یہ انیسویں صدی کے نصف کی بات ہے، فرانسیسی ماہرِ تعلیم، لوئس بریل نے، جو بچپن میں ایک حادثے کے نتیجے میں بینائی سے محروم ہوگئے تھے، اپنے بچپن کی محرومی کے ازالے کے لیے ’’بریل رسم الخط‘‘ ایجاد کیا۔ بعدازاں، چھے نقطوں پر مشتمل یہ سادہ، مگر بامعنی ترکیب وقت کے ساتھ دنیا بھر میں نابینا افراد کی تعلیم، مطالعے اور روزمرّہ رابطے کا سب سے مؤثر وسیلہ بن گئی۔ تاہم، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس ایجاد نے دنیا بھر کے اندھیروں میں علم کی شمع روشن کی، اُس کے موجد کو اپنی حیات میں وہ پذیرائی نہ مل سکی، جس کا وہ حق دار تھا۔
اپنے تخلیق کردہ اس رسم الخط کو نابینا افراد کی باضابطہ تحریری زبان کے طور پر تسلیم کروانے کے لیے لوئس بریل نےحکومت اور تعلیمی اداروں سے بارہا رابطے کیے، مگر اسے قبول کرنے سے گریز کیا گیا، لیکن پھر وقت نے ثابت کیا کہ بے لوث جذبات، خدمت بالآخررنگ لاکر رہتی ہے۔ لوئس کی وفات کے بعد، جب یہ رسم الخط نابینا افراد میں تیزی سے مقبول ہونے لگا، تو بہرطوراہلِ علم کو اس کی افادیت کا اعتراف کرنا پڑا۔
سو، 1854ء میں پیرس سے شروع ہونے والا یہ سفر، طویل غور و فکر، اصلاحات اور بہتری کے مراحل طے کرتا آخرکار 1965ء تک دنیا کے متعدد ممالک میں تسلیم کرلیا گیا اور اس نظامِ کتابت کو تمام بڑی زبانوں نے اپنالیا۔ بعدازاں، بصارت سے محروم افراد سے اظہارِ یک جہتی اور اس کے موجد، لوئس بریل بے مثل خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہر سال 4جنوری کو، ’’ورلڈ بریل ڈے‘‘ منایا جانے لگا۔
پھر اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہی بریل ایک تحریری نظام کے ساتھ ساتھ قابلِ رسائی معلومات (Accessibility) اور مساوی تعلیمی حقوق کی عالمی تحریک کی علامت بن گیا۔ 2019ء میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے ’’ورلڈ بریل ڈے‘‘ کی باضابطہ منظوری نے اس حقیقت پر مہر ثبت کر دی کہ جدید دنیا کی ترقی اُس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک ہر فرد، چاہے وہ کسی بھی جسمانی معذوری کے چیلنج کا شکار ہو، علم اور معلومات تک یک ساں طور پر رسائی حاصل نہ کرلے۔ عالمی یومِ بریل دراصل، ہمیں ایک ایسی دنیا سے متعارف کرواتا ہے، جہاں ہر شخص اپنی صلاحیتوں سے قطع نظر تعمیر و ترقی کے عمل میں حصّہ لے سکتا ہے۔
واضح رہے، بریل ، تعلیم، آزادی اور اختیارات کے حصول کا ایک گیٹ وے ہے۔ جس کے ذریعے بصارت سے محروم لاکھوں افراد کو تحریری الفاظ تک رسائی کے قابل بنایا جاتا ہے جب کہ ’’عالمی بریل ڈے‘‘ کے موقعے پر عوامی مقامات، کام کی جگہوں اور تعلیمی اداروں وغیرہ میں بریل کی دست یابی کو فروغ دے کر، اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ معذور افراد اب کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے۔
نیز ہمارا اسلامی معاشرہ تو ہمیشہ سے اس تصور کو تقویت دیتا ہے کہ علم تک رسائی سب کے لیے یک ساں ہو، چاہے افراد آنکھوں سے محروم ہوں، مگر دل اور ذہن روشن رہیں۔ اسی فکری بنیاد پر اگر آج کے دَور میں ہم علم و آگہی اور ترقی کے نئے ذرائع تلاش کریں، تو یہ عین اسلامی مزاج کے مطابق ہوگا۔
عصرِ حاضر میں سیرتِ نبوی ﷺ کے انسانی تصوّر کو بنیاد بناکر اور بریل کے فلسفے کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑ کر دنیا کو ایک باخبر، باوقار اور ہر فرد کے لیے علم و آگہی سے بھرپور معاشرہ بنایا جاسکتا ہے۔ اسی تصور کو آج عالمی سطح پر معذور افراد کے حقوق، خصوصاً نابینا افراد کی تعلیم اور خودمختاری کے تناظر میں عملی شکل دی جا رہی ہے، جہاں بریل کو محض ایک تحریری نظام نہیں بلکہ انسانی وقار اور مساوی علم تک رسائی کی بنیاد سمجھا جا رہا ہے۔
یہ بات اب عالمی سطح پر تسلیم کی جاچکی ہے کہ بریل اب ماضی کی کوئی روایت نہیں، بلکہ نابینا افراد کے لیے خواندگی، خودمختاری اور باوقار زندگی کی بنیاد ہے۔ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور دوسری عالمی تنظیموں نے ورلڈ بریل ڈے کے موقعے پر بارہا اس امَر پر زور دیا ہے کہ بریل پڑھنے لکھنے کی صلاحیت نابینا افراد کو بہتر تعلیمی معیار، باعزت روزگار اور سماجی خود انحصاری سے جوڑتی ہے، جب کہ متعدد تحقیقات اور سروے رپورٹس اس تلخ حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ آج بھی بریل خواندگی کی شرح کئی ممالک میں تشویش ناک حد تک کم ہے، جس کا براہِ راست اثر اسپیشل افراد کی تعلیمی اور معاشی ترقی پر پڑتا ہے۔
ڈیجیٹل اور مصنوعی ذہانت کے اس دَور میں ایک عام غلط فہمی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ اسکرین ریڈرز اور ٹیکسٹ ٹو اسپیچ جیسی آڈیو سہولتیں بریل کا مکمل نعم البدل بن سکتی ہیں، حالاں کہ ماہرینِ تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ آڈیو، بریل کی جگہ نہیں لے سکتی۔ بریل نہ صرف زبان کے گہرے فہم اور درست تحریری صلاحیت کو پروان چڑھاتی ہے، بلکہ معلوماتی رازداری اور تنقیدی مطالعے میں بھی بنیادی کردار ادا کرتی ہے، جو صرف سماعت کے ذریعے ممکن نہیں۔ اسی لیے آج کے جدید دور میں آڈیو، بریل اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے متوازن امتزاج پر زور دیا جا رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجی نے اس میدان میں نئے امکانات پیدا کیے ہیں۔ ری فریش ایبل بریل ڈسپلے، بریل ای ریڈرز، براہِ راست کنورژن سروسز، اور AI پر مبنی OCR نظام اب تصاویر اور پی ڈی ایف دستاویز کو فوری طور پر بریل یا قابلِ رسائی ڈیجیٹل فارمیٹس میں تبدیل کر رہے ہیں۔
تاہم، عالمی سطح پر یہ مسئلہ بھی زیرِ بحث ہے کہ مذکورہ سہولتیں اکثر منہگی ہونے کے ساتھ، محدود یا کم وسائل والے ممالک میں نایاب ہیں۔ اسی وجہ سے اقوامِ متحدہ اور یورپی پالیسی فورمز میں مطالبہ کیا جاتا ہے کہ حکومتیں قابلِ رسائی ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے سبسڈی، مقامی مینوفیکچرنگ اور مضبوط تعلیمی انفراسٹرکچر کو ترجیح دیں۔
تعلیم کے میدان میں یہ بات اب ایک اصول کے طور پر تسلیم کی جارہی ہے کہ جب تک نصابی کتب، امتحانات اور تعلیمی مواد بریل، آڈیو اور ڈیجیٹل قابلِ رسائی فارمیٹس میں فراہم نہیں کیا جاتا، اس وقت تک نابینا بچّوں کی شمولیت محض نمائشی رہتی ہے۔ لہٰذا یہی وہ تصوّر ہے، جو مساوی مواقع، انسانی وقار اور پائے دار ترقیاتی اہداف (SDGs) کے عین مطابق ہے۔ دراصل، تعلیم اور معلومات تک مساوی رسائی کا اصل امتحان اُس وقت شروع ہوتا ہے، جب یہی علم، عملی زندگی، روزگار اور معاشی خودمختاری میں ڈھل سکے۔
اسی تناظر میں ملازمت اور معاشی شمولیت کے معاملے میں بریل خواندگی بچّوں سے لے کر بالغوں تک ایک مضبوط پُل کا کردار ادا کرتی ہے۔ مختلف تحقیقات اس امَر کی تصدیق کرتی ہیں کہ وہ نابینا افراد، جو بریل سے واقف ہیں، ان کے روزگار کے امکانات، فیصلہ سازی کی صلاحیت اور خود انحصاری میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔ سرکاری اور نجی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ اسپیشل افراد کی ملازمت میں شمولیت کے لیے بریل اسیسٹنس، ڈیجیٹل ایکسیسبل ٹولز اور ٹیکنالوجی پر مبنی تربیتی پروگرام لازمی تشکیل دیں۔ بالخصوص آئی ٹی، کسٹمر سروس اور ڈیجیٹل ڈیٹا ہینڈلنگ جیسے شعبوں میں مواقع موجود ہیں۔
اس عمل کو مزید تقویت دینے کے لیے مصنوعی ذہانت پر مبنی نئے آلات اور ایپس میں نابینا افراد کے لیے غیر معمولی امکانات ہیں، جہاں بصری شناخت،سیاق و سباق کی ترکیب اورآواز کے ذریعے راستہ دکھانا یا صوتی رہنمائی کے امتزاج سے ماحول کو حقیقی طور پر سمجھنا ممکن ہوچکا ہے۔ تاہم، اس پیش رفت کے ساتھ شفّافیت، رازداری اور ثقافتی جانچ بھی ناگزیر ہے، تاکہ اے آئی کی سہولت نابینا صارف کے لیے خطرہ نہیں، سہارا بنے۔ اسی جامع اور ذمّے دارانہ رویّے کے ذریعے تعلیم سے روزگار تک کا سفر باوقار اور پائے دار بنایا جا سکتا ہے۔
دنیا اس وقت ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے، جہاں علم کی رفتار، ٹیکنالوجی کی طاقت اور انسانی شمولیت کا سوال یک جا ہوچکا ہے۔ مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور جدید آلات اگر انسانی اقدار سے جڑے رہیں، تو وہ صرف سہولت ہی نہیں، بااختیار بنانے کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔ نابینا افراد کے لیے بریل اور ٹیکنالوجی کا امتزاج اسی بااختیاری کی علامت ہے، جو تعلیم سے لے کر روزگار اور ذاتی وقار سے لے کر سماجی شمولیت تک ایک مسلسل سفر کی صُورت اختیار کرلیتا ہے۔
لہٰذا ضرورت اس امَر کی ہے کہ ہم شمولیت کو خیرات کے بجائے حق اور قابلِ رسائی علم کو اضافی سہولت ہی نہیں، بنیادی ذمّے داری بھی تسلیم کریں۔ ریاستی پالیسی، تعلیمی تدبیر، صنعتی منصوبہ بندی اور سماجی شعور کو ایک ہی سمت میں رواں رکھنا ضروری ہے۔ جب بریل پڑھنے والے ہاتھ لکھنے لگیں گے، تو ٹیکنالوجی اپنی اخلاقی تکمیل کو پہنچے گی۔
یہی وہ شعور ہے، جو ہمیں ایک ایسے معاشرے کی طرف لے جاتا ہے، جہاں کوئی فرد بصارت کی محرومی کی وجہ سے علم سے محروم نہ ہو، اور کوئی ذہانت صرف اس لیے پیچھے نہ رہ جائے کہ دنیا نے اسے پڑھنے کے اوزار فراہم نہیں کیے۔ یہ ذمّے داری کسی ایک ادارے یا اس کا ایک دن منانے تک محدود نہیں، بلکہ ایک اجتماعی عہد ہے کہ روشنی صرف دیکھنے والوں کے لیے نہیں، سمجھنے والوں کے لیے بھی ہوتی ہے۔