• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

27مئی1998ء کی دوپہر ڈاکٹر اے کیو خان لیبارٹریز سے ڈاکٹر فاروق کا فون آیاکہ ’’ڈاکٹر خان یاد کر رہے ہیں ‘‘ میں تمام صحافتی مصروفیات چھوڑ کر کے دفاعی رپورٹر سہیل عبدالناصرمرحوم کے ہمراہ ڈاکٹر خان کے آفس میں ہانپتا کانپتا پہنچاتو ڈاکٹرعبد القدیر خان کواپنا منتظر پایا ،ڈاکٹر خان اپنے آفس میں مضطرب حالت میں ٹہل رہے تھے’’ خان صاحب جلالی طبیعت کے مالک تھےانہوں نے غصے کی حالت میں کہا کہ ’’ کل شام پاکستان ایٹمی دھماکے کر رہا ہے لیکن ایٹمی توانائی کمیشن میں بیٹھے کچھ لوگ مجھ سے ایٹم بم بنانے کاکریڈٹ چھیننےکیلئے مجھے چاغی کے پہاڑ سے دور رکھنا چاہتے ہیں چنانچہ مجھے چاغی تک پہنچنے کیلئے ہوائی جہاز فراہم نہیں کیا جا رہا ‘‘اس دوران انہوں نے ہماری تواضع چائے اور پکوڑوں سے کی چونکہ وہ خود بھی چائے پکوڑے کھانے کے شوقین تھے لہٰذا اپنے مہمانوں کی تواضع بھی چائے اور پکوڑوں سے کرتے تھے، ہم ڈاکٹر عبدالقدیر خان سےمصروف گفتگو ہی تھے کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے فون کی گھنٹی بجی کسی اعلیٰ افسر نے ان کو خوشخبری سنائی کہ ان کیلئے خصوصی جہاز کا انتظام کر لیا گیا ہے جو ان کو 28مئی1998ء کی صبح کوئٹہ سےچاغی پہنچائے گا، ڈاکٹر خان کا چہرہ خوشی سے گلاب کی طرح کھل اٹھا انہوں نے ہم سے یہ خوشخبری شیئر کی، ہم نے 28مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کی خبر فائل کی جو اس روز اخبار کی لیڈا سٹوری تھی،اگلے روز جب ایٹمی دھماکوںسے کچھ دیر قبل چاغی کے پہاڑ پر ہیلی کاپٹر نے لینڈ کیا تواس میں سے ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبد القدیر خان کو اترتا دیکھ کر ان کے’’ہم پیشہ‘‘ کئی سائنسدانوں کے چہرے مرجھا گئے ۔ جب 28مئی2023کی سہ پہرساڑھے تین بجےپاکستان نے بھارت کے 5ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں 6ایٹمی دھماکےکر کے بھارت کا غرور خاک میں ملایاتو ڈاکٹر خان اور دیگر سائنسدانوں کے ’’ اللہ اکبر‘‘ کے نعروں سے چاغی پہاڑ گونج اٹھا ۔ میں پاکستان کے ان چند اخبار نویسوں میں شامل ہوںجنہیں چاغی پہاڑ میں اس سرنگ کو دیکھنے کا موقع ملا جو ایٹمی فضلے کا مدفن ہے، میں وہاں سے چاغی پہاڑ کا ایک پتھر اٹھا لایا تو ایٹمی توانائی کمیشن کے سائنسدانوں نے اسےایٹمی تابکاری کے اثرات زائل کر کے مجھےواپس کیا ،جو آج بھی میرے ڈرائنگ روم کی زینت ہے ۔ نواز شریف حکومت نے قوم کے ذہنوں میں ایٹمی قوت کے تصور کو اجاگر کرنے کیلئےاسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں چاغی پہاڑ کے ماڈل نصب کئے ،اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر نصب چاغی پہاڑ کا ماڈل اسلام آباد ایکسپریس کی کشادگی کی نذر ہو گیا ویسے بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے مخالف ممالک کی نظروں میں یہ ماڈل چبھتا تھا، حکومت کو اس ماڈل کو فاطمہ جناح پارک میں منتقل کرنے کا بہانہ مل گیا لیکن 9مئی2023ء کو پی ٹی آئی کے کارکن عمران خان کی گرفتاری پر اس قدر آپے سے باہر ہو گئے کہ انہوں نے جہاں دیگر فوجی تنصیبات کو اپنی نفرت کا نشانہ بنایا وہاں انہوں نے پشاور میں پاکستان کی ایٹمی قوت کی علامت کو تباہ کر کے اپنے غصے کا اظہار کیا ،جس قوم کو اپنے قومی وقار و عزت کا ہی ادراک نہ ہو اس بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟

حکومت نے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قدر نہ کی ،انہوں نے اپنی زندگی سیکورٹی کے نام پر قید میں گزار دی وہ اپنی مرضی سے کہیں جا سکتے تھے اور نہ ہی ان سے کسی کو ملنے کی اجازت تھی ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1976میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا عزم لے کر ہالینڈ سے اسلام آباد آئےتو مشکل حالات میں کام کا آغاز کیا۔انہوں نے پاکستان کو دنیا کا ساتواںایٹمی ملک بنانےکیلئے ہالینڈ کی پر آسائش زندگی زندگی ترک کرکے چند ہزار روپے کی نوکری قبول کر لی لیکن مختصر مدت میں پاکستان کو ’’ایٹمی قوت‘‘ بنا دیا ۔ 1984ء میں ’’کولڈ ٹیسٹ‘‘ کے ذریعے پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی تصدیق ہو گئی تھی لیکن چاغی کے پہاڑوں میں تیار کی گئی سرنگ کے باوجود عالمی دبائو نے جنرل ضیاالحق کو ایٹمی دھماکہ کرنے دیا اور نہ ہی ان کے بعد کسی حکمراں کو ایٹمی قوت بننے کا اعلان کرنے کی جرات ہوئی۔ جب بھارت نے مئی 1998 ء میں 5ایٹمی دھماکے کرکے پوری دنیا کو یہ باور کرا دیا کہ وہ ایٹمی قوت ہے تو یہ محمد نواز شریف ہی تھے جنہوں نے امریکی صدر بل کلنٹن کی 5ٹیلی فون کالز کی پروا کئے بغیر بھارت کے 5ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں 6دھماکے کر کے پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا اعلان کر دیا، اگر نواز شریف جیسا جرات مند لیڈر نہ ہوتا تو پاکستان عالمی دبائو کے تحت کبھی ایٹمی دھماکے نہ کرتا ۔ڈاکٹر عبد القدیر خان نے بتایا کہ پاکستان نے 28 مئی1998ء کو ساڑھے تین بجے پاکستان ایٹمی دھماکہ کرے گا وہاں بھارت کی جانب سے ممکنہ جارحیت کے خدشے کے پیش نظر ایٹمی میزائلوں سے لیس میزائل پاکستان کی سرحدوں پر نصب کرنے کی خبر دی ،پاکستان کے ایٹمی دھماکوںکا کریڈٹ وہ لوگ بھی حاصل کرتے ہیںجو دھماکے کے روز پاکستان سے راہ فرار اختیار کر کے دبئی جا پہنچے تھے ۔اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سمیت کئی مسلم لیگی لیڈروں نے ایٹمی دھماکوںسے پیدا ہونے والی سنگین صورت حال سے نواز شریف کو ڈرایا لیکن جب محمد نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کر لیا تو کوئی بین الاقوامی دبائو قبول نہ کیا۔جس طرح تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے کے کریڈٹ سے محروم نہیں کیا جاسکتا اسی طرح ایٹمی پروگرام کی تکمیل جنرل ضیاالحق کے دور میں ہوئی جب کہ ایٹمی قوت بننےکیلئےدھماکے کرنے کا اعزاز محمد نواز شریف کا حاصل ہوا ۔بیشک پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کی ایٹمی دھماکوں کے سلسلے میں بڑی خدمات ہیں لیکن ڈاکٹر خان نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا اگر یورینیم ہی 95فیصد افزودہ نہ ہوتا تو پھر دھماکہ کیسے ہوتا؟لہٰذا پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں جہاں ذوالفقار علی بھٹو ، جنرل ضیا الحق اور محمد نوازشریف کاکردار ہے وہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر ثمر مبارک کا بھی کردار ہے،لہٰذا یو م تکبیر مناتے ہوئے ہمیںان تمام کرداروں کی خدمات کو یاد رکھنا چاہئے (جاری ہے)

تازہ ترین