• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اندلس(Spain) میں اموی خلافت کی تاسیس، شان و شکوہ اور اُس کے عظیم ثقافتی، تہذیبی و علمی سرمائے کا ذکر پہلے کیا جا چُکا ہے کہ وہ دَور، جب یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، اُس وقت اندلس میں عظیم اموی سلطنت کی بنیاد رکھی گئی، جس کی ترقّی اور تمدّن کے آثار آج بھی وہاں موجود ہیں۔

خلافتِ راشدہ کے بعد، بنو اُمیّہ کا اقتدار شروع ہوا تھا، تو اُن کا ہر حُکم ران امیرالمومنین کہلاتا تھا، لیکن اِس خاندان کا طرزِ حُکم رانی بادشاہت کے مماثل تھا۔ اندلس میں قائم ہونے والی طویل خلافت بھی بنو اُمیّہ کی تھی، لیکن اس سلطنت کا بانی، عبدالرّحمان الدّاخل شروع میں سلطان ہی کہلاتا تھا۔929 عیسوی میں مسندِ اقتدار پر بیٹھنے والے، عبدالرّحمان النّاصر نے خُود کو سلطان کی بجائے خلیفہ قرار دیا اور امیر المومنین کہلانے لگا۔

اِس کے بعد اس خاندان کے حُکم ران بادشاہ کی بجائے خلیفہ ہی کہلاتے تھے۔ اُس سلطنت کا بانی، عبدالرحمان اوّل اموی تھے، جو شام میں بنو امیّہ کے زوال کے بعد عباسی حُکم رانوں کے جبروقہر اور قتل و غارت سے بچنے کے لیے شام سے فرار ہو کر مراکش چلا گئے تھے۔ اُن کی والدہ کا نام راح یا رداح تھا، جو مراکش کے بَربَر قبیلے، نفرہ سے تعلق رکھتی تھیں اور عبدالرحمان الدّاخل کے والد، معاویہ بن ہشام بن عبدالملک کی کنیز تھیں۔ اِس لحاظ سے مراکش عبدالرّحمان کا ننھیال تھا۔

اِسی نسبت سے عباسیوں کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے اُنھوں نے پناہ کے لیے مراکش کو ترجیح دی۔ بنو اُمیّہ قبیلے کے کئی اور لوگ بھی اُن کے ساتھ طویل سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے مراکش آگئے تھے۔ یہی لوگ اندلس کی فتح کے بعد وہاں جا کر آباد ہوئے تھے۔ والدہ کی نسبت سے عبدالرّحمان الدّاخل نے مراکش میں پناہ لی اور خُود کو عباسی جبر سے محفوظ تصوّر کیا۔ واضح رہے، مراکش کی غالب اکثریت بَربَر قبائل پر مشتمل تھی۔

مسلم تاریخ کے ایک عظیم جرنیل اور فاتحِ اندلس، طارق بن زیاد کا تعلق بھی بَربَر قبیلے سے تھا۔اس کے بعد1062میں مراکش میں مرابطین کی سلطنت قائم ہوئی، جس کے نام وَر جرنیل، یوسف بن تاشفین تھے، جنہوں نے عیسائی بادشاہ، الفانسو ششم کو شکست دے کر المراود(مرابطین) سلطنت قائم کی، جس میں مراکش، مغربی الجزائر اور جنوبی اندلس شامل تھے۔ 

مراکش کا اندلس سے صرف یہی تعلق نہیں تھا کہ اُس کے ساحل پر بحرِ اوقیانوس اور بحرِ متوسّط آپس میں ملتے تھے، بلکہ اندلس میں جانے والی مسلم فوجیں مراکش سے ہو کر گزرتی تھیں اور اُن میں بہت بڑی تعداد میں بَربَر قبائل کے جنگ جُو بھی شامل ہوتے تھے۔ 

یوسف بن تاشفین کے بعد مراکش میں ادریسی، مرابطین، موحدین اور مرین جیسے شاہی سلسلے قائم ہوئے۔ پندرھویں صدی کے آخری سالوں، یعنی1492 میں سات سو سال کی قدیم اور عظیم الشّان سلطنت کا خاتمہ ہوا اور شاہ فرڈیننڈ ثانی، ملکہ ازابیلہ اور پوپ اِنوسینٹ ہشتم (Innocent viii)کے حکم پر مسلمانوں اور یہودیوں کا قتلِ عام ہوا، تو جانیں بچا کر بھاگنے والے مسلمانوں اور یہودیوں نے آبنائے جبرالٹر پار کر کے مراکش ہی میں پناہ لی تھی۔ان کی نسلیں آج بھی وہاں موجود ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ اموی زوال کے بعد اندلس اور مراکش میں خلافت کی بجائے پہلی بادشاہت مشہور جرنیل، یوسف بن تاشفین نے 1062 عیسوی میں قائم کی تھی، جس کی وسعت مراکش، مغربی الجزائر اور جنوبی ہسپانیہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ مراکش شہر بھی یوسف بن تاشفین نے آباد کیا تھا۔ اس سلطنت کے بانی کا نصب العین اپنے تابع ساری سرزمین پر اسلامی نظام قائم کرنا تھا۔ یوسف بن تاشفین کے عہد سے طویل عرصے بعد تک بادشاہ کے لیے’’سلطان‘‘ کا لقب استعمال ہوتا رہا۔

یوسف بن تاشفین کے بعد مراکش میں تسلسل کے ساتھ کئی خاندان سریر آرائے اقتدار ہوئے، جن کے حاکِمِ اعلیٰ کو شاہ کی بجائے سلطان ہی کہا جاتا تھا۔ عمارتوں کی خُوب صُورت تعمیر کے لیے سُرخ پتھر کے استعمال کی وجہ سے مراکش شہر کو’’مدینۃ الحمرا‘‘ یعنی’’سُرخ عمارتوں والا شہر‘‘ کہا جاتا تھا۔

ہسپانیہ کے غرناطہ شہر میں شان دار تاریخی محل اور قلعے کا نام بھی’’الحمراء‘‘ ہی رکھا گیا تھا۔ مراکش کا سُرخ شہر بہت جلد پورے شمالی افریقا میں تعلیمی، تہذیبی و ثقافتی اور تجارتی مرکز بن گیا تھا۔ وہاں بہت سے دینی مدارس اور مساجد تعمیر کی گئیں۔ مختلف خاندانوں کے سیاسی عروج و زوال کے عرصے میں اسلام پوری آب و تاب کے ساتھ اپنا نور پھیلاتا رہا۔ کوئی خاندان بھی اسلام سے انحراف کی جسارت نہیں کر سکتا تھا۔

یوسف بن تاشفین کے بعد جو شاہی سلسلے مراکش پر حاکم رہے، اُن میں ادریسی، مرابطین، موحدِین اور مرین شامل تھے۔ پندرھویں صدی کے نصف آخر کے بعد ادریسی دوبارہ برسرِ اقتدار آئے، پھر وطاسی اور سعدی بادشاہت پر متمکّن ہوئے اور تمدّنی ترقّی کا سلسلہ جاری رہا۔ 

مراکش میں علوی سلطنت کے بانی، محمد علی الشّریف تھے، جنہوں نے سجلماسہ میں علوی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ پھر اُن کے بیٹے مولائی رشید بن علی الشّریف نے مراکش کے مختلف حصّوں میں قائم چھوٹی چھوٹی قبائلی حکومتیں ختم کر کے پورے مراکش پر اپنے خاندان کی بادشاہت قائم کی۔ 

علوی شاہی سلسلے نے 1631عیسوی میں بادشاہت سنبھالی اور وہاں اب تک اُسی خاندان کی حکومت ہے۔ مراکش کو ایک بہت بڑا اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ اُس کے شہر فاس میں859 میں دنیا کی سب سے قدیم یونی ورسٹی، جامعہ القروین قائم کی گئی۔ اس یونی ورسٹی کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اسے عقبہ بن نافع قرشی کی نسل سے تعلق رکھنے والی، فاطمہ الفہریہ نے اپنی بہن، مریم الفہریہ کے تعاون سے قائم کیا تھا۔ 

مراکش کا ایک اور امتیاز یہ ہے کہ مسلم اُمّہ کے مفادات اور وقار کے تحفّظ کے لیے اسلامی کانفرنس تنظیم (OIC 25) ستمبر1969 ء مراکش ہی میں قائم ہوئی تھی، جب آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ایک انتہا پسند عیسائی، ڈینس مائیکل نے مسجدِ اقصیٰ کو آگ لگا دی تھی۔ مفتیٔ اعظم فلسطین، شیخ امین الحسینیؒ کی اپیل پر مراکش کے شہر، رباط میں شاہ حسن ثانی کی قیادت میں مسلم ممالک کے قائدین کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں اِس تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

مراکش میں ایک ڈھیلی ڈھالی جمہوریت ہے اور سیاسی جماعتیں بھی موجود ہیں۔ انتخابات میں جیتنے والی جماعت مکمل اختیارات کے ساتھ یا کسی دوسری پارٹی کی شراکت سے حکومت بناتی ہے۔ اِس وقت حکومتی جماعت، تجمّع الوطنی للاحرار (National Rally of Independents) دو دوسری جماعتوں، Authenticity and Modernity اور Istiqlal Partyکی شراکت سے حکومت کر رہی ہے۔ عزیز غنوش وزیرِ اعظم ہیں۔ سیکولر اور مذہبی جماعتوں میں مقابلہ رہتا ہے۔ 

اسلامی مزاج کی سب سے بڑی اور مقبول پارٹی، جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ہے۔اس کا نام تُرکی کے صدر رجب طیب اردگان کی پارٹی سے ملتا جلتا ہے۔ یہ اعتدال پسند اسلامی جماعت ہے، لیکن مغربی دنیا میں اسے قدامت پسند پارٹی شمار کیا جاتا ہے۔ دو ہزار گیارہ سے دو ہزار اکیس تک کی حکومت میں یہ سب سے اہم اتحادی پارٹی تھی، لیکن دوہزار اکیس میں اسے شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ 

اس کے سربراہ اور مراکش کے اہم سیاست دان، عبد الالہ بن کیران (Abdul Ilah Bankiran) ہیں۔ یہ بادشاہت کی مخالف تو نہیں، لیکن مُلکی نظام اسلام کے مطابق دیکھنا چاہتی ہے۔ اپنے اقتدار کے دَوران یہ پارٹی بادشاہ سلامت کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہی۔ ایک اور اسلامی پارٹی، البدل الحضاری (Civilized Alternative) پر القاعدہ سے تعلق کا الزام لگا کر پابندی لگا دی گئی تھی، لیکن وہ بھی عوام میں مقبول ہے۔

مراکش، خلیجی ریاستوں کی طرح امیر مُلک نہیں ہے، بلکہ اس کا شمار ترقّی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ مسلمان بادشاہتوں میں عوامی ترقّی اور یک ساں خوش حالی کی مثالیں ہمیشہ بہت کم رہی ہیں۔ ہندوستان میں تاج محل جیسا شاہ کار اور عجوبہ تعمیر کروانے والے شاہ جہان کے عہد میں بھی مُلک کے سارے عوام خوش حال نہیں تھے۔ یہی حال مراکش کا ہے۔ 

فاسفیٹ نمک، ٹیکسٹائل، سیّاحت اور صنعت و تجارت اس کی آمدنی کے بڑے ذرائع ہیں۔ حالیہ دَور میں بہت کثرت سے استعمال ہونے والا لفظ ’’کرپشن‘‘ بدنامی کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اس کا مطلب حرام اور ناجائز طریقے سے مال کمانا ہے، لیکن اس لفظ کا تعلق صرف مال اور دولت سے نہیں، بلکہ اخلاق سے بھی ہے کہ جہاں عوام و خواص میں اخلاقی زوال ہوتا ہے، وہاں کرپشن یا بدعنوانی پروان چڑھتی ہے۔ 

مسلم ممالک میں بالائی طبقہ دینی اور اخلاقی لحاظ سے اکثر پستی کا شکار رہتا ہے، اِس لیے کرپشن بھی سب سے زیادہ اسی طبقے میں ہوتی ہے۔ مراکش میں بھی یہی صُورتِ حال ہے۔ سماجی طور پر مراکش میں ایک روایتی، تاریخی قدامت کا رنگ غالب ہے، لیکن کاسابلانکا، رباط، فاس، کلیز جیسے شہروں میں ہمارے لاہور، اسلام آباد اور کراچی کی طرح جدیدیت کے نقوش بھی اپنے جلوے دِکھا رہے ہیں۔

جدیدیت سے تعلق رکھنے والی اخلاقی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ مراکش، یورپ کا دروازہ ہے۔ اس کے سمندر سے تقریباً 14 کلومیٹر پار یورپی مُلک، اسپین(اندلس) ہے۔ مراکش کی پوش آبادیوں میں یورپی کلچر کی جھلکیاں نمایاں طور پر نظرآتی ہیں۔ بہرحال، یہ ایک ضمنی بحث ہے۔ مراکش میں بادشاہت ہے، لیکن سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ریاستوں کی طرح سیاست کا باب مکمل ٹھپ نہیں ہے۔ مراکش میں تیس، بتیس سیاسی جماعتیں ہیں۔ 

انتخابات بھی ہوتے ہیں اور سیاسی جماعتوں میں مسابقت بھی ہوتی ہے۔ مراکش میں شاہی خاندان اور اس کے مقرّب حلقوں کے دامن پر کرپشن کے داغ ہیں۔ اُن پر تنقید ہوتی ہے اور بدعنوانی کی نشان دہی بھی کی جاتی ہے۔ البتہ، صرف بادشاہ اور اُس کے خاندان پر تنقید و تنقیص کی اجازت نہیں ہے۔ دسمبر 2010ء میں مراکش کے پڑوسی مُلک، تیونس میں’’عرب بہار‘‘کا آغاز ہوا، تخت و تاج اُچھالے گئے اور اقتدار کے پرانے قصر منہدم ہوئے۔ 

اُس دَور میں مظاہرے مراکش میں بھی ہوئے، لیکن اُن کا مطالبہ شاہی نظام اور شاہی خاندان کا خاتمہ نہیں تھا۔ عوام اور سیاسی جماعتیں آئین میں تبدیلی کا مطالبہ کر رہی تھیں کہ قانون سازی میں بادشاہ کے اختیارات محدود ہوں اور پارلیمنٹ بااختیار ہو۔ 

تقریباً دو لاکھ مراکشی عوام کے مظاہرے میں تشدّد اِس لیے غالب نہیں آیا کہ بادشاہ نے مظاہروں کو کچلنے کے لیے سخت رویّہ اختیار کرنے کی بجائے نرمی برتی۔ یہ پہلی بار ہوا کہ مراکش کے بادشاہ اور شاہی خاندان پر کڑی تنقید ہوئی، لیکن بادشاہ نے کوئی سخت ردّ ِعمل نہیں دِکھایا۔ 

اُن مظاہروں میں حکومت اور شاہی خاندان میں پھیلی کرپشن پر احتسابی گرفت سخت کرنے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ مراکشی بادشاہ نے سیاست دانوں اور نوجوان مظاہرین کے مطالبات سے متعلق بظاہر ہم دردانہ طرزِ عمل اختیار کیا اور یہ تصوّر دیا کہ مطلوبہ تبدیلیوں کے لیے انقلاب کی بجائے ارتقائی راستہ اختیار کیا جائے گا۔ بادشاہ نے نومبر 2011ء میں نئے انتخابات کا اعلان کر دیا۔ 

عوامی مطالبے پر بَربَر زبان کو عربی کے برابر درجہ دے دیا گیا، لیکن یہ اعلانات عوام کو پوری طرح مطمئن نہ کر سکے۔ تعلیم یافتہ نوجوان نسل بے روزگاری کا شکار تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اُن کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے لیے کسی ٹھوس حکمتِ عملی کا اعلان کیا جائے، لیکن ابھی تک بے روزگاری غالب ہے۔

نوجوانوں کو اِس پر بھی اعتراض تھا کہ فوج کی اعلیٰ کمانڈ بادشاہ نے اپنے پاس کیوں رکھی ہوئی ہے۔ وزیرِ اعظم کا منصب تشکیل دے کر پارلیمنٹ کے تابع وزارتی کاؤنسل بنانے کی بجائے وزرا کی تقرّری و تنزلّی جیسے امور بھی بادشاہ نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں۔ بالادست مذہبی اتھارٹی بھی بادشاہ ہی ہے۔ نوجوان اس کے بعد بھی مظاہرے کرتے رہے، لیکن بہرحال وہاں تیونس، مصر، لبنان اور شام جیسی صُورتِ حال پیدا نہیں ہوئی۔

اب مجموعی طور پر مراکش کا نظام مستحکم ہے۔ معاشی ترقّی میں بھی کسی قدر تیزی آئی ہے۔ متنوع میدانوں میں ترقّی کی علامات نظر آ رہی ہیں۔ تاہم، بے روزگاری کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا، جب کہ سماجی اور نسلی مساوات میں بھی رکاوٹیں ہیں۔ مراکش 1912ء سے 1956ء تک فرانسیسی اور ہسپانوی سام راج کے تابع رہا۔ 

اِن سام راجی قوّتوں نے وہاں جان بوجھ کر ایسے مسائل پیدا کیے، جو آزادی کے بعد قائم ہونے والی حکومتوں کے لیے نوکیلے کانٹے بن گئے۔ خاص طور پر فرانس نے اپنے تابع ممالک میں نسلی اور مسلکی منافرتیں پیدا کرنے کا مکروہ کھیل کھیلا۔اس کی بدترین مثالیں شام میں سامنے آئیں اور مراکش بھی کسی قدر استعمار کے بوئے کانٹوں میں اُلجھا ہوا ہے۔ (مضمون نگار، لگ بھگ 40 برس تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ معروف مذہبی اسکالر اور کئی کتب کے مصنّف ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید