• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچپن میں ایک کہانی سنی تھی کہ شیخ چلی جس درخت کی شاخ پر بیٹھے تھے کلہاڑی لئے اسی کو کاٹ رہے تھے پاس سے کوئی سیانا گزرا تو کہا اسے مت کاٹو وگرنہ نیچے گر پڑو گے مگر شیخ چلی نے بات سنی ان سنی کر دی البتہ کلہاڑی تھوڑی اور چلائی تو دھڑام سے نیچے آن گرے، فوراً سمجھانے والے کے قدموں میں بیٹھ گئے کہ آپ تو بڑے دانا ہیں، وہ بولا اس میں دانائی والی کون سی بات ہے یہ تو کامن سینس کی بات ہے ۔ افسوس کہ جسے کامن سینس کہا جاتا ہے وہ کامن ہوتی نہیں جس کی وجہ سے لوگ بالعموم سراب کو دریا سمجھ کرطویل سفر کی صعوبت اٹھاتے ہیں اور پھر اپنا ماتھا آپ پیٹتے ہیں بالخصوص شخصیات کو سمجھنے کے معاملے میں۔ ہمارے لوگ رہزن کو رہبر سمجھنے لگتے ہیں اور جب جذباتیت کا نشہ اترتا ہے توپھر خود کویا رہبر صاحب کو کوستے پائے جاتے ہیں۔ درویش کو کبھی سمجھ نہیں آئی کہ آخر ہمارے لوگ کسی ہوشمند، حقائق آشنا یا کسی گہری نگاہ رکھنے والے دوراندیش مدبر کو پسند کیوں نہیں کرتے ؟یہاں جو ہینڈسم چکنی چپڑی تقاریر کرلیتا ہے ہماری قوم اس کی محبت میں ایسی گرفتار ہوتی ہے کہ اسے اپنا رہبر و رہنما بلکہ نجات دہندہ سمجھ لیتی ہے چلو اگر نو عمری میں ایسی غلطی ہو بھی جائے تو وقت کے ساتھ شعور وفہم یا سنجیدگی آ جانی چاہئے۔

یہ کوئی پچھلی صدی کی آخری دہائی کے نصف کی بات ہے جب اس خاکسار نے ایک صحافی کی حیثیت سے اس عظیم قومی ہیرو کا پہلی مرتبہ تفصیلی انٹرویو اس کے گھر پر کیا تو اس ایک ملاقات میں چودہ طبق روشن ہوگئے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا کہ’’ تجھے کیا سمجھا تھاتو کیا نکلا‘‘ اپنی ذات کے خول میں بند، خود نمائی و خود ستائی کی دلدل میں ڈوبا ہوا مغرور شخص چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ اور گفتگو میں جعلی دانش، اف میرے خدایا میں اس شخص کو دور سے کیا سمجھا تھا اس سے تو مجھے ایڈولف ہٹلر کی بو بھی آئی،سیاست سے تو اس کا کچھ لینا دینا نہیں ہو گا ۔

واپس آکر جو کچھ لکھا وہ بن لادن پر لکھے کی طرح بے جان بنا کر شائع کیا گیا آج سبھی بڑے سیانے بنے بہت کچھ لکھ بول رہے ہیں اتنا کھلواڑ کروانے کے بعد جب ڈراپ سین ہوا ہے تو اووراسماٹ بننے کا کیا فائدہ ہے ؟ بات تو تب ہے جب سچائی پردہ تقدیر میں چھپی ہو اور آپ اس کے سحر کو بے حجاب و بے نقاب ملاحظہ فرمالو ۔ابھی کل کی بات ہے ایک شخص جو اپنے تئیں پنجاب کا منجھا ہوا سیاست دان کہلاتا اور طاقتوروں کی شان میں رطب اللسان پایا جاتا ہے ،بیٹےکے ہمراہ گھر سے نکلا تھا ماڈل ٹائون جانے کیلئے لیکن رستے میں فون آیا کہ اپنا رخ نہر کے ساتھ ساتھ ایچی سن کالج کی ہمسائیگی میں موڑ دو ۔بندہ تھوڑا سا ٹھہر جائے دماغ پرہلکا سا زور دے کہ یہ کس کا فون ہے ؟ کسی بھی درجے کی کامن سینس ہو تو بندہ سوچتا ہے کہ یہاں سیاست کے جو جینوئن کھلاڑی ہیں خوش قسمتی سے میری ان کےساتھ بات بن چکی ہے میںالٹی سمت میںکیوں چلوں مگر نہیں ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ اپنے دائیں بائیں جاری و ساری ہلے گلے یا شور تماشے سے آگے نہیں جھانکنا تو پھر اب لیں اس کے مزے۔

رہ گیا طالبان خان جس کے ورلڈ ویو یا پولیٹکل وزڈم کا یہ حال ہے کہ پارلیمینٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر دنیاکے سب سے بڑے دہشت گرد کو شہید قرار دیتے شرم محسوس نہیں کرتا ،طالبانی ہڑبونگ کو غلامی کی زنجیریں توڑنے کا نام دیتے ہوئے بڑے فخر سے قوم کو یہ عظیم اسلامی کامیابی گنواتا ہے ،عوامی جلسوں میں کبھی جعلی سائفر لہراتا ہے بلکہ اپنے جذباتی فینز کو مزید بیوقوف بنانے کیلئے کبھی امپورٹڈ حکومت نامنظور کے نعرے لگواتا ہے کبھی اپنے خلاف ہونے والی عالمی امریکی سازش کی کہانیاں گھڑتا اور بیان کرتا پایا جاتا ہے ۔

9 مئی کو پوری پلاننگ کے ساتھ یہاں جو طوفان بدتمیزی اٹھایا گیا سیاست کی جس شخص میں کچھ بھی سینس ہو کیا وہ اس نوع کا خود کش بم دھماکا کر سکتا ہے ؟آج جو لوگ بڑے سیانے بن کر نام نہاد پارٹی کو چھوڑ رہے ہیں ساتھ اپنی دانایاں بھی بگھار رہے ہیں دو ہفتے قبل ان کی عقل کہاں گھاس چرنے گئی ہوئی تھی ؟؟جن لوگوں نے ایک جینوئن سیاست دان کو آئوٹ کرنے اور اپنی چودھراہٹ جمانے کیلئے یہ پورا پروجیکٹ مینج کیا تھا ان سب سے بھی پوچھ گوچھ ہونی چاہئے، جنہوں نےلاڈلے کی حوصلہ افزائی اورسہولت کاری کی انہیں بھی کٹہرے میں لا کرصفائی پیش کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے ۔پریشانی کی کوئی بات نہیں آپ سب لوگوں نے جو بویا تھا وہی کاٹنا تھا۔ پارٹی تو یہ کبھی تھی ہی نہیں، بھان متی کا جو کنبہ تیار کیا گیا تھا اب انہیں اپنے اصل مقامات تک پہنچنے میں سہولت ملنی چاہئے اس لئےکہ صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔

تازہ ترین