• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طیّبہ فاروقی، نیویارک (امریکا)

مسلمانوں کی کہانی نیویارک میں غلامی کے دَور سے شروع ہوتی ہے، جب وہ افریقا کے مختلف ممالک سے غلام بنا کر یہاں لائے جاتے تھے۔ اُن میں سے بیش تر مسلمان چُھپ چُھپا کر اپنا دین قائم رکھنے کی کوشش کرتے، جب کہ اِس حوالے سے یہ ایک مشکل دَور تھا۔ مذہبی آزادی تو دُور کی بات، عام انسانی حقوق کی خواہش کے جواب میں بھی تشدّد ہی ملتا تھا۔ 

گورے، کالے کی بنیاد پر امتیازی سلوک عام تھا، تو دوسری طرف، غربت کے بھیانک سائے تھے، لیکن اُسی دَور میں کچھ باہمّت افراد نے اسلام کی چنگاری کو بُجھنے سے بچانے کے لیے خاموش کوششیں شروع کیں اور نہ صرف اپنا دین بچایا، بلکہ دین دوسروں تک پہنچانے کا کام بھی شروع کیا۔ بیس ویں صدی کی ابتدا میں جو تبدیلی آنی شروع ہوئی، اُس کے نتیجے میں صنعتی اور معاشرتی انقلاب آیا، جس نے نسلی تعصّب میں دبے لوگوں کو بنیادی حقوق سے متعلق آگاہی و شعور فراہم کرنی شروع کی۔ 

میلکم ایکس اور علیجا محمّد جیسے لوگوں نے نیویارک کے مفلوک الحال، نسل پرست اور تشدّد پرور جیسے ماحول میں باہمی ہم دردی کے ذریعے عوام کو خُود سے قریب کیا اور یہی وجہ ہے کہ اِن قائدین کی نسلیں آج بھی اِس شہر میں اُن کا مشن زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ امیگریشن کا نرم قانون مختلف ممالک سے یہاں آنے والوں کے لیے ایک آسان راستہ ثابت ہوا، جس کے بعد لاکھوں افراد مختلف ممالک سے امریکا میں ہمیشہ کے لیے رہنے بسنے کے لیے آنے لگے، جن میں ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی تھی۔ 

اُنہوں نے سَستے علاقوں میں رہائش کے ساتھ، زندگی گزارنے کے لیے چھوٹے چھوٹے حلال کاروبار شروع کیے اور اِس شہر کو نت نئے پکوانوں اور اپنی منفرد تہذیب و ثقافت سے ایک نئی شکل و صُورت دی۔ یہ وہ لوگ تھے، جو امریکا کو’’جنّت‘‘ سے تشبیہ دے کر اور اپنا سب کچھ قربان کرکے یہاں آئے۔ بہت سے اپنے مُلک میں افسران تھے، مگر یہاں خوشی خوشی کلرک بن گئے۔ وہاں کاروبار کرتے تھے، مگر یہاں کسی گیس اسٹیشن پر کھڑے ہوگئے تاکہ اپنے خاندان کو سہارا دے سکیں۔ 

معاشی تگ و دَو میں جُٹے اور اپنوں سے دُوری سے دوچار مسلمانوں کو دیارِ غیر میں ذہنی سکون اور مغرب کی برائیوں سے دُور رکھنے کے لیے نیویارک میں کام کرنے والی اسلامی تنظیموں نے ہمیشہ بہترین کردار ادا کیا ہے۔ ان کے رضاکار اپنی ملازمتوں کے بعد اپنا آرام و سکون بالائے طاق رکھ کر اکیلے پن سے دوچار مسلمان پردیسیوں کو دین سے قریب رکھنے کے ساتھ، اُن کی تنہائی بانٹنے کے لیے بھی کوشاں رہتے۔

لیکن…اِن حالات میں وقت نے یک دِم پلٹا کھایا اور’’ نائن الیون‘‘ نے سب کچھ بدل کے رکھ دیا۔ نفرت و تعصّب نے مسلمانوں کو غیر محفوظ کیا، اُن پر ملازمتوں کے دروازے بند ہوئے۔ جسمانی، معاشی حملوں نے بہت سوں کو واپسی اور بہت سوں کو اپنا حلیہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا، مگر وہ جو کہتے ہیں کہ’’ کبھی کبھی شر سے بھی خیرجنم لیتی ہے‘‘ تو حقیقتاً یہی ہوا۔ اِس اسلام مخالف ماحول میں بالآخر دینِ اسلام کی حقیقت جاننے کے شوق، قرآن پاک پڑھنے اور سمجھنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اصافہ ہوا۔

قرآنِ پاک کے لاکھوں نسخے غیرمسلموں تک پہنچے۔ اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھی اور مضبوط ایمان والوں کو اِن حالات نے بجائے دین سے دُور ہونے کے، دین میں پناہ لینا سِکھایا۔ مسلمانوں کے اتحاد اور بھائی چارے میں اضافہ ہوا۔ مساجد کی تعداد بڑھ گئی، قانونی جنگیں لڑی گئیں اور پھر کووِڈ آگیا، جس نے ایک بار پھر ساری دنیا ہلا کر رکھ دی، مگر نیویارک میں اسی کے سبب دینِ اسلام کی عزّت و احترام میں مزید اضافہ ہوا۔ 

جب نیویارک، قبرستان سی خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا، اُس وقت اسلامی تنظیموں کے کارکنان کے ساتھ، عام مسلمان شہریوں نے دن رات پورے شہر کی خدمت کی۔ گھر گھر جاکر بزرگ شہریوں اور چھوٹے بچّوں کو رنگ ونسل اور مذہب کی تفریق کے بغیر کھانا پہنچانے سے لے کر میّتوں کو اسپتالوں سے حاصل کرکے غسل اور تدفین کے فرائض جیسے امور سرانجام دیئے۔ انسانیت کی خدمت اور موت سے بے خوفی نے اُنہیں اِس کام میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے کہیں آگے رکھا۔

مسلمانوں نے دین اور دنیا دونوں کا خیر سمیٹا اور یہی وہ موڑ تھا، جس کے بعد مسلمان پہلے سے زیادہ پہچانے جانے لگے اور اسلام کا منفی تصوّر، مثبت رویّوں میں بدلنے لگا۔ مسلمانوں نے بھی نہ صرف دین کی تعلیمات کے فروغ کے لیے دن رات کام کیا بلکہ تعمیر وترقّی کی دوڑ میں بھی اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ وہ تیزی سے ہر شعبۂ زندگی پر چھانے لگے اور سب سے اہم تبدیلی یہ آئی کہ مسلمانوں نے سیاست کی اہمیت کو سمجھنا شروع کیا۔2017ء سےامریکا کی سیاست میں مسلمانوں کی شرکت کی حوصلہ افزائی شروع ہوئی۔ 

مختلف تنظیموں اور پڑھے لکھے مسلمانوں نے اِس بات کی ضرورت محسوس کرنا شروع کی اور رائے عامّہ ہم وار کرکے مسلمانوں کو یہ سمجھ بوجھ دی کہ اِس مُلک کی سیاست میں حصّہ لے کر ہی اسلام سے متعلق منفی تصوّرات کا خاتمہ ممکن ہے۔ نیز، یہی ایک صُورت ہے کہ بڑھتے اسلاموفوبیا کے مقابلے میں ایک بہترین سچ پیش کیا جائے۔ اِس کٹھن سیاسی سفر کی رکاوٹوں میں ایک بڑی رکاوٹ مسلمان امریکیوں کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنا تھا، جو یقیناً ایک بڑا چیلنج تھا۔ 

نیویارک میں مسلمانوں کی آبادی ایک ملین کے قریب ہے، جو اِس شہر کا کم وبیش12 فی صد ہیں، مگر بیش تر لوگ ووٹ نہیں دینا چاہتے تھے۔ ترقّی پذیر ممالک سے آنے والے اکثر مسلمان اپنے ممالک کے غیر شفّاف انتخابات کے تجربات کی بنا پر ووٹ کے استعمال سے بے زار دِکھائی دیتے تھے۔ ووٹ کا استعمال اُن کی نظر میں ایک بے مقصد کام تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ انتخابات کا کوئی بھی نتیجہ اُن کے حالات پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ 

انتخابی عمل صرف امریکا کے رہائشیوں ہی کے لیے فائدہ مند ہے، تارکینِ وطن کا اِس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اِن ہی وجوہ کے سبب مسلمانوں کی کئی نسلیں امریکا کے انتخابات میں حصّہ لینے کو ایک طویل عرصے تک غیر ضروری عمل سمجھتی رہیں۔ بہرکیف، ایک طویل جدوجہد اور پے در پے کوششوں کے بعد بالآخر مسلمانوں میں اِس بات کا شعور بے دار ہو ہی گیا کہ جس سرزمین پر اب رہنا، بسنا ہے، وہاں سے متعلق سیاسی شعور و بصیرت ایک ناگزیر ضرورت ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر عوام کا اعتماد جیت کر اُن کی خدمت کی جائے۔

بعدازاں، اِسی طرح کے دیگر عوامل نے مسلمانوں کو سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ووٹ کے استعمال پر آمادہ کیا۔ موافق حالات و واقعات کے تحت مسلمانوں نے مقامی اور اسٹیٹ کی سیاست میں حصّہ لینا شروع کیا تاکہ مُلک بھر میں معاشرتی رابطوں کی ایک بنیاد رکھی جا سکے، جو آنے والی نسلوں کے لیے سنگِ میل ثابت ہو اور یہ اِسی سیاسی بصیرت کا نتیجہ ہے کہ آج کی نئی نسل اپنا یہ حق بھرپور طریقے سے ادا کرنا چاہتی ہے اور ادا کر رہی ہے۔ 

یہی حالات رہے، تو اُمید ہے کہ اگلے5 ،10 سالوں میں سیاسی میدان میں مسلمانوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا، کیوں کہ اب مسلمان یہ بات اچھی طرح سمجھ چُکے ہیں کہ اِس مُلک میں اُن کی سیاسی نمائندگی میں، جو طویل عرصے تک تعطّل کا شکار رہی، مزید تاخیر ایک بڑا نقصان ہے۔ اِسی سوچ کو لے کر مسلمان سیاست میں منظّم طریقے سے اپنی جگہ بنانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ 

وہ چاہتے ہیں کہ سیاسی منظر نامے پر اپنی پہچان بنائیں اور پھر اعلیٰ سطح تک اپنی آواز پہنچائیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج 189منتخب امریکی مسلمان عُہدے دار، تیس ریاستوں میں کانگریس کے ارکان، ریاستی قانون ساز، اسکول بورڈ اور عدلیہ جیسے اداروں میں اپنی جگہ بنا چُکے ہیں۔ اس کے علاوہ میئر، کاؤنسلر، اسکول بورڈ کے اہل کاروں میں مسلمانوں نے کئی نشستیں حاصل کی ہیں۔ قومی سطح پر اب تک81مسلمان، نمائندہ کاؤنسل میں،46اسکول بورڈز میں ہیں، جب کہ15 ججز ہیں۔

سیاست کے میدان میں اِن تمام تر کاوشوں، کوششوں کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے علاوہ یہ بھی تھا کہ مسلمان خود کو جدید دَور کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ہر سطح پر کام کا اہل ثابت کرسکیں، جس کی بہت بڑی مثال نیویارک جیسے بڑے اور اہم شہر کے مسلمان میئر کی کام یابی ہے، جن کی انتخابی مہم سے لے کر بے مثال کام یابی تک نے پوری دنیا میں دھوم مچائی۔ نیویارک کے میئر، ظہران ممدانی نے اپنی مہم کے دَوران اپنے مسلمان ہونے کا بے خوف و خطر اعتراف کیا۔ 

اس کے علاوہ آج کے سب سے اہم موضوع اسرائیل اور فلسطین پر اپنا واضح موقف پیش کیا۔ اِس مہم کے دَوران اُن کا سب سے اہم اور مثبت موقف یہ تھا کہ وہ تمام لوگوں کو ساتھ لے کر، جوڑ کر چلنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی بھی قوم اور مذہب کے لیے غیر محفوظ ماحول کے لیے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اِس شہر میں رہنے والا ہر فرد’’نیویارکر‘‘ ہے۔ سب کو یک ساں حقوق ملنے چاہئیں۔ وہ معاشرتی انصاف اور روز مرّہ کے مسائل حل کرنے کا ہدف لے کر میدان میں اُترے ہیں۔ 

ممدانی نے میئر شپ کے لیے جو مہم چلائی، وہ اپنے طرز کی ایک انوکھی مہم تھی۔ یہ مہم رضا کاروں کے ساتھ چلائی گئی اور اِس کی تیاری، کام کرنے والوں کی تربیت اور منصوبہ بندی وقت سے بہت پہلے ہی شروع کر دی گئی۔ روزانہ کی بنیاد پر کِن علا قوں میں جانا اور کِن لوگوں سے کس طرح بات کرنی ہے۔ کِن گلیوں اور گھروں تک پہنچنا ہے، اِن تمام امور کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی۔ اِن رضاکاروں نے 1.6ملین دروازے کھٹکھٹائے،247,000 ووٹرز کے ساتھ اُن کی بات چیت ہوئی۔ 

مہم کی ابتدا ہی میں مختلف سوالات کے ذریعے یہ جاننے کی کوششیں کی گئیں کہ لوگ ووٹ ڈالنے اور نہ ڈالنے سے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں، وہ کیا سوچتے ہیں؟ پھر یہ کہ کتنے ممدانی کے حق میں ہیں اور کتنے مخالف؟ اِن سوالات کے ذریعے ووٹرز کی فہرست رینکنگ کے ذریعے تقسیم کی گئی اور اہداف طے کرتے ہوئے سرگرمیاں ترتیب دی جاتی رہیں۔ یہ رضا کار فون اور دروازوں پر دستک کے ذریعے کم قابلِ رسائی علاقوں میں اور ایسی زبانیں بولنے والے ووٹرز تک بھی پہنچے، جن سے وہ بہت کم واقف تھے۔ انفرادی رابطے ایک بار نہیں، کئی بار کیے گئے۔ 

اِس کے علاوہ لوگوں کی آمدورفت کی عام جگہوں کو بھی رائے عامّہ ہم وار کرنے کے لیے خُوب استعمال کیا گیا۔ کسی بھی انتخابی مہم میں رضا کاروں کی محنت و مشقّت اہم کردار ادا کرتی ہے اور یہ حقیقت ممدانی کی جیت سے ثابت بھی ہوئی۔ ممدانی نے خود بھی ہر خاص وعام سے ملاقاتیں کیں۔ جو جیسا تھا، اُس سے، اُسی کے انداز میں بات کی گئی۔ وہ اسپتالوں، بازاروں، کیفیز اور اسٹیشنز پر ہر جگہ لوگوں کے درمیان نظر آئے۔ 

پولیس مین، ٹیچرز، فائر بریگیڈ کے عملے اور اسٹوڈنٹس یونینز سے بھی پوری طرح رابطے میں رہے۔ ممدانی نے نائٹ شفٹ میں کام والوں تک پہنچنے کے لیے بھی رات سے صبح تک رابطے کا کام جاری رکھا۔ یہ کسی بھی اُمیدوار کا خُود کو عوام النّاس میں مقبولِ عام کرنے کا ایک بہترین طریقہ تھا۔ اِس مہم کی کام یابی کا ایک بڑا سبب سوشل میڈیا کا بہترین استعمال بھی رہا، جس میں مقامی آبادی کی مختلف زبانوں میں ویڈیو کلپس کا اچھوتا انداز دِلوں کو چُھو جانے والا تھا۔ 

یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی بڑی تبدیلی کی بنیاد عوام کی طاقت ہوتی ہے اور اِس طاقت کی بنیاد، آج کی نوجوان نسل ہے، جس کے بغیر کسی تبدیلی یا کام یابی کا تصوّر تک ممکن نہیں۔ ممدانی کی مہم کو سب سے منفرد بنانے والا امر یہی تھا کہ اُنہوں نے سوشل میڈیا کے نوجوانوں تک پہنچنے والے تمام ذرائع فیس بُک، ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور ایکس وغیرہ استعمال کر کے اُنہیں اپنے شانہ بشانہ لا کھڑا کیا۔ 

اُن کا مقصد ایسے تمام افراد تک پہنچنا تھا، جنہیں روایتی سیاست کم متاثر کرتی رہی ہے۔ ممدانی نے عام افراد تک اُن کی اپنی زبانوں اور سادہ مثالوں کے ذریعے اپنی آواز پہنچائی اور یہی دراصل اِس مہم کا کمال تھا کہ عام لوگوں تک پہنچ کر اُنہیں اپنے ساتھ شامل کرکے سوشل میڈیا کے ذریعے منظّم کیا گیا، یعنی عوام کی طاقت کو ان کی جڑوں سے استعمال کیا گیا۔

ابتدا میں جب یہ مہم شروع کی گئی، تو وسائل اور افرادی قوّت دونوں ہی ناکافی تھے، لیکن بہت قلیل عرصے میں افرادی قوّت اور مالی امداد ہدف سے زیادہ حاصل کرلی گئی۔ یہ بھی کسی اُمیدوار کی ہمّت و حوصلہ افزائی کے ضمن میں بڑی پیش رفت اور کام یابی تھی۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ممدانی کے خلاف مہم میں26 ارب پتی شخصیات نے اُن کے مخالف امیدواروں پر22 ملین ڈالرز خرچ کیے، لیکن اس کے باوجود تاریخی جیت نے اُنہیں ایک’’ہیرو‘‘ بنا دیا۔

واضح رہے، ممدانی کی کام یابی کی بنیادی وجہ اُن کے مستقبل کے عزائم اور منصوبے بھی تھے، جن میں اِس گنجان آباد شہر کے بے پناہ مسائل میں گِھرے عام لوگوں کی زندگی آسان بنانا سرفہرست ہے۔ ان منصوبوں میں مفت بسز کی فراہمی، گھر کے کرایوں میں کمی، سَستے گروسری اسٹورز اور بچّوں کے لیے تعلیمی سہولتوں کے منصوبے وغیرہ شامل ہیں۔ 

ممدانی نے اِنہی کوششوں کے ذریعے ایک نہیں، دو اُمیدواروں کا مقابلہ کیا اور1969 ء سے اب تک کے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے، سب سے کم عُمر، پہلے مسلمان میئر ٹھہرے۔ بہرکیف، ظہران ممدانی اِن ہی وعدوں، دعووں کے ساتھ اگلے سال یکم جنوری کو اپنے عُہدے کا حلف اُٹھائیں گے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ اِن تمام دعووں، وعدوں کی تکمیل کے بعد یہ میئر اِس شہر کو کس طرح چمکاتے ہیں، مستقبل میں کیا ہونے والا ہے، آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن اب تک کے حالات نے یہ ضرور ثابت کردیا کہ غلامی کے اندھیرے سے شروع ہونے والے سفر کو باہمّت مسلمانوں، اُنہیں یک جا کرنے والی تنظیموں اور رہنمائی کرنے والے بے لوث قائدین نے بہرطور اپنی ہمّت ومحنت سے شہر کی قیادت کے حصول میں بدل ڈالا۔

سنڈے میگزین سے مزید