عمران خان ہماری ریڈ لائن ، کراس کرنے کی نہیں ،وارننگ اسٹیبلشمنٹ کیلئے تھی۔ہر 10\15 سال بعدبدقسمت ملک زیرو پوائنٹ کی طرف لوٹ آتا ہے۔ہر بار نئی منزل، نئے رہنما اُصول متعین ہوتے ہیں۔"سیاست نہیں ریاست بچاؤیاعمران خان پروجیکٹ" کا آغاز ہوا ، تو" نیا پاکستان، دو نہیں ایک پاکستان" ، آزادی کا سفر، جیسے ڈھکوسلے گھڑے گئے۔ اپنی نوعیت کا پہلا پروجیکٹ جو شاید 10سال کےاندر تکمیل سے پہلے زمیں بوس ہوچُکا۔ منصوبہ سازوں کی CASUALTIES کی گنتی کا شمار سامنے نہ ہی مملکت کی تباہی و بربادی کا تخمینہ۔ بظاہر " پروجیکٹ عمران خان " کیDEMOLITION ، "بھائی لوگوں" کے دانت کھٹے کروا چُکی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے بھلا یہ کریڈٹ کون چھین سکتا ہے کہ حکومت یا نظام کو آڑے ہاتھوں لینا ، نبردآزما ہونا، بائیں ہاتھ کا کھیل ہے،100فیصد کامیابی کی گارنٹی ہے۔
موضوع سے ذرا ہٹ کر چند سال سے سیاسی فکرو فاقہ رکھنے والا ایک بد قسمت انسان اگر دشمن پر بھی کوئی قہر نازل ہو یا مکافات عمل کی گرفت میں تو میرا گھر نشانہ بنتا ہے۔ اس سے پہلےجب اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کا نشانہ نوازشریف صاحب رہے تو سارا عرصہ جان ہتھیلی پر رکھ کر گزارا۔ سب سے مزاحیہ پروگرام ، آج علی الصباح جب مجھے میری بیٹی نے خبر سنائی کہ درمیانی شب 40\30 پولیس اہلکاروں نے گھر پر دھاوا بولا، میرے داماد کو پکڑ کر لے گئے۔ محمد عظیم نیازی میرے بڑے بھائی سعید اللہ خان کا بیٹا ہے ۔ قطع نظر کہ عظیم خان کےوالد، بھائی،چچا سب کی سیاسی ہمدردیاں، وابستگیاں مسلم لیگ ن کیساتھ ہیں۔عظیم خان اپنی ذات میں خود غیر سیاسی، دور دور تک سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ایک ملٹی نیشنل کیساتھ پچھلے 18 برس سے وابستہ، سر سے پاؤں تک ایک غیر سیاسی بے ضررپروفیشنل ہے۔جملہ ہائے معترضہ، سوئے اتفاق ہی کہ 09\10\11 مئی کووہ نتھیا گلی میں، ایک بزنس کانفرنس میں شریک تھا۔ یہ تو ہماری سیکورٹی فورسزہی ادراک کر سکتی ہیں کہ ایسے بے ضررغیر متعلقہ افراد کی گرفتاری سے اُنکو کیا فائدہ؟ اللہ ہی جانے۔ اس سے پہلے حسان کے گھر پر چھاپہ ماراتومیراڈرائیورالطاف اورباورچی رحیم پکڑ لئے گئے۔ چند دن بعد رحیم کو نیم مردہ حالت میں واپس کر دیا گیا۔تب سے سروسز اسپتال میں بے ہوش ، زندگی کی جنگ لڑ رہا ہےجبکہ ڈرائیور الطاف16 دن سے لاپتہ ہے ۔
موضوع کی طرف واپس ، وطنی تاریخ کا سبق نظام کو جڑ سے اُکھاڑنا اسٹیبلشمنٹ کیلئےکامیابی یقینی ہے۔ایک سبق اور بھی ،نیا مستحکم نظام تشکیل دینا ناکامی حتمی دونوں سبق دیوارپر کندہ ہیں۔ یہی وجہ کہ 10\15 سال بعد وطن عزیز کی زیرو پوائنٹ پر واپسی ، ایک دائرہ میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔اس جدوجہد میں کئی سانحے رقم ہوئے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا نظاموں کو نیست و نابود کرنے کا جذبہ شوق کبھی متاثر نہیں ہوا اورہر بار کامیابی نے قدم چومے۔ دوسری طرف مستحکم نظام کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو پایا۔آج اگر" سیاست نہیں ریاست بچاؤ"پروجیکٹ مملکت پر عذاب بن کر ٹوٹا ہے،تباہی و بربادی کی ذمہ داری،پروجیکٹ کے منصوبہ ساز وں پر ہی عائد ہوگی۔
اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کے عزائم جانچنے کا براہ راست تجربہ نہ ہی اندرونی نظم و نسق سے واقفیت ، مشاہدوں سے تخمینہ لگانا کبھی مشکل نہیں رہا۔ پاکستان کی تاریخ میں جنرل عاصم منیر پہلا ایسا سربراہ جس نے ادارے کو سیاست سے دوررکھنا، اپنے پیشہ تک مختص رہنا تھا۔ وطنی بدنصیبی کہ عمران خان نے کمالِ مشقت سے موجودہ آرمی چیف سے اُن کا یہ آپشن چھین لیا ۔ آج اسٹیبلشمنٹ جس راستے پر چل پڑی عمران خان گھسیٹ کر لایا ہے۔بذاتِ خود ایسی مثال بننے کو کہ تاریخ پیش کرنے سے قاصر، اُس کے ساتھ ہی آئینِ پاکستان بھی وقتی نیند سونے کو ہے۔
پچھلے کئی کالموں میں ذکر کر چُکاکہ جنرل عاصم منیر کیخلاف ستمبر ہی سے عمران خان اور اُسکے جتھے نے غلاظت سے بھر پور مہم شروع کر دی تھی۔ عمران خان نے تعیناتی میں روڑے اٹکانے کیلئے راولپنڈی لانگ مارچ اور نوٹیفکیشن سے کھیلنے کے ناٹک کیے۔ سِتم ظریفی، 29 نومبر کے بعدجنرل عاصم منیر کیخلاف سلسلہ رُکا نہیں ، اُن کو دیوار کیساتھ لگانے، عہدہ برقرار نہ رکھ سکنے کے گھناؤنے جتن برپا رکھے۔
جنرل عاصم منیر کی تعیناتی رکوانےکیلئے 29 نومبر سے چند ماہ پہلے شروع کی گئی مہم (ادارے کے اندر سے مدد، تائید، حوصلہ افزائی شاملِ حال) آج تک جاری ہے۔ چشم تصور میں جنرل عاصم منیر کو کمزور رکھ کر مذموم دو مقاصد پیشِ نظر تھے۔ دباؤ میں شاید مستعفی ہو جائیں یا کمزور قیادت میں ادارہ باہمی اختلافات کا شکاربن رہے۔ 9\10 مئی کے واقعات پر عمران خان کا اظہار اطمینان، الفاظ کا چناؤ اور باڈی لینگوئج نے ایک فاتح کا تصور دیا۔ عمران خان کی ذہنی پسماندگی ، سیاسی عقل و شعور کا فقدان کہ 9 مئی کے واقعہ کی سنگینی کا اندازہ ہی نہ کر سکے۔پہلے دن سے تسلسل سے لکھا کہ 8 مئی کو جنرل عاصم منیر کمزورترین آرمی چیف سمجھے گئے جبکہ 12 مئی کو وہ وطنی تاریخ کے طاقتور ترین سربراہ بن کر سامنے آئے۔ سانحہ9 مئی کا شاخسانہ ہی کہ سیاسی آئینی حکومت کی موجودگی میں ، آج پتا پتا بوٹا بوٹا ہلنے کیلئےجنرل عاصم منیر کے اشارہ ابرو کا منتظر ہے۔
عسکری قیادت اور اداروں کی آنکھوںمیں خون اُتر آنے کیلئے سانحہ 9مئی بہت کچھ اہتمام کر گیا۔ عمران خان کے موثر ہتھیار میڈیا کا استعمال اور جارحانہ اندازسیاست سب کُند ہو چُکے ہیں۔
اقتدار مکمل طور پر سیاسی جماعتوں سے نکل کر جنرل عاصم منیر کے رحم و کرم پر آچُکا ہے۔آج کے حکمران دیہاڑی دار نوکری کر رہے ہیں۔ بدقسمتی کہ پہلا آرمی چیف جو امریکہ کی بجائے چین سے سیاسی پینگیں بڑھا چُکا تھا، فوج کو سیاست سے دور رکھنے کا ارادہ کر چُکا تھا۔عمران خان کی منتقم مزاجی، لاعلمی اورہوسِ اقتدار میں وطنی دُشمنی نے جہاں وطن ہلکان کیا، وہاں جنرل عاصم منیر کووطنی مفاد میں زبردستی اسی راہ پر ڈال دیا جس پر اُن کے پیشترو چلتے رہے۔
جنرل عاصم منیر کے پاس اس کے علاوہ کوئی چوائس بچی نہیں کہ الیکشن سے اجتناب کریں اور اگلے چند سال وطنی استحکام یقینی بنائیں۔انگریزی میں اُسکو HOBSON's CHOICE کہتے ہیں۔عمران خان کو یہ سہولت کہ وہ اپنی بے پناہ مقبولیت کو اپنی عاقبت اور سلامتی جان چُکے جبکہ اسٹیبلشمنٹ کا غیر ضروری اعتماد کہ عمران خان کو وہ ٹھکانے لگانےکے قریب ہے۔ میرے نزدیک دونوں تصورات ادھورے، وطن عزیز کیلئے زہرِ قاتل ثابت ہونگے۔