(گزشتہ سے پیوستہ )
ہم بڑی مدت کے بعد سنٹرل ٹریننگ کالج( جو کہ اب یونیورسٹی آف ایجوکیشن کا ایک کیمپس ہے) اور گورنمنٹ جونیئر مڈل اسکول (جسے ہمارے زمانے میں چھوٹا اسکول کہا جاتا تھا )اور گورنمنٹ سنٹرل ماڈل اسکول لوئر مال گئے ، سنٹرل ماڈل اسکول غالباً پاکستان کا پہلا اسکول تھا جس میں بائیو گیس کے ذریعے لیبارٹری میں لیمپ جلائے جاتے تھےاور تین سال طلبا کو بجلی،لکڑی اور لوہے کا کام سکھایا جاتا تھا ۔اس پر پھر بات کریں گے ۔دونوں تعلیمی اداروں میں کچھ نئی تعمیرات ہوئی تھیں اور سنٹرل ٹریننگ کالج میں کچھ تعمیرات ہو رہی تھیں لیکن دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ دونوں تعلیمی اداروں میں ہونے والی تعمیرات کا اس کے دونوں اسکول اور کالج کی گوروں کی تعمیر کردہ انتہائی خوبصورت اور دیرپا تعمیرات سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے، حالانکہ جب انگریزوں نے گورنمنٹ جونیئر ماڈل اسکول، گورنمنٹ سنٹرل ماڈل اسکول اور سنٹرل ٹریننگ کالج کی عمارتیں تعمیر کی تھیں آپ آج بھی جاکر دیکھیں ان تینوں قدیم تعلیمی اداروں کا فن تعمیر بالکل ایک جیسا ہے ۔دوسرے ان تینوں عمارتوں میں ہم پڑھے ہیں ہماری کلاسیں ان تینوں تعلیمی اداروں میں ہوتی رہی ہیں ۔ان کلاس روموں میں کبھی بھی ہمیں گرمی کا احساس نہیں ہوا بغیر اے سی کے یہ کلاس رومز ٹھنڈے ہیں پتہ نہیں ہمارے ماہرین تعمیرات اور پی ڈبلیو ڈی کے انجینئرز کو یہ بات کیوں نہیں سمجھ میں آتی کہ ہمارے ہاں بجلی کا بحران اور بجلی خاصی مہنگی ہو چکی ہے۔ دوسری طرف سولر سسٹم ڈالر مہنگا ہونے سے اب سولر سسٹم کافی مہنگا ہو چکا ہے اور تعلیمی اداروں کے پاس اتنے فنڈز نہیں کہ وہ سولر لگا سکیں ایسےمیں وہ تعمیرات جو گوروں نے یہاں پر سو/ دو سو برس قبل کی تھیں ان میں برصغیر کے موسم کو پیش نظر رکھا گیا تھا مگر ہمارے ہاں ان تینوں تعلیمی اداروں میںاب جو نئی تعمیرات ہوئی ہیں اور جو کی جا رہی ہیں ان میں شیشے کا استعمال اور چھتیں آٹھ سے دس فٹ تک رکھی جا رہی ہیں بہرحال ہمیں ان تینوں تعلیمی اداروں میں ہونے والی نئی تعمیرات پر اعتراض ہے ۔آپ بھی سوچ رہے ہوں گے ہم ان تینوں تعلیمی اداروں کا ذکر اکٹھا کیوں کر رہے ہیں وجہ یہ ہے کہ 2011ء تک یہ تینوں تعلیمی ادارے ایک ہی کیمپس میں ایک دوسرے کےساتھ جوڑے ہوئے تھے جب یونیورسٹی آف ایجوکیشن بنی تو ان کے کسی وائس چانسلر نے یہاں دیواریں کھینچ دیں ،جہاں اسکول کی اسمبلی پیچھے ڈیڑھ سو برس سے ہو رہی تھی اس جگہ پر یونیورسٹی والوں نے قبضہ کر لیا اسکول اور کالج کا تیراکی کا تالاب بغیر کسی وجہ کے توڑ ڈالا۔ لاہور میں انگریزوں نے کئی اسکولوں اور کالجوں میں یہاں کے موسم کے حوالے سے سوئمنگ پول بنائے تھے مثلاً مسلم ہائی اسکول نمبر2کا تیراکی کا تالاب توڑ کر اس کو ہال بنا دیا گیا۔کوئین میری کالج /اسکول کا خوبصورت تیراکی کا تالاب بند کر دیا گیا۔اب صرف ایچیسن کالج، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور کالج، پنجاب یونیورسٹی اور انجینئرنگ یونیورسٹی ، کنیئرڈ کالج، ایف سی کالج وغیرہ میں سوئمنگ پول رہ گئے ہیں۔پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس میں طالبات کے لئے ایک علیحدہ سوئمنگ ہے اب پتہ نہیں وہ کام کرتا ہے یا نہیں۔
گوروں کے زمانے میں ایف سی کالج کے سوئمنگ پول میں ایک دن کنیئرڈ کالج کی طالبات اور ایک دن فیملیز کیلئے ہوتا تھا،کوئین میری کالج کے سوئمنگ پول میں بھی کبھی فیمیلیز تیراکی کیا کرتی تھیں آہستہ آہستہ یہ تمام اچھی روایات ختم ہو گئیں۔لاہور میں گورنمنٹ سنٹرل ماڈل اسکول کا تعلیمی معیار لاہور کے تمام تعلیمی اداروں سے اچھا تھا یہ پبلک سیکٹر میں پہلا اسکول تھا جہاں ہوسٹل تھا ایچیسن کالج جسے چیف کالج بھی کہتے تھے وہ ایک خاص کلاس یا طبقہ کے لئے ہمیشہ سے رہا ہے۔لہٰذا اس کا مقابلہ حکومت کے دیگر اسکولوں سے نہیں کیا جا سکتا ۔ گوروںنےیکم جنوری 1864 اور 3مارچ 1864 کو بھی بالترتیب گورنمنٹ کالج اور فورمن کرسچن کالج ( ایف سی کالج) قائم کئے اس وقت انگریز لاہور میں بڑی تیزی کے ساتھ اسکول اور کالج قائم کر رہے تھے مگر اصل مشکل یہ پیش آ رہی تھی کہ لاہور میں اساتذہ، خصوصاً انگریزی کے اساتذہ کی شدید کمی تھی دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ انگریز ہمارے لوگوں کو تعلیم دینے کے لئے اسکول کالج اور یونیورسٹیاں قائم کر رہے تھے جبکہ ہمارے لوگ پڑھنے کو تیار نہیں تھے ۔خیر حکومت نے سنٹرل ٹریننگ کالج (لڑکوں کے لئے) اور لیڈی میکلیگن کالج (لڑکیوں) کے لئے قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ خواتین اور مرد دونوں اساتذہ کی کمی کو پورا کیا جا سکے چنانچہ 1860میں حضوری باغ میں کچھ عرصہ اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں اس کی ابتدائی کلاسوں کااہتمام کیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ گورنمنٹ کالج لاہور کا آغاز تو دربار دھیان سنگھ کی حویلی سے ہوا تھا تو کیا اس جگہ پر اس کالج کی کلاسیں ہوتی رہیں خیر ہم اس کی مزید ریسرچ کریں گے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کا آغاز تو حضرت سید مٹھا کے مزار مبارک کے پاس تحصیل بازار میں واقع دربار دھیان سنگھ کی حویلی سے ہوا تھا جو آج بھی موجود ہے جہاں کبھی سٹی مسلم اسکول کی کلاسیں بھی 2005ءتک ہوتی رہی ہیں۔ یہ بڑی دلچسپ اور خوبصورت عمارت ہے مگر اب اجڑ چکی ہے، حویلی کے قریب رہنے والے مکینوں کے بقول اب اس عمارت میں آسیب اور جنوں کا قبضہ ہو چکا ہے ۔اور رات کو بعض لوگوں نے یہاں پر لمبے لمبے سائے بھی دیکھے ہیں ہم نے یہ عمارت کئی مرتبہ دیکھی ہے اس کے اندر صبح کے وقت بھی ایک وحشت اور خوف ہے رات کو یقیناً زیادہ ڈرائونی ہوتی ہو گی۔ اس کے قریب مسجد ہے جہاں پانچ وقت نماز اور اذان ہوتی ہے ہمارا یقین ہے کہ جس جگہ اللہ تعالیٰ اور آنحضورؐ کی ذات پاک کا ذکر ہوتا ہو وہاں پر آسیب اور جن لوگوں کو کچھ نہیں کہتے یا پھر چلے جاتے ہیں۔ (جاری ہے)