سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کام کرنے والے آڈیو لیکس کمیشن نے بھی سپریم کورٹ کے بینچ پر اعتراض اٹھا دیا۔
آڈیو لیکس کمیشن نے عدالت میں داخل کرائے گئے جواب میں کہا ہے کہ ذاتی مفادات سے متعلق کیس کوئی جج نہیں سن سکتا۔
کمیشن نے جمع کرائے گئے جواب میں استدعا کی ہے کہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف کیس نہ سنے۔
آڈیو لیکس کمیشن کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ مبینہ آڈیو لیک سے متعلق دیگر افراد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی نہ ہی کمیشن پر اعتراض اٹھایا۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ کمیشن نے آرٹیکل 209 پر اپنا مؤقف پہلے اجلاس میں واضح کر دیا تھا، واضح کیا تھا کہ کمیشن کی کارروائی کو سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی نہ سمجھا جائے۔
آڈیو لیکس کمیشن کا جواب میں کہنا ہے کہ صدر سپریم کورٹ بار نے آڈیو لیک کمیشن کے خلاف درخواست دائر کی ہے۔
سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں آڈیو لیکس کمیشن نے کہا ہے کہ کمیشن کو آڈیو لیک کی انکوائری میں کوئی ذاتی دلچسپی نہیں، کمیشن کو یہ ذمے داری قانون کے تحت دی گئی ہے۔
جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ کمیشن آئین و قانون کے مطابق اپنی ذمے داری پوری کرے گا، کمیشن یقین دلاتا ہے کہ متعلقہ فریقین کے اٹھائے گئے اعتراضات کو سنا اور ان پر غور کیا جائے گا۔
آڈیو لیکس کمیشن نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ صحافی قیوم صدیقی اور خواجہ طارق رحیم کمیشن میں پیش ہونے کے لیے تیار ہیں، ججز کا حلف ہے کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق فرائض ادا کریں گے، آئینی درخواستیں قابلِ سماعت نہیں۔
انکوائری کمیشن نے 5 رکنی بینچ کی تشکیل کے طریقہ کار پر بھی اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ بینچ کی تشکیل کا معاملہ ججز کمیٹی کے سامنے نہیں رکھا گیا، بہتر ہو گا کہ ججز کمیٹی کی جانب سے بینچ کی تشکیل تک 5 رکنی بینچ سماعت مؤخر کر دے۔
دوسری جانب مبینہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت آج ہو گی۔
وفاقی حکومت نے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس منیب اختر کے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست دی ہے۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت پر کمیشن کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا تھا۔
کمیشن کےخلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری سمیت 4 درخواستیں زیرِ سماعت ہیں۔