• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مون سون کا سیزن پھر سر پر ہے جبکہ گزشتہ سال کے لاکھوں سیلاب متاثرین ابھی تک امداد کے منتظر ہیں۔ سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی نے بدھ کے روز 195 ارب روپے کی لاگت سے متاثرہ علاقوں میں 15 منصوبوں کی منظوری دی ہے ۔ ان میں سے تقریباً 30 ارب پنجاب، 51 ارب سندھ 14 ارب خیبر پختونخوا ، 44 ارب بلوچستان، 11 ارب آزادکشمیر، 8 ارب گلگت بلتستان جبکہ 35 ارب روپے بجلی کے نظام اور سیلاب سے متعلق وارننگ کی سہولیات اپ گریڈ کرنے پر خرچ ہونگے جن سے 17 ہزار 624 مکانات، 30 اسکولوں50 کلومیٹر طویل سڑکوں، 825 زرعی فارموں کی تعمیر، 10 لاکھ 47 ہزار ایکڑ اراضی ، 223 ٹیوب ویلوں اور تقریباً 31 لاکھ افراد کی بحالی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کے مطابق ان سیلابوں سے تین کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے جن میں سے 90 لاکھ کے غربت کی لکیر سے نیچے چلے جانے کا خدشہ ہے جبکہ پاکستان کی طرف سے امدادی اپیل کا محض 21 فیصد اکٹھا ہو سکا ہے۔ جنیوا کانفرنس میں امداد دینے والے ممالک اور اداروں سے کل تخمینے کا نصف 16 ارب 30 کروڑ ڈالر کے فنڈ مانگے گئے تھے جبکہ 9 ارب ڈالر کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ان کے مقابلے میں حکومت کو جو رقم دستیاب ہوسکی ہے، مطلوبہ اہداف کا عشر عشیر بھی نہیں۔ اس وقت تباہی سے دوچار لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی پیداوار دینے کے قابل نہیں ، ڈیری اور لائیواسٹاک کے شعبے کو مال مویشیوں کی غیرمعمولی کمی کا سامنا ہے۔ لاکھوں افراد علاج معالجے کی سہولت اور اسی قدر متاثرہ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں ۔بلاشبہ معاشی آزمائشوں میں گھری وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان اخراجات کی متحمل نہیں ہوسکتیں تاہم یہ بندوبست بالآخر انہی کو کرنا ہے جس کیلئے عالمی اداروں کے تعاون کا حصول ناگزیر ہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین