قُرآنِ مجید کی پہلی سورت، سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے ’’انعمت علیہم‘‘ کہہ کر واضح کر دیا کہ جب بھی دُعا مانگی جائے، تو نیک لوگوں کا ساتھ مانگا جائے۔ اسی طرح اللہ فرماتا ہے۔ ترجمہ : اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ۔ (سورۃ التوبہ، 119)۔
تفسیرِ قرآنِ پاک، صراط الجنان کے مطابق، اِس آیت سے نیک لوگوں کی صُحبت میں بیٹھنے کا ثبوت ملتا ہے، کیوں کہ ان کے ساتھ ہونے کی ایک صُورت ان کی صُحبت اختیار کرنا بھی ہے اور ان کی صُحبت اختیار کرنے کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ ان کی سیرت و کردار اور اچّھے اعمال دیکھ کر ہمیں خُود بھی گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی توفیق مل جاتی ہے۔
نیز، دل کی سختی ختم ہوتی اور اس میں رِقَّت و نرمی محسوس ہوتی ہے اور ہمارا یہ عمل ہی ہماری دُنیاوی و اُخروی کام یابی کی کُنجی ہے۔ اس ضمن میں حضورِ پُر نورﷺ نے ارشاد فرمایاکہ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، تو اُسے دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے۔ (ترمذی) ایک انگریزی مقولہ ہے A man is known by the company he keeps۔
یعنی اگر کسی شخص کی خصلت، فطرت، عادت اور سرشت کو جاننا ہو، تو اس کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اُس کا دوست کون ہے۔ ؎ کُنَد ہم جنس باہم جنس پرواز… کبوتر بہ کبوتر باز بہ باز (آدمی اپنے جیسے ہی کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے، جیسا کہ کبوتر کبوتر کے ساتھ رہتا ہے اور باز باز کے ساتھ)۔
باعمل علماء کی صُحبت میں بیٹھنے کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ اِس ضمن میں حضرت عبداللہ ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’علماء کی صُحبت میں بیٹھنا عبادت ہے۔ (مسندالفردوس) ایک موقعے پر نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا۔ ’’جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرو، تو چَر لیا کرو۔‘‘ عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ ﷺ! جنّت کے باغ کیا چیز ہیں؟ تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ’’علم کی مجالس۔‘‘ (معجم الکبیر)
اس ضمن میں حضرت شیخ سعدؔی شیرازیؒ کیا خُوب فرماتے ہیں کہ ؎ پسرِ نوحؑ بابداں بنشست…خاندانِ نبوّتش گُم شُد…سگِ اصحابِ کہف روزے چند…پئے نیکاں گرفتِ مردم شُد۔ (حضرت نوحؑ کا بیٹا بُرے لوگوں کی صحبت میں بیٹھا اور خاندانِ نبوّت کا فرزند ہوکر بھی تباہ و برباد ہوگیا، جب کہ دوسری جانب اصحابِ کہف کا کُتّا اصحابِ کہف کی صُحبت کی وجہ سے آج بھی پہچانا جاتا ہے۔
مزید برآں، مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ ؎ صُحبتِ صالح تُرا صالح کُنَد…صحبتِ طالع تُرا طالع کُنَد (اچھّے کی صحبت تُمہیں اچھا بنادے گی اور بُرے کی صحبت تُمہیں بُرا بنادے گی۔) پھر مشہور کہاوت ہے کہ ’’خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔‘‘پس، صحبت کا بھی کچھ ایسا ہی اثر ہوتا ہے۔
اِسی طرح فارسی میں کہتے ہیں کہ ہم نشینی اثر دارد۔ تو بس یوں کہیے، جس خوش بخت کو اچّھی صُحبت نصیب ہوجائے، اُس کے تو گویا وارے نیارے ہی ہوگئے کہ اچّھی صُحبت کی برکت سے اُس میں بھی اچّھی عادات کا ظہور، تو بُری عادات سے چُھٹکاراحاصل ہونے لگتا ہے۔
نیز، عمل کا جذبہ نصیب ہوتا ہے اور یوں وہ فرد بھی معاشرے میں ایک منفرد مقام حاصل کر سکتا ہے۔ جب کہ بدقسمتی سے اگر کسی کو بُری صُحبت مل جائے، تو بس سمجھیں کہ اس کی ہلاکت کے دن شروع ہوگئے، کیوں کہ بُری صحبت کے اثرات انتہائی تباہ کُن ہوتے ہیں۔ کسی نیک سیرت، سادہ لوح انسان کو محض بُری صحبت بلندی سے پستی کی گہری کھائی میں گرا دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے اُن ذاکرین و شاکرین بندوں کی صحبت اور معیت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، جو صبح و شام اُس کی یاد میں مگن رہتے ہیں۔ مولانا روم کے درج ذیل اشعار اسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ ؎ مولوی ہرگز نہ باشد مولائے روم…تا غلامِ شمس تبریزی نہ شُد (جب تک مولانا روم کو شمس تبریزی کی صُحبت اور غلامی نصیب نہ ہوئی، تو اُس وقت تک وہ فقط مولوی تھے۔ شمس تبریزی کی صحبت نے انہیں مولوی سے مولائے روم بنا دیا)۔
یہ رسولِ اکرم ﷺ کی صحبت ہی کا تو اثر تھا کہ جس نے عرب کے صحرا نشینوں کو ’’صحابہ‘‘ کا مرتبہ دے دیا۔ صحبتِ مُصطفیٰﷺ نے صحابہؓ کوساری اُمّت کے سَر کا تاج بنا دیا۔
الغرض، اللہ تعالیٰ کے قُرب کی دولت صالحین اور اولیاء کی صُحبت و معیت سے ملتی ہے اور خشیّت ومحبت الٰہی کا سودا صوفیا کے بازار ہی میں ملتا ہے۔ اِسی لیے ہمیں چاہیے کہ ہم صرف اور صرف نیک لوگوں کی صُحبت اختیار کریں تاکہ دُنیا میں بھی نیکوں کے ساتھ شُمار کیے جائیں اور آخرت میں بھی اُنہی کے ساتھ ہوں۔