• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: لائبہ مغل

آرایش/منہدی: ماہ روز بیوٹی پارلر

ملبوسات: منوش برائیڈلز

کوارڈی نیشن: محمّد کامران

عکّاسی: ایم۔ کاشف

لے آؤٹ : نوید رشید

حال ہی میں شایع ہونے والی ڈاکٹر سیّد امجد علی ثاقب کی کتاب ’’دید و شنید‘‘ میں پڑھا کہ ’’حُسنِ سیرت، حُسنِ گفتار، حُسنِ کلام، حُسنِ اخلاق، حُسنِ کردار، حُسنِ خیال اور حُسنِ اظہاررکھنےوالا انسان بدصُورت بھی ہو تو خُوب صُورت لگتا ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت کہ اُس کے تمام عیوب حُسنِ عمل بڑی خوبی سے چُھپا لیتا ہے، یعنی، حُسنِ سیرت، حُسنِ صُورت سے بدرجہا بہتر خصوصیت ہے۔ اور اگر کہیں یہ دونوں یک جا ہوجائیں، تو وہ انسان تو دنیا کا خُوش نصیب ترین انسان کہلانے کا مستحق ہوجائے گا۔‘‘ تو بھئی، حُسنِ سیرت کے لیے توجو بھی جتن، جستجو کرنی ہے، وہ آپ کو خُود ہی کرنی ہے۔

وہ کیا ہے کہ ؎ دل، دریا سمندروں ڈونگھے، کون دِلاں دیاں جانے، ہُو..... وِچے بیڑے، وِچے جھیڑے، وِچے ونجھ مہانے، ہُو.... چوداں طبق دِلے دے اندر، جِتھے عشق تمبو ونج تانے، ہُو..... جو دِل دا محرم ہووے باہو، سوئی ربّ پچھانے، ہو۔ یعنی’’دِل تو دریائوں اور سمندروں سے بھی گہرے ہوتے ہیں۔ کون اِن دِلوں کی باتیں جان سکتا ہے۔ کشتیاں، چپّو اور ملّاح سب اِسی دِل میں ہیں، چودہ طبق (پوری کائنات، تمام جہان) دِل کے اندر سمائے ہوئے ہیں اورعشق بھی یہیں ڈیرہ ڈالے بیٹھا ہے، لیکن سچّے ربّ کو صرف وہی پہچان سکتا ہے، جو اِس دِل کی دنیا کے سب بھائو بھید سے آگاہ ہوتا ہے۔‘‘ سو، اِس، مَن اندر کے اجیارے کا سامان توبہرحال آپ خُود ہی کریں گے۔ ہاں، ظاہر کے سنوار و نکھار کے لیے جو کچھ ہم سے بن پاتا ہے، وہ ہم ضرور کیے دیتے ہیں۔ جیسا کہ ہماری آج کی بزم، جو کہ ’’سولہ سنگھار‘‘ سے کچھ یوں آراستہ و پیراستہ ہے کہ عروسی پہناووں کے ساتھ جھومر، ٹیکے، جُھمکے، گلوبند، گہنے پاتے، کجرے، غازے، لالی، سُرخی اور خوب رَچی بسی، مہکی مہکی حنا کی ہم آمیزی نے پوری محفل ہی کو شعلۂ جوّالا سا کردیا ہے۔

وہ پروین شاکر کا بڑا سُندر سا گیت ہے ناں ؎ بال بال موتی چمکائے…روم روم مہکار…مانگ سیندور کی سُندرتا سے …چمکے چندن وار…جُوڑے میں جُوہی کی بینی…بانہہ میں ہار سنگھار…کان میں جگمگ بالی پتّا…گلے میں جگنو، ہار…صندل ایسی پیشانی پر…بندیا لائی بہار…سبز کٹارا سی آنکھوں میں…کجرے کی دو دھار…گالوں کی سُرخی میں جھلکے…ہردے کا اقرار…کَسا ہوا کیسری شلوکا…چُنری دھاری دار…ہاتھوں کی اِک اِک چُوڑی میں…موہن کی جھنکار…سہج چلے، پھر بھی پائل میں…بولے پی کا پیار …اپنا آپ دَرپن میں دیکھے…اور شرمائے نار…نار کے رُوپ کو انگ لگائے.....دھڑک رہا سنسار…گوری کرت سنگھار…گوری کرت سنگھار۔ تو، آج ہمارے یہ رنگ و انداز دیکھ کر آپ کو ایسا نہیں لگ رہا، جیسے پروین شاکر کا گیت، مجسّم ہوگیا ہو۔