• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر چار میں سے ایک پاکستانی، پھیپھڑوں کے عوارض کا شکار

پاکستان کے بڑے شہر فضائی آلودگی کی لپیٹ میں ہیں، جس کے سبب پھیپھڑوں اور دل کے امراض بھی بڑھ رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، اِن بیماریوں کے پھیلنے میں انسانی کردار کا بھی دخل ہے، جیسے منفی طرزِ زندگی، گلی محلّوں میں کچرا جلانا، درختوں کا نہ لگانا، تمباکو نوشی، زیادہ چربی والی اور مرغن غذاؤں کا استعمال۔

ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق، ہر چار میں سے ایک پاکستانی پھیپھڑوں یا دل کے عارضے کا شکار ہے کہ تمباکو کے دھوئیں، ایسبیسٹاس یا فضائی آلودگی میں سانس لینے سے پیدا ہونے والے انفیکشنز پھیپھڑوں اور نظامِ تنفّس کو متاثر کرتے ہیں۔ جب کہ پلمونری بیماریوں میں دَمہ، پھیپھڑوں کے افعال میں دائمی رکاوٹ(سی او پی ڈی)، پلمونری فائبروسس، نمونیا اور پھیپھڑوں کا سرطان شامل ہیں۔ دمے کو عموماً پھیپھڑوں کی خرابی یا سانس کی بیماری بھی کہا جاتا ہے اور یہ خاصا تکلیف دہ مرض ہے، جب کہ پھیپھڑوں کے افعال میں دائمی رکاوٹ دنیا بَھر میں موت کی تیسری بڑی وجہ ہے۔ اس کے سبب ہونے والی70 سال سے کم عُمر افراد کی90 فی صد اموات، پس ماندہ یا تیسری دنیا کے ممالک میں ہوتی ہیں۔

اِسی مرض کی ایک قسم پھیپھڑوں میں ٹشوز کو مستقل نقصان پہنچاتی ہے، جس سے سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ سی او پی ڈی کے مرض میں مستقل برونکائٹس شامل ہے، جس کی وجہ سے ہوا کی نالیوں میں سُوجن کے ساتھ پھیپھڑے داغ دار ہوجاتے ہیں اور ہوا کی چھوٹی تھیلیوں کو نقصان پہنچتا ہے۔پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمباکو کا دھواں یا کیمیکلز بھی پھیپھڑوں اور ہوا کی نالیوں کو تباہی سے دوچار کرتے ہیں، البتہ اگر اِن امراض سے متعلق عوامی شعور کو فروغ دیا جائے، تو شرحِ اموات میں کافی کمی لائی جا سکتی ہے۔

یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ سینے کے ایکس رے سے سرطان، انفیکشن یا پھیپھڑوں کے آس پاس جمع ہونے والی ہوا کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔ پھر ایک سرے، پھیپھڑوں کی دائمی حالت بھی دِکھا سکتے ہیں، جیسے ایمفیسیما یا سسٹک فائبروسس۔ دراصل، ایکس رے سینے کے اندر اور اس کے آس پاس کے ڈھانچے کو دیکھنے کے لیے ایک تیز اور بے درد امیجنگ ٹیسٹ ہے۔ یہ ٹیسٹ نمونیا، دل کی خرابی، پھیپھڑوں کے سرطان، تپِ دق، سارکوائڈوسس، ایمفیسیما اور پھیپھڑوں کے ٹشوز کے داغ کی تشخیص اور جانچ میں بہت مدد کرتا ہے۔نیز، عوام کو اِس حقیقت سے آگاہ کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ پلمونری فائبروسس کا کوئی علاج نہیں۔ 

اس کے دست یاب علاج کا مقصد پھیپھڑوں پر مزید داغوں کو روکنا، علامات دُور کرنا اور مریض کو فعال، صحت مند رہنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ اس مرض کی ابتدائی علامات میں بعض اوقات تھکاوٹ، سانس لینے میں دقّت اور مخصوص خشک کھانسی شامل ہیں، لیکن کچھ لوگوں کو پہلے مرحلے میں علامات کا بالکل بھی اندازہ نہیں ہو پاتا، لیکن الیکٹروکارڈیو گرام (ای سی جی) دائمی پلمونری بیماری کی بہت سی علامات کو ظاہر کر دیتا ہے۔جب کہ پھیپھڑوں اور چھاتی کے ماہر معالجین عموماً دوا، آکسیجن تھراپی، پلمونری بحالی، پھیپھڑوں کی پیوند کاری اور طرزِ زندگی میں تبدیلیوں کی سفارش کرتے ہیں، جن سے متاثرہ شخص کو ریلیف ملتا ہے۔یاد رہے، پھیپھڑوں کے افعال میں دائمی رکاوٹ سے متاثرہ افراد کے جسم میں درد کی شرح بدلتی رہتی ہے، جو32 فی صد سے82 فی صد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ درد کی شدّت اعتدال سے لے کر شدید بتائی جاتی ہے، جب کہ درد کی عام جگہیں گردن، کندھے کے بلیڈ اور کمر کے نچلے حصّے ہوتے ہیں۔

اِس مضمون کا مقصد سی او پی ڈی کے مریضوں میں خوف وہراس پیدا کرنا نہیں، بلکہ اُنہیں اِس مرض سے لڑنے کا حوصلہ فراہم کرنا ہے۔یاد رکھیں، ایک ماہر ڈاکٹر بھی اُس وقت تک آپ کی صحت بحال کرنے میں مددگار نہیں ہو سکتا، جب تک آپ اُس کی ہدایات پر سختی سے عمل نہ کریں۔ کچھ مریضوں کی حالت آہستہ آہستہ بحال ہو جاتی ہے، مگر پلمونری فائبروسس سے متاثرہ مریضوں کی بحالی میں کئی سال بھی لگ سکتے ہیں، جب کہ بہت سے مریضوں کی کیفیت زیادہ تیزی سے تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔ 

واضح رہے، متوازن غذا، ورزش اور پھیپھڑوں کی حفاظت مریض کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار کے حامل ہیں۔بعض اوقات سی او پی ڈی کے باعث خون کی رگوں میں لوتھڑے بن جاتے ہیں، جس سے صحت یابی میں وقت درکار ہوتا ہے۔مثال کے طور پر اگر کسی ماہر ڈاکٹر نے صرف ادویہ سے علاج کیا، تو مریض تیزی سے صحت یاب ہو سکتا ہے۔ تاہم، اوپن سرجری ہونے پر اُنہیں اپنی طاقت دوبارہ بحال کرنے میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔پھیپھڑوں کی عام بیماریوں میں دمہ، پھیپھڑوں کا کچھ یا پورا حصّہ گل جانا، ہوا کے اہم راستوں(برونیل ٹیوبز) میں سوجن اور سوزش (برونکائٹس)، پھیپھڑوں کے افعال میں دائمی رکاوٹ، سرطان، انفیکشن(نمونیا)، پھیپھڑوں میں غیر معمولی طور پر سیال کا جمع ہونا (پلمونری ورم) شامل ہیں۔ 

برونکائٹس یا پھیپھڑوں کے وَرم کی سب سے بڑی وجہ تمباکو نوشی ہےکہ40 سال کی عُمر سے زائد کے ہر دوسرے تمباکو نوش میں پھیپھڑے کے وَرم کی تشخیص ہوتی ہے۔پھر تمباکو نوشی جس قدر زیادہ ہوگی، مرض کی شدّت بھی اُتنی ہی بڑھتی جائے گی۔ اِس مرض میں مبتلا90 فی صد افراد تمباکو نوشی کی لت میں مبتلا ہوتے ہیں یا ماضی میں رہ چُکے ہوتے ہیں۔اِس سے نجات کے لیے فوری طور پر تمباکو نوشی ترک کرنا اور طبّی علاج کا سہارا لینا ناگزیر ہے۔یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پھیپھڑے آکسیجن فلٹر کر کے اُسے جسم کے دیگر حصّوں تک پہنچاتے ہیں اور جسم کے اندر موجود، صحت کے لیے نقصان دہ کچرا صاف کرتے ہیں،لیکن فلٹرز بلاک ہونے کی صُورت میں پھیپھڑے اپنے معمول کا کردار ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق سگریٹ نوشی ترک کرنے کے تقریباً چار ہفتوں بعد کھانسی ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے،لیکن اگر وقت پر مؤثر علاج نہ کیا جائے، تو یہ پھیپھڑوں کے سرطان کا سبب بن سکتی ہے۔ کھانسی چند روزہ ہو، برونکائٹس کی شکل اختیار کر چُکی ہو یا خشک اور شدید ہو، اس کا تعلق نظامِ تنفّس میں پیدا ہونے والے کسی نقص سے ضرور ہوتا ہے۔ شدید کھانسی عموماً تین ہفتے رہتی ہے اور کھانسی کی چند دیگر اقسام بھی ٹھیک ہونے میں کبھی کبھی خاصا وقت لے لیتی ہیں۔ 

عام طور پر کھانسی کا سبب گلے کی خرابی، حلق کی سوزش، سانس کی نالی میں کسی قسم کا انفیکشن یا پھیپھڑوں کی خرابی بنتی ہے۔جب کہ پھیپھڑوں کی مخصوص نالیوں میں مسلسل نقص رہنے کی صُورت میں برونکائٹس کا عارضہ جنم لیتا ہے،جس کے ابتدائی مرحلے میں مریض کو خشک کھانسی کا سامنا رہتا ہے۔ اگر اس مرحلے پر صحیح علاج نہ ہو سکے، تو پھیپھڑوں کی نالیوں میں بلغم جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے، نتیجتاً پھیپھڑے اپنا نارمل فنکشن انجام نہیں دے پاتے اور مریض کو سانس لینے میں دشواری ہونے لگتی ہے، جو خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ پھیپھڑوں کی نالیوں میں جمع ہونے والا بلغم، نزلہ زکام کے جراثیم کی آماج گاہ بن جاتا ہے اور وہ وہاں تیزی سے نشوونما پانے لگتے ہیں۔ 

یہ بلغم کبھی کبھی شدید کھانسی کی صُورت بھی باہر نہیں نکلتا، نالیوں کو جکڑے رکھتا ہے اور اکثر پھیپھڑوں کے مہلک انفیکشن کا سبب بن جاتا ہے۔ماہرین کے مطابق صرف کھانسی ہی پھیپھڑوں کی صحت خراب ہونے کی نشانی نہیں، بلکہ کئی دیگر خاموش علامات بھی ہیں، جنہیں جاننا ضروری ہے۔ کھانسی کے دَوران منہ سے خون کا آنا خطرے کی گھنٹی ہے، جس پر ڈاکٹر سے فوری رجوع کرنا چاہیے کہ یہ پھیپھڑوں کے سرطان اور ٹی بی کی علامت بھی ہوسکتی ہے۔اگرچہ ایک ٹانگ میں سوجن اور درد کے نتیجے میں ایسا لگتا ہے کہ اس کا پھیپھڑوں کے مرض سے کوئی تعلق نہیں، مگر یہ بھی مرض کی ایک علامت ہوسکتی ہے، جس میں ٹانگ کی ایک رگ میں خون جمنے کے باعث لوتھڑا بن جاتا ہے۔ 

امریکی تحقیق کے مطابق ٹانگ کی رگ میں لوتھڑے کا اثر پھیپھڑوں تک جاسکتا ہے۔ پھیپھڑوں میں لوتھڑے کی موجودگی خون کی گردش بلاک کرکے سنگین نوعیت کا نقصان پہنچا سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں تیس فی صد مریضوں کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔عام طور پر پھیپھڑوں میں کوئی معمولی مسئلہ ہو اور نزلہ زکام لاحق ہوجائے، تو دَمے کے مریض کی طرح سانس لینے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔

جب کہ طبّی ماہرین کے مطابق، اگر کسی کو گہری سانس لینے میں مشکل کا احساس ہو، تو اسے فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ خون کے ایک عام ٹیسٹ کے ذریعے کسی بھی ممکنہ مرض، جیسے پھیپھڑوں کے امراض(جن میں ہوا گزرنے کی راہیں بند یا رکاوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں)، خون کی کمی یا اینیمیا کی نشان دہی ہوسکے۔ سانس لیتے ہوئے خرخراہٹ کی ایک اور ممکنہ وجہ بالغوں کو الرجی سے ہونے والا دمہ ہوسکتی ہے، جو کہ بچپن میں لاحق ہونے والے دَمے سے زیادہ خطرناک ہے۔

یاد رہے، کھانسی، ہوا کی نالی اور پلمونری سوزش سے پیدا ہونے والے بلغم کو ہٹانے میں معاون ثابت ہوتی ہے، جب کہ اس بلغم میں خون بھی ہو سکتا ہے۔ اگر برونکائٹس یا نمونیا ہو جائے، تو کھانسی ہو سکتی ہے، جس کے نتیجے میں گہرے رنگ کا موٹا بلغم پیدا ہوتا ہے۔پھیپھڑوں کے انفیکشن کی وجہ سے سینے میں ہونے والے درد کو اکثر تیز یا چُھرا گھونپنے کے طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ کھانسی یا گہرا سانس لینے پر سینے کا درد بڑھ جاتا ہے اور یہ تیز درد کبھی کبھی وسط سے اوپری کمر میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جسم انفیکشن سے لڑنے کی کوشش کرتا ہے، تو بخار ہو جاتا ہے اور اگر پھیپھڑوں میں بیکٹیریل انفیکشن ہو، تو بخار خطرناک حد تک پہنچ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، پٹّھوں میں درد، پانی کی کمی، سر درد اور کم زوری لاحق ہو سکتی ہے۔ ایسی کیفیت درپیش ہو، تو اپنے معالج سے رابطہ کریں اور اس کی ہدایات پر مکمل طور پر عمل کریں۔ (مضمون نگار، جناح اسپتال کراچی میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں اور پاکستان چیسٹ سوسائٹی (سندھ چیپٹر) کے جنرل سیکرٹری ہیں)