• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس دن سے دل بہت اداس ہے، جس دن پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ہماری فوجی تنصیبات پر حملہ کیا اور شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی،تاریخی پشاور ریڈیو اسٹیشن جلا کر راکھ کر دیا۔ گزشتہ 75برسوں میں یہ غلیظ حرکت بدترین حالات میں بھی کسی سیاسی جماعت نے نہیں کی ،ہمیں اپنی فوج سے کچھ گلے شکوے بھی ہیں اور لوگ اس کا اظہار بھی کرتے چلے آئے ہیں مگر کسی گھٹیا سے گھٹیا ذہن کے مالک شخص نے پوری منصوبہ بندی سے یہ گندی حرکت کبھی نہیں کی جو اقتدار کی ہوس میں مبتلا ایک نام نہاد سیاسی پارٹی کے لیڈر نےاپنے کارکنوں کو اشتعال دے کر ان سے کروائی۔گزشتہ دنوں ایک سینئر صحافی عمران شفقت نے اپنے ایک وی لاگ میں جو ایک دوست نے ٹرانسکرائب کرکے مجھے بھیجا ہے، 9مئی کے سانحہ کی پوری تفصیلات بیان کی ہیں ۔عمران شفقت کے مطابق 9مئی کو دیگر شیطانی حملوں کے علاوہ ایک انتہائی خوفناک اور گھٹیا حرکت میانوالی ایئر بیس پر حملہ تھا جہاں ہمارے 80لڑاکا طیارے کھڑے تھے ان طیاروں کو آگ لگانے کیلئے ٹرالیاں بھر بھر کے ایندھن بھوسہ اور کیمیکل ساتھ لایا گیا مگر الحمدللّٰہ یہ منصوبہ ناکام بنا دیا گیا ،یہ سازش پاکستان کی دفاعی کمر توڑنے کے مترادف تھی۔ شروع میں عمران خان خود کو ان حرکات سے بری الذمہ قرار دیتے رہے مگر اب انہوں نے کہا ہے کہ جب رینجرز انہیں گرفتار کرنے آئے تھے تو اس پر احتجاج عسکری تنصیبات کے سامنے ہی کیا جا سکتا تھا ۔مراد سعید کی وہ آڈیو بھی لیک ہو چکی ہے جس میں وہ ’’مجاہدین آزادی‘‘کو کہتا ہے کہ گھروں سے نکلو اور ان مقامات تک پہنچو جن کی نشاندہی پہلے کی جا چکی ہے۔

یہ سب باتیں اتنی شرمناک ہیں کہ انہیں بار بار دہراتے ہوئے دل ہل جاتا ہے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے کو جی چاہتا ہے۔ اس وقت عمران خان ہمارے ازلی دشمن انڈیا کا ہیرو ہے ۔پورا ویسٹ اس کے گیت گا رہا ہے مگر پاکستانیوں کی اکثریت اس نامراد ’’سیاسی ‘‘ جماعت اور اس کے لیڈر کی ’’حب الوطنی‘‘ پر سینکڑوں سوالیہ نشانات بنا رہی ہے ۔میں نے پاکستانیوں کی اکثریت کا حوالہ یوں دیا کہ عمران خان کا فین کلب ہی خاصا وسیع ہے اور وہ ابھی تک اس کے سحر سے نہیں نکلا ۔تاہم اس سے کہیں زیادہ دردناک صورتحال یہ ہے کہ ویٹرن (سابق فوجی )کی بڑی تعداد (پاکستان کی بے حرمتی کی بات چھوڑیں) ابھی تک اپنے MOTHER INSTITUTE جسے اردو میں ’’مادر تربیت ، مادرکردار یا مادر شخصیت ‘‘کہا جا سکتا ہے، پر ہونے والے حملوں اور شہدا کی یادگاروں پر حملوں کے حوالے سے ابھی تک خاموش ہے جبکہ اس سے محبت فطری ہوتی ہے ۔سمجھ نہیں آتا اس پر کیا کہا جائے کہ ان کے اداروں نے انہیں زندگی کی بہترین سہولتیں فراہم کیں انہیں عزت بخشی اور ریٹائرمنٹ کےبرسوں بعد بھی اب تک ہمارے دوست عیش وآرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں ،بس گزشتہ روز دس بارہ سابق فوجی افسروں کی ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں وہ 9مئی کے واقعات کی مذمت کر رہے ہیں ۔بہرحال میں بہت دل آزردہ ہوں ہم لوگ وہ بھی جو ہماری فخر کی نشانیوں پر دشمن کی طرح ٹوٹ پڑے بچپن سے پاکستان کے ترانے گا رہے ہیں۔65کی جنگ کے بعد انتہائی دل آویز گیت ہمارے دلوں کی دھڑکن تیز کرتے رہے مگر ریڈیو پاکستان پشاور کے تاریخی ریڈیو اسٹیشن اور دوسری اہم تنصیبات پر حملہ کرنے والے اور ان کے خاموش حامی چشم زدن میں یہ سب کچھ بھول بھال گئے اور جس دشمن کے حوالے سے یہ ترانے لکھے اور گائے گئے تھے وہ دشمن خوش ہے کہ اب یہ ترانے غازیوں اور شہیدوں کی سرزمین پر 9مئی کو بے اثر ہوگئے تھے۔

پاکستان ہماری جند جان ہے اب مغربی ممالک کے کچھ ’’سروے‘‘ یہ من پسند پیش گوئی کر رہے ہیں کہ پاکستان دس برسوں کے اندر (میرے منہ میں اور ان کے منہ میں بھی خاک )ٹوٹ پھوٹ جائے گا، یہ ان کی دیرینہ خواہش ہے مگر نہ یہ پہلےپوری ہوئی تھی اور نہ ان شا اللّٰہ اب پوری ہوگی لیکن اس کیلئےہمیں بہت کچھ کرنا ہو گا ہر فرد اور ہر ادارے کو یہ ذمہ داری اٹھانا ہوگی کہ وہ جہاں ہے پاکستان کو مضبوط بنانے کیلئے اپنا کردار نبھائے گا۔فوج بھی، سیاست دان بھی، معاشی ماہرین بھی، تاجر بھی، بیوروکریٹس بھی، اب زبانی کلامی حب الوطنی سے کام نہیں چلے گا میں یہ سطور بہت دل آزردگی کے عالم میں لکھ رہا ہوں ان کا اگر سر پیر نہ ہو اور مجموعی تاثر نہ بن رہا ہو تو مجھے معاف کر دیں کہ دل بہت اداس ہے۔

تازہ ترین