• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انگریزی زبان میں ـ’’کلٹــ‘‘یعنی فرقہ، شخصیت پرستی کی بنیاد پر جمع ہونے والے ان جانثاروں کے جتھے کو کہتے ہیں جن کی جدوجہد کا محور ان کا مرشدیا قائد ہوتا ہے۔بالعموم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید فرقہ یا مسلک مخصوص مذہبی سوچ یا نظریات کی بنیاد پر ہی متشکل ہوسکتا ہے لیکن27مارچ 2023ء کو انہی صفحات پر’’‘‘فرقہ عمرانیہ،کیوں اور کیسے؟‘‘کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں یہ تفصیل بیان کی جاچکی ہے کہ مائنڈ کنٹرول کے ذریعے ’’کلٹ‘‘بنائے جانے کے امکانات بہت وسیع ہیں۔مذہبی فرقےکے علاوہ سیاسی وابستگی کی بنیاد پر’’کلٹ‘‘بنایا جا سکتا ہے، کمرشل کلٹ کی مثالیں موجود ہیں،پرسنیلٹی کلٹ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔لیکن آج ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’کلٹ لیڈر‘‘کس طرح کے انجام سے دوچار ہوتے ہیں ۔جرمن ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر نہ صرف فاشسٹ حکمران تھے بلکہ ان کا شمار بھی ’’کلٹ لیڈرز‘‘ میں ہوتا ہے۔اپنے دورِ اقتدار میں انہوں نے مخالفین کی سرکوبی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران جب روسی افواج کی پیشقدمی کا سلسلہ جاری تھا تو ہٹلر نے اپنی زندگی کے آخری ایام 50فٹ زیر زمین بنائے گئے ایک بنکر میں گزارے۔ہٹلر نے اپنی زندگی کے آخری دن اپنی محبوبہ ایوا برائون سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ 30اپریل کو رات 12بج کر 30منٹ پر روسی فوجیوں کی شدید گولہ باری کے دوران شادی کی تقریب منعقد ہوئی۔ہٹلر کے ساتھی گوئبلز نے بطور گواہ دستخط کئے۔اگلی صبح ہٹلر نے اپنے جرنیلوں سے ملاقات کی اور کہا کہ انجام قریب ہے۔اس نے سائنائیڈ کے کیپسول منگوائے اور یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ قابل بھروسہ ہیں یا نہیں ،اپنے پیارے کتے کو ایک کیپسول کھلادیا۔تجربہ کامیاب رہا۔’’بلونڈی‘‘کا کام چند سیکنڈز میں ہی تمام ہوگیا۔دوپہر ڈھائی بجے ہٹلرنے آخری کھانا کھایا۔200لیٹر پیٹرول منگوایا اور ذاتی محافظ ہینز لنج کو کہا ’میری موت کے بعد تم میری لاش کو چانسلر کے باغ میں لے جانا اور اسے آگ لگا دینا۔ میری موت کے بعد کوئی مجھے نہ دیکھے اور نہ ہی مجھے پہچان پائے۔اس کے بعد تم میرے کمرے میں واپس جانا اور میری وردی، میرے کاغذات، ہر وہ چیز جو میں نے استعمال کی ہے اسے اکٹھا کرکےان سب کو بھی آگ لگا دینا۔ صرف انٹن گراف کی ’فریڈرک دی گریٹ‘ کی آئل پینٹنگ کو ہاتھ مت لگانا۔ یہ میرا ڈرائیور میری موت کے بعد برلن سے بحفاظت باہر لے جائیگا۔‘‘یوں ہٹلر نے شکست کے خوف سے خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی۔لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کڑے وقت میں بھی اس کے ساتھیوں نے وفاداری کی سنہری مثال قائم کی۔گوئبلز نے اپنے قائد کی تقلید کرتے ہوئے بیوی میگڈا کو ہدایت کی کہ اپنے 6بچوں کو مارفین دے دو تاکہ وہ سوتے ہوئے زندگی کی قید سے آزاد ہوجائیں۔بچے قربان ہوچکے تو گوئبلز اور اس کی بیوی میگڈا دونوں نے زہریلا کیپسول کھا کر خودکشی کرلی تو ہٹلر کی طرح انہیں بھی نذر آتش کردیا گیا۔

بیسیویں صدی میں جتنے بھی ’’کلٹ لیڈر ‘‘سامنے آئے ان میں سے کوئی بھی طبعی موت نہیں مرا ۔مثال کے طور پر گیانا کے گائوں جونز ٹائون میںجو 918امریکی شہری ایک مذہبی کلٹ کے چنگل میں پھنس کر مارے گئے،ان کی قیادت کرنے والے امریکی Jim Jones نے اپنے پیروکاروں کے ہمراہ خودکشی کرلی تھی۔Solar Templeکے نام سے ’’کلٹ ‘‘متعارف کروانے والے Joseph Di Mambroجن کی تقلید کرتے ہوئے اکتوبر 1994ء میں بیک وقت 53لوگوں نے موت کو گلے لگالیا تھا اور پھر بعد میں بھی اس ’’کلٹ‘‘کے بعض لوگ مارے گئے،اس ’’کلٹ لیڈر‘‘نے بھی بیوی سمیت خودکشی کرلی تھی۔امریکی شہر سان ڈیاگو میں Heaven's gateکے نام سے ایک ’’کلٹ ‘‘سامنے آیا ۔جس کے پیشوا Marshall Apple Whiteنے 26مارچ 1997ء کو اپنے 39پیروکاروں سمیت خودکشی کرلی تھی۔ایک اور امریکن ’’کلٹ لیڈر‘‘جس کا نام David Koreshتھا،اس کے آستانے پر امریکی ایجنسی ایف بی آئی نے ریڈ کیا تو اس کارروائی کے دوران وہ پراسرار انداز میں مارا گیا۔روسی’’ کلٹ لیڈر‘‘ Grigori Rasputinکو 17دسمبر1916ء کو نامعلوم افراد نے قتل کردیا۔بھارتی ’’کلٹ لیڈر‘‘رجنیش جو ’شری بھگوان رجنیش ‘ یا ’اوشو‘ کہلایا کرتے تھے ۔19جنوری 1990ء کو پونا کے آشرم میں پراسرار انداز میں مارے گئے۔اگرچہ سرکاری طور پر موت کا سبب ہارٹ اٹیک بتایا گیا مگر ان کے پیروکاروں نے بتایا کہ گرو جی اس لئے مر گئے کہ جسم میں ان کی زندگی جہنم ہوچکی تھی۔جاپانی ’’کلٹ لیڈر‘‘Shoko Asaharaاس حوالے سے منفرد ہیں کہ انہوں نے خودکشی نہیں کہ بلکہ مقدمہ چلانے کے بعد انہیں سزائے موت سنائی گئی اور 6جولائی 2018ء کو پھانسی دیدی گئی۔

حاصل کلام یہ ہے کہ بالعموم ’’کلٹ لیڈر‘‘طبعی موت نہیں مرتے ۔جب انہیں شکست نوشتہ دیوار کی طرح دکھائی دینے لگتی ہے تو وہ اپنے چاہنے والوں کے ساتھ موت کو گلے لگالیا کرتے ہیں اور سب کچھ جلا دینے کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان پر بھی اپنی پرسنلیٹی کلٹ بنانے کا الزام ہے ۔گزشتہ روز ان کا ایک بیان دیکھا تو تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ انہوں نے فرمایا ’’میری مرضی، چاہوں تو بنی گالہ والے گھر کو آگ لگا دوں۔‘‘ لیکن غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ بیان انہوں نے اکتوبر 2015ء میں کسی اور تناظر میں دیا تھا۔ ان کے پاس جتنے گوئبلز تھے ،وہ سب ساتھ چھوڑتے جارہے ہیں۔ ان حالات میں ان کے چاہنے والوں ،پیروکاروں اور وفادارساتھیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ انہیں تنہائی اور مایوسی کا شکار نہ ہونے دیں۔

تازہ ترین