• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا شدید مشکلات کے باوجود قومی معیشت کی بحالی کے معاملے میں پُراعتمادہونا یقینا نہایت امید افزاء بات ہے جس کا اظہار ان کے بیانات اور گفتگوؤں میں تواتر سے ہورہا ہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ کے حوالے سے تاجر برادری کے نمائندوں سے گزشتہ روز ہونے والی ملاقات میں بھی وزیر خزانہ نے اپنے اس عزم و یقین کا بھرپور اعادہ کیا تاہم یہ صراحت بھی کی کہ سابقہ دور کی غلط پالیسیوں اور عالمی حالات کے باعث پاکستان جس معاشی بحران میں گھر چکا ہے اس سے فوری طور پر نجات ممکن نہیں۔ہفتے کو زبیر موتی والا کی قیادت میں ایوان صنعت و تجارت کراچی کے وفد سے ایف بی آر کے مرکزی دفتر میں ملاقات کے موقع پر وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت تاجر برادری کے تمام جائز مطالبات تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی لیکن خواہشات کی فہرست کو محدود رکھا جائے کیونکہ ملک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے اورمعیشت کی فوری بحالی ممکن نہیں۔ وزیر خزانہ کے اس موقف کی معقولیت بالکل واضح ہے۔پچھلے دور حکومت میں سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے کے معطل ہوجانے اور آئی ایم ایف سے ایسی سخت شرائط پر معاہدہ کرلینے جس پر اس وقت کے گورنر پنجاب چیخ اٹھے تھے کہ آئی ایم ایف نے ہم سے ہمارا سب کچھ لکھوالیا ہے، پھر اس معاہدے کی پابندی کرنے کے بجائے برملا خلاف ورزی کرنے جیسی غلطیوں کے علاوہ کووڈ کی وبا ، روس یوکرین تنازع جبکہ موجودہ دور حکومت میں ملک گیر سیلاب نے معیشت پر نہایت منفی اثرات مرتب کیے ۔ مزید یہ کہ آئی ایم ایف نے بالکل ناقابل فہم طور پر پاکستان کی جانب سے تمام شرائط پوری کردیے جانے کے بعد بھی لیت و لعل کی روش اختیار کررکھی ہے جس نے پاکستان کے لیے دیگر ذرائع سے بھی مالی وسائل کے حصول کو بہت مشکل بنادیا ہے۔ یہ تمام عوامل قومی معیشت کی تیز رفتار بحالی میں جس درجہ رکاوٹ ہیں وہ محتاج وضاحت نہیں۔ وزیر خزانہ نے اسی تناظر میں وضاحت کی ہے کہ معیشت کی فوری بحالی ممکن نہیں ۔اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ ہم بڑی مشکل اصلاحات کرچکے ہیں جس کے بعد آئی ایم ایف معاہدے میں تاخیر کی کوئی تکنیکی وجہ نہیں۔اس صورت حال کے باوجود ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات کو بے بنیاد قراردیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اب حالات بہتری کی طرف جارہے ہیں، شراکت داروں کے تعاون سے مشکل اقتصادی صورت حال اورچیلنجوں پر قابو پالیں گے، پاکستان نے بیرونی ادائیگیوں میں کوئی تاخیر نہیں کی،عالمی فنڈ میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ پاکستان سروائیو کیسے کر رہا ہے ۔ملک پر 100 ارب ڈالر قرضہ ہے تو ایک ٹریلین ڈالر کے اثاثے بھی ہیں لہٰذا پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔وزیر خزانہ کے بیان کردہ اس نکتے کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ پاکستان اپنے بعض اثاثوں کی نجکاری کرکے اپنے قرضے ادا کرسکتا ہے۔ بلاشبہ پاکستان کیلئے یہ راستہ موجود ہے اور ایسے سرکاری ادارے جو منافع بخش نہیں ہیں ان کی نجکاری کی کارروائی کا جلد از جلد شروع کیا جانا وقت کا ناگزیر تقاضا نظر آتا ہے تاہم یہ عمل شاید انتخابات کے بعد نیا مینڈیٹ لے کر آنے والی حکومت ہی شروع کرسکے گی۔موجودہ حکومت کی توجہات کا اصل محور آئندہ مالی سال کا بجٹ ہے جو اس کی انتخابی کارکردگی میں بھی کلیدی اہمیت کا حامل ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ سخت مالی مشکلات کے باوجود وزیر خزانہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ بجٹ کاروبار اور عوام دوست ہوگا۔ بلاشبہ حکومت کو بجٹ میںمہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں پستے عوام کی مشکلات میں فوری کمی کی ہر ممکن تدبیر کرنی چاہیے جبکہ معاشی زبوں حالی کے مستقل خاتمے کیلئے واضح روڈ میپ بھی پیش کرنا چاہیے تاکہ عوام اور سرمایہ کاروں کا اعتماداز سرنو بحال ہو اورحالات میں پائیدار بہتری کا عمل شروع ہوسکے۔

تازہ ترین