• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے شہر میں موسم بدل رہا ہے۔ اب لگتا ہے کہ سردی جا رہی ہے۔ میں کینیڈا میں مقیم ہوں اور سردی نے سب کچھ سرد کر رکھا تھا۔ مئی کا مہینہ آدھے سے زیادہ گزر چکا ہے اب بھی موسم اور مزاج سرد ہے مگر سردی جاتی نظر آرہی ہے۔ دوسری طرف وطن عزیز میں موسم گرم ہے اور ہمارے کار ِسرکار کے لوگ بہت ہی گرم ہیں۔ عوام کے لئے گرمی تو اب ہر جگہ ہے۔پاکستان میں تو کوئی بھی سنتاہی نہیں ، ریاست کے تیور بگڑے بگڑے نظر آتے ہیں۔ہاں اگر موسم کسی کا اچھا ہے تو وہ قابض سیاسی اشرافیہ کا ہے۔ وہ جمہوریت کا راگ بہت ہی بے سرے انداز میں مسلسل گا کر عوام کو خواص کی خاص موسیقی سے لطف اندوز کرانے کی کوشش میں لگے ہیں۔ میرے دوست احباب پوچھتے ہیں کہ9مئی کو ارضِ پاکستان میں کیا ہوا تھا۔ ایمان داری کی بات ہے۔ لگتا یوں ہے کہ کوئی آسیب کا سایہ تھا، جو پنجاب کی سرکار میں حلول کر گیا تھا۔ چند نادان اور کچھ شرپسند لوگوں نےغل غپاڑہ کیا اور تماشالگایا، مگر پنجاب کی سرکار آسیب کے زیر اثر مدہوش تھی اور کمال یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ جو بہت ہی باخبر انسان ہیں، وہ بھی نا معلوم دوستوں کے کارن بروقت کارروائی سے محروم رہے۔

دوسری طرف خیبر پختونخواہ کے شہر پشاور میں بڑا فساد ہوا۔ ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت کو آگ لگا دی گئی۔مقامی انتظامیہ فرارتھی یا بے خبر تھی۔ لاہور اور پشاور میں جو کچھ ہوا وہ بہت ہی شرم ناک ہے۔ اس میں پس پردہ کچھ عناصر کی جھلک پڑتی ہے ۔ قومی اسمبلی میں قرار داد مذمت ہمارے وزیر دفاع خواجہ آصف نے پیش کی۔ وہ ایک عرصہ تک قومی اسمبلی میں افواج پاکستان پر کڑی تنقید کرتے رہے ہیں۔ اب ان کا بھی سوفٹ ویئر تبدیل نظر آ رہا ہے۔ سابق سپہ سالار جنرل باجوہ نے افواج پاکستان کے نام پر جو سیاست کی اور مختلف جماعتوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنایا،اس سے پاکستان میں جمہوریت کا منہ بھی کالا ہوا اور افواج پاکستان پر بھی حرف آیا۔ جنرل باجوہ کی وجہ سے ہمارے تعلقات روس اور چین سے خراب ہوئے اور نزلہ گرا سابق وزیر اعظم عمران خان پر۔

اس وقت پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری نظام کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے۔ نامکمل قومی اسمبلی سے ایسے قوانین بنوائے جا رہے ہیں جو آئین کی حیثیت کو متنازعہ کر رہے ہیں پھر ہماری اعلیٰ عدلیہ جو قانون اور عدالت کی سرپرست ہے۔ اس کے ارکان پر نامکمل قومی اسمبلی میں بحث کی جاتی ہے۔ جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو انہیںووٹ کے ذریعے فارغ کیا گیا، اس کے بعد قومی اسمبلی کے اسپیکر نے کچھ فیصلے کئے مگر ان پر عمل در آمد میں سپریم کورٹ کے فیصلے حائل ہو گئے۔ اس وقت کی اعلیٰ عدلیہ نے کس سے متاثرہو کر ایسا کیا ؟ سابق وزیر اعظم نے کوشش کی مگر پاکستان کے مستقبل کے فیصلے کہاں ہو رہے تھے وہ بھی سر بستہ راز ہے۔ ان معاملات میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے کردار کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔

اس وقت بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی حیثیت داو پر لگی ہے ۔ پارٹی کے نمایاں لوگ 9مئی کے بلوے کے نتیجہ میں پارٹی سے علیحدگی اختیار کرتے نظر آ رہے ہیں اور ہمارا قومی میڈیا اور ٹی وی چینلزان ارکان کے بارے میں خوب پروگرام کرتےہیں، ہمارے ہاں کی جو سیاست ہے اس میں ایسے کرداروں کیلئے کوئی مناسب الفاظ نہیں ملتے۔ جن لوگوں نے عمران خان کا ساتھ چھوڑا ہے ان کا دعویٰ ہے کہ وہ سیاست سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ ان کا یہ رویہ جمہوریت کے تناظر میں خاصا مشکوک ہے، اصل مسئلہ تو اس وقت انتخابات کا ہے۔ دو صوبوں میں خود ساختہ قسم کا سیاسی نظام جاری ہے، اس کو آئین کا تحفظ بھی حاصل نہیں اور ہمارا الیکشن کمیشن مسلسل انتخابات کے معاملہ میں اپنی حیثیت مشکوک بنا رہا ہے۔

اس وقت سابق وزیر اعظم عمران خان ایک شدید طوفانی موسم سے دو چار ہیں ان پر 9مئی کے بلوئے کروانے کا الزام ہے جبکہ ان بلوو ں سے پہلے موجودہ کار سرکار نے ان کو عدالتی احاطے سے زبردستی گرفتار کیا ۔ جس کے نتیجےمیں عام لوگوں کا رد عمل ایسا نظر نہیں آیا مگر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی غیر جمہوری سرکاروں نے غیر مناسب طریقے سے اپنا کردار ادا کیا جہاں بھی بلوے ہوئے ان علاقوں میں پولیس کی عدم موجودگی حیران کن ہے اور عدم موجودگی کا کوئی جواز بھی نظر نہیں آیا۔ سوال یہ کیا جارہا ہے کہ اس روز ان صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کہاں تھے؟ اب وحشت اور دہشت کے پس منظر میں لوگوں کی گرفتاری اور عام عوام کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ عدالتی حلقے کوشش کر رہے ہیں کہ انصاف میں تاخیر نہ ہو مگر سیاست اور ریاست دونوں ہی بے بس سے ہیں۔پاکستان کے طول و عرض میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا وہ جمہوریت کے لئے ایک تازیانہ نہیں !۔ ملک مالی اور معاشی مشکلات سے دوچار ہے اور اس کے ذمہ دار ہی اس وقت ملک کو چلا بھی رہے ہیں۔ اب وہ لوگ اس سال کے بجٹ پر کام کر رہے ہیں اور اس تناظر میں آئی ایم ایف کے پردھان ممالک پاکستان کی مدد کرنے سے قاصر نظر آ رہے ہمارے وزیر خزانہ جو ماضی میں آئی ایم ایف کے منظور نظر تھے ان کا دعویٰ ہے کہ بجٹ آئی ایم ایف کے بغیر بھی بنایا جاسکتا ہے۔ بجٹ کل وقتی بنایا گیا تو انتخابات کے بعد جو بھی سرکار آئے گی اس کیلئے ملک چلانا مشکل ہوگا۔ اس وقت ہماری سیاسی اشرافیہ بہت ہی غیر سنجیدہ ہے ہمارے دوست ممالک ، سعودی عرب، چین اور روس ملک کی بدلتی صورت حال پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں فوج جو بظاہر اس صورتحال پر خاموش ہے۔ مگر9مئی کے تناظر میں فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانےکیلئے اپنی رضا مندی دے رہی ہے۔9مئی کے ملزموں پر مقدمے چلنے ضروری ہیں ۔ مگر فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے سےکیا آئین کی حیثیت مزید متاثرنہیں ہو گی؟۔

پاکستان کا سیاسی طوفان ملک کی سلامتی کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ بظاہر اس وقت جو لوگ ملک کی سیاست پر قابض ہیں۔ وہ انتخابات سے ڈر رہے ہیں۔ اگر آزاد انتخابات ہوتے ہیں تو ملک کے عوام کا اعتماد بحال ہو سکے گا اور ضروری نہیں جو لوگ انتخابات جیت کر سرکار بنائیں۔ وہ عوام دشمن ہو ں ، پاکستان کے ٹوٹنے کی بڑی وجہ انتخابات کے بعد فوج کی مداخلت تھی،اس وقت بھی اسمبلی کو نظر انداز کیا گیا،مشرقی پاکستان میں لوگوں کی زندگی کو تنگ کیا گیا اور مجیب الرحمن کو ملک دشمن بتایا گیا۔اس تاریخ سے سبق حاصل کرنا ضروری ہے۔ پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی پرحمود الرحمن کمیشن بنا، تحقیق ہوئی مگر اس کی رپورٹ کو سرکاری راز کی حیثیت دے کر محفوظ کر دیا گیا۔ کچھ ایسی ہی صورت حال اس وقت ہے۔ ہمارے اداروں کو اپنی حیثیت میں پاکستان کو ایک آزاد اور جمہوری ملک بنانے کیلئے خصوصی کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ ملک خطرے میں رہے گا۔

تازہ ترین