنے کے بعد امریکہ کیلئے پاکستان کی واحد محتاجی ختم ہوگئی اور افغانستان میں بھی بین الافغان مذاکرات کی کامیابی سے قبل عمران خان حکومت نے اس کے ساتھ بھرپور تعاون کرکے قطر ڈیل کروائی جس کی وجہ سے امریکہ کی آزمائش ختم ہوگئی اور افغانستان کے پڑوسیوں کی آزمائش کا آغاز ہوگیا۔ دوسری طرف امریکہ کی چین اور روس کے ساتھ سرد جنگ گرم ہونے لگی۔ یہی وقت تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو چین سے دور کرنے اور سی پیک کو مکمل رول بیک کرنے کیلئے بھرپور دبائو ڈالنا تھا اور اس کیلئے عمران خان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی صفوں میں ان کے سرپرست انہیں درکار تھے۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کو پہلے بھی چین کے ساتھ سی پیک شروع کرنے کی سزا ملی تھی اور امریکیوں کو یقین تھا کہ اب جب یہ دونوں پارٹیاں اقتدار میں ہوں گی تو پاکستان کو چین سے دور کرنا مشکل ہوگا۔ چنانچہ اس نے پوری قوت کے ساتھ پاکستان کو بلیک میل کرنا شروع کیا ۔پہلے آئی ایم ایف سے شہباز حکومت کی ناک رگڑوا دی اور اب تمام جائز اور ناجائز شرائط پوری کرنے کے باوجود آئی ایم ایف پاکستان کو نئی قسط نہیں دے رہا۔ چین ہمیں اس بحران سے نکال سکتا تھا لیکن اسے عمران خان اور ان کے عسکری سرپرستوں نے اس قدر بدگمان کردیا تھا کہ اسے شک تھا کہ کہیں عمران خان دوبارہ نہ آجائے۔اس لئے وہ پاکستان کی مدد کیلئےآگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے دورہ چین اور ڈی جی آئی ایس آئی کی خاموش رابطہ کاری سے چین کو دوبارہ راضی کرلیا گیا۔ اس نے سی پیک کے دوسرے مرحلے (جو 2019میں شروع ہونا تھا) پر کام کے آغاز کیلئے آمادگی ظاہر کی اور ریلوے لائن منصوبے پر بھی دوبارہ کام کا آغاز ہوا تو مغربی سرپرستوں نے عمران خان کو پوری قوت کے ساتھ نئی عسکری قیادت کے خلاف حملہ آور کروا دیا۔ ایسا نہیں کہ پورا امریکہ عمران خان کے ساتھ کھڑا ہے لیکن نیوکانز اور برطانیہ میں گولڈ اسمتھ پوری طرح ان کے ساتھ ہیں اور یہ پٹی ان کی پڑھائی ہوئی تھی کہ آپ امریکی سازش کا ڈرامہ رچالیں تاکہ کوئی آپ پر شک نہ کرے۔ حالانکہ درپردہ عمران خان جو کچھ کررہا تھا ان لوگوں کی شہہ پر کررہا تھا ۔‘‘ آج سے آٹھ ماہ قبل جب پی ٹی آئی کے ہر سپورٹر کے منہ پر امریکی سازش اور ابسلیوٹلی ناٹ کے ابسلیوٹ جھوٹ کا نعرہ تھا، میں نے 24 ستمبر 2022 کےروزنامہ جنگ میں ایوان صدر میں ”چیف نیازی ملاقات ۔حقائق اور نتائج“ کے زیرعنوان لکھا کہ :”نوبت یہاں تک آئی کہ افغانستان کیلئے امریکہ کے سابق نمائندے زلمے خلیل زاد سے بھی آرمی چیف کو درخواستیں کروائی گئیں کہ وہ عمران نیازی سے ایک ملاقات کرلیں۔ واضح رہے کہ امریکی نیوکانز کے رکن زلمے حکومت کی تبدیلی کے ایک ماہ بعد پاکستان آئے تھے اور نیازی صاحب سے خفیہ اور طویل ملاقات کی تھی“۔

تب کسی کو میرے اس دعوے پر یقین آیا اور نہ کسی نے اس کا نوٹس لیا لیکن اب جب نیوکانز اور اسمتھ فیملی کو محسوس ہوا کہ پروجیکٹ عمران خان لپیٹا جارہا ہے تو انہوں نے پوری قوت کے ساتھ چیخ و پکار شروع کردی۔ عمران خان کے حق میں نہ روس کی طرف سے آواز بلند ہوئی، چین کی طرف سے ، ترکی اور نہ سعودی عرب جیسے دوست کی طرف سے بلکہ قیامت برپا ہے تو امریکہ میں ہے۔ زلمے خلیل زاد، شیرمن اور درجنوں ممبران کانگریس نے پی ٹی آئی کے ساتھ (ان کے بقول)زیادتیوں پر رونا دھونا شروع کیا ہے۔ حالانکہ 9 مئی پاکستانی فوج کیلئے نائن الیون سے بڑا حادثہ ہے۔ نائن الیون کو القاعدہ نے صرف امریکہ کی معاشی اور فوجی طاقت کے نشانات کو ہٹ کیا تھا ، جس کے بعد گوانتاموبے کا عقوبت خانہ بنایا۔ جہاں فوجی سزائیں دیتے رہے۔ امریکی سرزمین کا قانون وہاں پر اپلائی نہیں تھا اور فوجی عدالتیں القاعدہ اور طالبان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کرتی رہیں۔ زلمے خلیل زاد جب افغانستان میں سفیر تھے تو حامد کرزئی کے اعتراض کے باوجود امریکی فوجی رات کو گھروں میں گھس کر مرد وخواتین پر مظالم ڈھاتے رہے لیکن آج وہ زلمے خلیل زاد عمران خان سے بھی زیادہ بشریٰ بی بی کی متوقع گرفتاری پر شور مچارہا ہے۔ 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ اور بلووں میں ملوث لوگوں کا جرم اس لئے شدید تر ہے کہ انہوں نے پاکستانی شہدا کی یادگاروں کی بھی بے حرمتی کی۔ حالانکہ امریکی کلیے کے مطابق تو 9 مئی کے ذمہ داروں کے ساتھ ایسا سلوک ہونا چاہئے تھا جیسا امریکیوں نے نائن الیون کے ذمہ داروں اور سہولت کاروں کے ساتھ گوانتاناموبے میں کیا۔ امریکہ کے قائم کردہ گوانتاموبے، ابو غریب اور بگرام کی جیلوں میں فوجیوں کے مظالم اور ان کی نام نہاد عدالتوں کے خلاف کسی عدالت میں اپیل نہیں ہوسکتی تھی جبکہ پاکستان میں جو خصوصی عدالتوں کی سزا ہوگی تو اس کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکے گی۔ دوسری طرف جب پشاور ہائی کورٹ کے سیٹھ وقار مرحوم کی قیادت میں ایک بنچ نے ان عدالتوں کے تحت سزا پانے والے تقریبا ًدو سو افراد کو2020 میں رہا کیا تو عمران خان حکومت سپریم کورٹ میں اپیل میں گئی اور سپریم کورٹ نے اس کے خلاف حکم امتناع جاری کیا۔ تب تو امریکہ یا عمران خان کو ان عدالتوں پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ کیا اس لئے کہ وہ داڑھی والے اسلامی انتہاپسند تھے اور پی ٹی آئی کی طرح نیوکانز کا اثاثہ اور لبرل انتہاپسند نہیں تھے؟۔

تازہ ترین